سال ۰۲۰۲ کا وسط دنیا بھر کے طلباء و طالبات کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ یادیں تلخ ہوں یا حسین، یا دونوں کا امتزاج، گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ کچھ ایسے ہی تاثرات پاکستان میں زیر تعلیم ان طلباء کے ہیں جو آن لائن ایجوکیشن کے ستائے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھیے تو مظلومیت کے دعویدار طلبہ خود بھی واقف ہیں کہ کون کسے ستا رہا ہے۔ پس منظر کچھ یوں ہے کہ جب دھرتی پر کرونا وبا تہلکہ مچا رہی تھی، ہماری عوام مطمعین تھی کہ اس سے ہر حال میں محفوظ رہییگی۔ یہ ملک اگرچہ “چاند” کا ٹکڑا ہے، مگر مریخ پر بھی ہوتا تو اتنی مجال کہاں کہ ہونی کوٹال سکتا۔
آخر کار وائرس اس پاک سرزمین پر اپنے ناپاک عزائم کیساتھ حملہ آور ہو گیا۔ لاک ڈاؤن کے باعث نظام زندگی کا مفلوج ہونا حیران کن نہ صحیح ، البتہ پریشان کن بات ضرور تھی۔ خاص طور پہ تب جب افرا تفری کے عالم میں کوء ٹھوس اور جامع حکمت عملی بھی تیار نہ تھی۔ صورتحال کی سنگینی کا تعین کرنا قبل از وقت ہوتا مگر طلبہ کی اکثریت نے خوش فہمیاں پالنا شروع کر دیں۔ ان میں خوشی کی لہر کرونا کی لہر سے بیسییوں گنا زیادہ رفتار سے پھیلنے لگی۔ سر پر لٹکتی تلوار سے وہ معجزاتی طور پر بچا لئے گئے تھے۔ یوں لگا جیسے نسل در نسل کی صدق دل سے مانگی جانے والی دعاؤں کا نتیجہ ہو۔
مگر ان نادان پرندوں کو کہاں خبر تھی کہ اڑان بھرنے سے پہلے ہی ان کے پر کاٹ دیئے جائیں گے۔ ان کے پیر آن لائن ایجوکیشن کی بیڑیوں سے جکڑ دی جائیںگے۔
ایک نئے سفر کا آغاز ہوگا۔ یا یوں کہا جائے کہ سفرنگ کا۔ )suffering )حکومت اور متعلقہ ادارے حفظان صحت کے اصولوں کی دھجیاں اڑتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اس صورت میں انہوں نے اپنا فرض نبھایا اور چھٹیوں کا اعلان کر دیا۔ اب طلباء کی باری تھی۔ انہوں نے آنے والی نسلوں کیلئے جانثاری کی مثال قائم کرنے کی ٹھان لی۔ وہ پرعظم تھے کہ قومی سلامتی و بقاء کیلئے ان کو تعلیم کی قربانی دینا پڑے گی تو ہرگز پیچھے نہ ہٹیں گے۔
مگر قدرتی طور پر عجیب کیفیات کا شکار بھی تھے۔ وہ آن لائن ایجوکیشن نامی شہ سے ناواقف ضرورتھے مگر بدگمان ہرگز نہ تھے۔ ہمیں معلوم نہیں آن لائن تعلیم کی حقیقت دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا اگر سکول اور کالج کی خواری سے آزادی مل رہی تھی تو یہ” قید پڑھائی” ان کو قبول تھی۔ زیادہ سے زیادہ کیا صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں گی یہ خیال آتے ہی زہن سے جھٹک دیا جاتا۔ قناعت پسند طلباء نے سمجھوتے کے تحت ملنے والے اس نظام تعلیم پر صبر شکر کر لیا۔ کیونکہ “اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”
مگر یاد رہے کہ ہر کسی کا شمار صابرین اور شاکرین میں نہیں ہوتا۔ نہ ہر کوئی خاموش تماشائی بننے پر اکتفا کرتا ہے۔ نہ طلباء ذہنی طور پر تیار تھے، نہ تعلیمی ادارے عملی طور پر، اور نہ ہی پاکستان کا نظام تکنیکی طور پر۔ ایسے میں تعلیم کا معیار غیراطمینان بخش اور دستیابی محدود ہونے کی وجہ سے طلباء نے ہر پلیٹ فارم پر احتجاج کے بنیادی حق کا استعمال کیا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تو طوفان ہی برپا کر دیا۔ مگر ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ خیر اب اس میں بھی کوئی نئی بات نہیں تھی۔ دراصل وہ چاہ کر بھی ان مسائل پر راتوں رات قابو نہیں پا سکتے تھے۔
۔ فاصلاتی نظام تعلیم قائم ہونے واے اس زبردستی کے رشتے کی مثال اس شادی کی مانند تھی جس کے ابتدائی دن گزار اور باقی خار ہی خار لگتے ہیں۔ بہرحال قبول تو کرنا ہی تھا۔ مصنفہ اپنی ذاتی مثال دے تو یونیورسٹی کی طالبہ ہے جہاں شروعات واٹس ایپ سے کی گئی۔ اساتذہ اپنی آواز میں لیکچر اور ہدایات ریکارڈ کرکے بھیجتے، ساتھ متعلقہ مواد ارسال کر دیتے۔ یہ میسیج نظر انداز کر بھی دیں، مگر اٹینڈنس کے مقررہ وقت پر اکثریت پہنچ جاتی۔ یوں جیسے شادی کا کھانا کھل گیا ہو۔ راہ خدا کا خوف اور ہمسایوں کا خیال رکھنے والے دریادل پڑوسیوں کی چھت تک جانا پڑے۔
یا پھر کسی گھر والے بہن بھائی کے ساتھ معاہدہ کر کہ ایم بی ادھار لینے پڑیں، یعنی انٹرنیٹ نا بھی ہو اور کلاس نہ بھی لیں، حاضری لگوانا اولین ترجیح ہوتی۔ کیونکہ اس فعل کا خیر و عافیت سے سر انجام پانا ہر سعادت مند طالب علم پر فرض تھا۔ ایک ایسا فرض جس سے روگردانی برت کر وہ گناہ کے مرتکب نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ طریقہ واردات زیادہ دن چل نہ سکا۔ “زوم” متعارف کیا گیا جہاں باقاعدہ ویڈیو کانفرنس کال ہوتی تھی۔ اس داستان میں کالج یونیورسٹیوں کا ذکر ہو رہا ہے، تو ظاہر ہے کہ پیچھے سے اماں کے ہینگر اور چپلوں کی برسات نہ ہوتی تھی۔ لیکن منظر کچھ کم دلچسپ بھی نہ تھے۔
جب نیٹ ورک کی خرابی کا ڈھونگ کرنا مقصود ہوتا، اور کوئی بت کی طرح ساقط بیٹھ جاتا تو پیچھے سے کوئی ہاتھ ہلاتا اور شکل بناتا ضرور نظر آ جاتا۔ کلاس میں قہقہے لگنے پر پانچ منٹ کے لیے ویڈیو بند کی جاتی، مگر اس قلیل دورانیے میں اس بیگراونڈ پرفارمر کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا، یہ وہ معصوم جانے اور خدا جانے۔ کہتے ہیں ہر انسان کے اندر ایک اداکار کا ہوتا ہے، اور طلباء جانتے ہیں کہ صبح سے شام سکرین کے آگے پڑھنے کی کا ناٹک کرنا کس قدر مفید تھا۔ کم ازکم اس ڈر سے کہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے بیٹھ کر کتاب کھولنے کی کوشش ضرور کرتے۔ چاہے کتاب الٹی ہو اور روشنائی سے خالی قلم سے لکھ رہے ہوں، کچھ نہ کچھ لکھتے ضرور تھے۔ چلو کھول ہی لیتے تھے۔
مگر تعلیم آن لائن ہوئی تھی ،طلباء لائن پر تو نہیں آتھے۔ باز کیسے آ سکتے تھے۔ انہوں نے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنا کر اساتذہ کرام کی ناک میں دم کردیا۔ سب مل کر ناقص آواز کی شکایت پر اس قدر اصرار کرتے، کہ ٹیچر نیٹ ورک کی خرابی کے قائل ہوجاتے اور کلاس ملتوی کرنی پڑتی۔ بہت سے ایسے بھی تھے جنکا کلاس میں شرکت کا ایجنڈا حصول تعلیم نہیں بلکہ حصول تصاویر ہوتا۔ یا دوسرے الفاظ میں لطیفے بنانے کے لیے مواد کٹھا کرنا ہوتا۔ یہ ایک انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے۔ ستم ظریفی تو دیکھیں جو استاد “سائبر کرائم” پر لاکھوں روپے جرمانے کے بارے میں آگاہ کر رہے ہوتے انہیں کی کلاس میں یہ شرح جرم سب سے بلند ہوا کرتی تھی۔
دنوں کا پلٹنا تو ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس میں پڑھنے سے بچا جا سکتا تھا۔ مگر پراجیکٹ وغیرہ سے نہیں۔ اسائنمنٹس کی یلغار شروع ہوئی، اور دفاع انتہائی کمزور تھا۔ افسوس کہ جس وفادار دوست گوگل پر اعتبار کر کہ اسائنمنٹ بنائی جاتی ، وہی انہیں ادبی چوری کا ملزم ٹھہرا دیتا۔ ایسے میں کوئی ہمدرد غم کا مداوا کرنا بھی چاہتا تو زخموں پر نمک چھڑکتاہی محسوس ہوتا۔ مثلاً جب اساتذہ کرام پوچھتے کے اسائنمنٹس کیسی جارہی ہیں، کوئی دقت پیش تو نہیں آرہی، طلباء کو غالب کی یاد آ جاتی۔
دْکھ دے کر سوال کرتے ہو
تم بھی غالب کمال کرتیہو
اب کِس کِس کی مثال دوں تم کو
ہر ستم بے مثال کرتے ہو
کون جانتا تھا کہ وہ موبائل اور انٹرنیٹ جس کے ساتھ محبت اور وفا کا اٹوٹ رشتہ تھا، وہی زندگی کا روگ بن جائگا۔ نہیں، بے وفائی نہیں کی۔ بلکہ ضرورت سے زیادہ ہی وفاداری نبھا رہا ہے۔ پورا نظام تعلیم اس معصوم پر انحصار کرنے کا مطلب یہ ہے جسکو دیکھ کر جیتے تھے اب اسی سے جان جاتی ہے۔ اب تو زندگی ایسی ہوگئی ہے، کہ سو کر اٹھتے ہی دعا نہیں بلکہ ٹیچر کی ای میل پڑھتے ہیں، کے ازراہ کرم کلاس میں تشریف لایئے۔ اور ایسے سارا دن نکل جاتا ہے۔ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یونہی تمام ہوتی ہے داستان غم میں درد کے سلسلے ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے۔ سر درد ،کمر درد ، آنکھوں میں درد اور نہ جانے کتنی انواع و اقسام کے درد۔ تحقیقات کے مطابق لوگ آن لائن تعلیم کی وجہ سے ہمیں ذہنی امراض تشخیص میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
مگر انسان بڑا ناشکرا ہے۔ نعمتوں کا شکر بجا لانا تو دور ، ان کا شمار بھی نہیں کر سکتا۔ کیا ان کیمپس پڑھائی میں کلاس کے دوران نے پوری کرنے کی سہولیات موجود ہوتی ہے جن کا فائدہ آن لائن طلبہ اٹھاتے ہیں ( یعنی سو کر اٹھنا ،کلاس جوائن کرنا ،مائیک کیمرہ اور آڈیو بند کرنا پھر واپس سو جانا۔ یہاں تک کہ دوست فون کرکہ مطلع کرے اگلی کلاس ختم ہونے والی ہے وہاں آ کر سو جاؤں)۔ کیا اخراجات میں کمی نہیں آئی ۔ میکاپ کپڑوں اور پیٹرول کے لحاظ سے غیر یقینی بچت ہو رہی ہے۔ اور سب سے بڑی بچت سب سے قیمتی شے میں دیکھی جا سکتی ہے۔
یعنی وقت میں۔ گھر والوں کو دینے کے لیے وقت ہی وقت نکل آیا ہے۔ اور تو اور ، مزید فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ گھر والوں کے طنزیہ لہجے اور سوال طلب نظریں اب ستائش کی قائل ہو گئی ہیں، وہ فخر سے کہتے ہیں کہ ماشااللہ بچے سارا دن سکرین پر پڑھتے رہتے ہیں۔ اور پڑھتے کیا ہیں ؟ ہی تو پڑھنے والوں کو خود بھی نہیں معلوم۔ آخری بات غور طلب ہے۔ کیا یہ مجموعی طور پر ہم طلباء کے لئے لمحہ فکریہ نہیں؟ کیا ہماری کاوشیں تسلی بخش اور رویہ ذمہ دارانہ ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا اس آن لائن تعلیم کی ناکامی کی صورت میں ذمہ دار صرف اور صرف حکومت ہوگی۔
انتظامیہ اور متعلقہ ادارے ہوں گے۔ یا وہ اساتذہ جنہوں نے اپنے فرض سے بہت گناہ زیادہ محنت کر کہ اس سسٹم کو فعال اور فائدہ مند بنانے کی حتی الوسع کوشش کی ہے؟ شاید اس سوال کا جواب طلباء کے پاس موجود ہے۔سب کتنی بھی کوشش کر لیں جب تک طالب علم سنجیدہ نہیں ہوں گے، دنیا کا بہترین سسٹم بھی کار آمد ثابت نہیں ہوگا۔ تو پاکستان رات رہنے دیں جو انٹرنیٹ ان کلوزوانڈیکس میں 76 نمبر پر ہے۔ وزیر تعلیم شفقت محمود کی شفقت کے گن تو سب گاتے ہیں، چھٹیوں کے اعلان پر ان کی نسلوں تک کو دعائیں بھی دیتے ہیں۔
مگر یہاں کوچ قاسم علی شاہ کی وہ بات بھی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ابھی تک طلباء تعلیمی ادارے بند ہونے پر خوش ہیں تو مان لیجئے کہ انہیں کتابیں پڑھائی جا رہی تھی ، تعلیم نہیں دی جا رہی تھی۔ ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر طالبعلم احساس ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا موازنہ خود کرے۔ یہ اس بات کو ذہن نشین کرلے کہ موجودہ صورتحال میں ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے یا الزام تراشی کرنے میں ہمارا اپنا ہی نقصان ہے۔ اور تو اور شکر ادا کریں کہ وہ ان 14فیصد اداروں میں پڑھتے ہیں جہاں آن لائن تعلیم کی سہولت موجود ہے۔
ورنہ کرونا نے پاکستانی معاشرے میں طبقات کے درمیان حائل خلیج کو جس طرح مزید گہرا کیا ہے، اس کے اثرات نظام تعلیم پر بھی پڑے ہیں۔ اس لیے ساتھی طلباء سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ اگر یہ سہولت موجود ہے تو اس سے فیض یاب ہوں۔ اور خدارا اپنے مستقبل کے ساتھ کھیلنا بند کریں۔ اقبال کے جن شاہینوں نے ستاروں پر کمندیں ڈالنے تھیں، وہ ٹک ٹاک کے اداکار یا پبجی کے فوجی بنے نہیں رہ سکتے ۔ انہیں پختہ ارادہ کرنا ہوگا کہ آپ نے پر عائد ذمہ داریوں کو حتی الوسع پورا کریں گے۔ یہ احسان نہیں والدین اور وطن، دونوں کی جانب ان کا بنیادی فرض بنتا ہے۔ تعلیم آن لائن آ چکی ہے، خود بھی پٹری پر آجائیں۔ یعنی ارسر نواس راہ پر گامزن ہو جائیں جو کامیابی و کامرانی کی منازل تک جاتی ہے۔