اس صورتحال میں ملک کی چوٹی کی قیادت اقتدار کی ہوس میں اس قدر اندھی ہو چکی تھی کہ اسے ملک کی سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ مکتی باہنی کے ہاتھوں ہونے والے ہزاروں معصوم مرد، عورتوں اور بچوں کے قتل عام کی کسی کو پرواہ نہیں تھی۔جنرل یحییٰ خان ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں یہ باور کرایا گیاتھا کہ انتخابات میں کوئی بھی سیاسی پارٹی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔دوسری طرف شیخ مجیب اپنی منصوبہ بندی کیے بیٹھے تھے اور انہوں نے اپنی سیاسی جنگ میں تمام ہتھیار استعمال کیے۔ انہوں نے اپنا وقت اور پراپیگنڈہ مکمل طور پر مشرقی پاکستان کیلئے وقف اور مرکوز کر رکھا تھا۔
انہوں نے اپنے ہر جلسے میں مغربی پاکستانیوں اور بہاریوںکو’’شالا پنجابی‘‘ پکار کرہد ف تنقید بنا رکھا تھا اور مشرقی پاکستان کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی قرار دیتے ہوئے بنگالیوں میں احساس محرومی کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے صدر یحییٰ خان اور ان کے رفقاء کو شیشے میں اتار رکھاتھا اور ان سے ہر قسم کے جھوٹے سچے وعدے کر رہے تھے۔چنانچہ یحییٰ خان یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے کہ شیخ مجیب جو اپنے ہر سیاسی جلسے میں چھ نکات کی گردان جاری کھے ہوئے ہیں ، اب ان سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔دوسری طرف بھٹو تھے جنہوں نے غریب اور امیر طبقے کے درمیان فرق کو اجاگر کرکے ’’روٹی، کپڑا اور مکانــ ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے۔
اپنی تمام تر توانائیاں مغربی پاکستان پر مرکوز کررکھی تھیں۔ اس طرح شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقارعلی بھٹو دونوں کی علاقائی سوچ مرکزگریز رحجانات کو فروغ دے رہی تھیں جو قومی و ملکی یکجہتی کیلئے زہر قاتل تھیں۔چنانچہ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں اور بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں مکمل طور پر علاقائی جما عتیں بن کر ابھریں اور دونوں نے یحییٰ خان پراقتدارکی منتقلی کیلئے زور دینا شروع کردیا۔عوامی لیگ اکثریتی پارٹی تھی اورلیگل فریم ورک آرڈر کے تحت اقتدار اسے منتقل ہونا تھا اور صدر یحییٰ خان نے انہیں مستقبل کا وزیراعظم بھی قرار دے دیا تھا ۔
لیکن بھٹونے اپنے نعرے ’’ادھر ہم ادھرتم‘‘ کے ذریعے ملک میں دو وزرائے اعظم کی انوکھی تجویز دے ڈالی جس سے صورتحال مزید بگڑ گئی، یحییٰ نے صورتحال کو دیکھتے ہوئے ڈھاکہ اور لاڑکانہ کے متعدد دورے کیے لیکن دونوں سے سیاسی رہنما کسی سمجھوتے پر راضی نہ تھے اور اسی اثناء میں صدر نے 3مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا اور رد عمل میںبھٹو نے اس اجلاس میں شرکت کرنے والوں کو ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دیتے ہوئے انہیں’’یکطرفہ ٹکٹ‘‘ لے کر جانے کو کہا۔
بھارت مشرقی پاکستان کی بے چینی اور اس کے دفاع کے ضمن میں لاپرواہی پر شروع ہی سے نظر رکھے ہوئے تھا۔
اور اس نے مکتی باہنی کے روپ میں اپنے ریگولر فوجی مشرقی پاکستان میں داخل کر دئیے تھے، ساتھ ہی ایسٹ بنگال رائفلز اور سینئر بنگالی فوجی افسروں کو شیشے میں اتار کرپاکستان کو دولخت کرنے کی منصوبہ بندی کرچکاتھا۔پاکستان میںکسی کو اس بات کا ادراک یا گمان نہ تھا کہ ملک کے دونوں بازوئوں کے درمیان ایک ہزار میل علاقے پرموجود دشمن ملک بھارت اپنی فضاء میں پاکستانی طیاروں کے گزرنے پر پابندیاں بھی لگا سکتا ہے۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کی بے چینی اوراس کے دفاع کے ضمن میں لا پرواہی کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے30جنوری1971ء کو گنگا طیارے کے اغوا کا ڈرامہ رچایا۔
اورپاکستانی طیاروں پر بھارتی فضا استعمال کرنے پر پابندیاں لگادیں جس سے پاکستان کے دونوں بازو ایک دوسرے سے تقریباً کٹ کر رہ گئے اور یوں مشرقی پاکستان میں موجود پاکستانی فوج بے دست و پا ہوکر رہ گئی۔شیخ مجیب کی ہٹ دھرمی اور بھٹو کی دھمکیوں نے بحران کو مزید گہرا کردیا اور یحییٰ خان نے3مارچ کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا جس سے مشرقی پاکستان میں ہنگامے پھوٹ پڑے ۔ 6مارچ کو ایک تقریر میںیحییٰ نے شیخ مجیب کو تمام تر بحران کا ذمہ دار قرار دیا اور اس کے بعد بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ مجیب 7مارچ کو ایک جلسہ عام میں آزادی کا اعلان کردیں گے۔
چنانچہ ایسے کسی بھی اعلان کی صورت میں پاک فوج کو الرٹ رہنے کا حکم دیا گیا۔باور کیا جاتا ہے کہ شیخ مجیب یکم مارچ سے 7مارچ کے درمیان آزادی کا اعلان کرنے کیلئے شدید دبائو میں رہا اوریحییٰ کی 6مارچ کی تقریر کے بعد اس دبائو میں مزید شدت آگئی۔تاہم غیر ملکی صحافیوں کے مطابق 7مارچ کی سہ پہر تک شیخ مجیب اس دبائو پر کامیابی سے قابو پاچکے تھے اور انہوں نے پاکستان کے فریم ورک کے اندررہتے ہوئے مذاکرات کرنے کا عندیہ دے دیا تھا اور ان کی جماعت عوامی لیگ اس پر رضامند تھی لیکن یحییٰ اور بھٹو لیت و لعل سے کام لے رہے تھے۔ اسی دوران مکتی باہنی کے غنڈوںاور بنگالیوں کے درمیان موجود شرپسندعناصر نے مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستانیوں اور بہاریوں پر کھلم کھلا حملے شروع کر دئیے ۔
کسی بھی بحران یا ناگہانی پر قابو پانے میںقومی ذرائع ابلاغ کا اہم کردار ہوتا ہے۔1965ء کی جنگ میں ریڈیوپاکستان نے قوم کو ایک لڑی میں پرو دیاتھا اور مختلف ریڈیو سٹیشنوں پر تعینات ملک کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے سٹاف نے ابلاغی محاذپراپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب میں سے ایک ڈھاکہ، راجشاہی،سلہٹ، رنگپور اور کھلنا ریڈیوسٹیشنوں پرسوائے چند ایک کے تمام عملے کا بنگالی ہونا تھا اورشورش شروع ہونے سے پہلے ہی وہاں کے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سٹاف کوہراساں کرنا شروع کردیا گیا تھا۔
اور بنگالی باغیوں نے ان سٹیشنوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ 26مارچ کو ڈھاکہ ریڈیو سے باغیوں کی طرف سے اعلان آزادی کے بعد صدریحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں سرچ لائٹ آپریشن کا حکم دے دیا اور یہ آپریشن25مئی تک جاری رہا۔بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس آپریشن میں 30لاکھ بنگالی مارے گئے جبکہ ایک کروڑ بنگالیوں نے بھارت میں پناہ لی اور اب اس کیلئے خاموش رہنا مشکل ہو چکا ہے۔ اس دعوے کی آڑ میں بھارتی فوج نے کھلم کھلا مشرقی پاکستان میں مداخلت شروع کردی۔ آپریشن کے دوران پاکستان آرمی نے ڈھاکہ ریڈیو کا کنٹرول سنبھال لیالیکن25مئی کو باغیوں نے اس کے ٹرانسمیٹر پر قبضہ کرکے اسے کلکتہ منتقل کردیا۔
اور آزاد بنگال ریڈیو کے نام سے نشریات شروع کردیں جو 16دسمبر کو سقوط ڈھاکہ تک جاری رہیں۔اس ریڈیو کے ذریعے آٹھ ماہ سے دفاع وطن میں مصروف پاک فوج جس کی تعداد محض 30,000تھی اور بھو ک پیاس کے علاوہ جن کی وردیاں اور جوتے تک پھٹ چکے تھے، کے خلاف سنگین الزامات لگائے گئے جن میں تین لاکھ بنگالی عورتوں کی بے حرمتی کے الزام کو خوب اچھالا گیا لیکن پاکستان کی طرف سے ان الزامات کی تردید اور جھوٹے اور زہریلے پراپیگنڈے کا جواب دینے کیلئے کوئی موثر حکمت عملی نہ اپنائی گئی۔ بعدمیں اس تعداد میں مزید اضافہ کیا جاتا رہا۔
اور سقوط مشرقی پاکستان کے بعدبھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس تعداد کو مزید بڑھاکر30لاکھ تک پہنچا دیا۔1994ء میں ایک انٹرویو میں جب راقم نے لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی جنہیں4اپریل 1971ء کو لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کی جگہ ایسٹرن کمانڈ کا سربراہ مقرر کیاگیا تھا،کی توجہ اس طرف دلائی تو انہوں نے الٹا سوال کردیا کہ ان کے جوان جو آٹھ ماہ سے بھوکے پیاسے پھٹی وردیوں اور ٹوٹے جوتوں کے ساتھ بھارتی فوجیوں اور باغیوں کے ساتھ لڑرہے تھے اور جنہیں بیرک سے باہر نکلتے ہوئے کسی نا معلوم سمت سے آنے والی گولی لگ جانے کا اندیشہ رہتاتھا، کیا اس قسم کی عیاشی کے متحمل ہو سکتے تھے۔
جنرل نیازی نے یہ بھی بتایا تھا کہ مشرقی پاکستان میں اپنی تعیناتی کے بعد وہ دشمنوں کو دھکیلتے ہوئے بھارت کی سرحد تک پہنچ چکے تھے اور صدریحییٰ سے دشمن کے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت مانگی تھی لیکن بدقسمتی سے انہیں بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، اور بعد میں فضائی حدود بندہونے کے سبب رسد کی بندش کی وجہ سے پاک فوج محصور ہوکر رہ گئی تھی ۔ جنرل نیازی نے صدریحییٰ کو بھیجا جانے والا اپنا ایک ٹیلیکس پیغام بھی دکھایا تھا۔
جس میں انہیں اسلحہ کے قریب الختم ہونے کے بارے میں اطلاع دے کر کسی نہ کسی طریقے سے رسد بھجوانے کی درخواست کی گئی تھی جبکہ جوابی ٹیلیکس کا متن کچھ یوں تھا کہ پاک فوج بہت بہادری سے لڑی ہے، ہمیں آپ پر فخر ہے، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ یعنی محصور فوج کو بالکل بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔(جاری ہے)