بنو ارے بنو مجھے آج کمر میں درد ہے تو تم کچن میں جا کر چولہے کا کام کرو۔ اماں آپ جانتی تو ہیں میں کتنی مشہور ہو رہی ہوں ٹک ٹاک پر۔ میں نے بناو سنگار کیا ہوا ہے تو مجھے آرام سے ویڈیو بنانے دیں۔ مجھے ویڈیو بنا کے باہر آؤ گی اس لئے بار بار تنگ مت کریں۔پھر ماں درد کے باوجود کچن مین جا کے کام کرتی ہے۔ لیکن اولاد کو پروا نہیں کہ وہ مادی چیزوں کے پیچھے بھاگ کر کس سے دور ہو رہے ہیں۔ آج کل ہر بچے کے ہاتھ میں موبائل ہے اور جسے دیکھو ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانے میں مصروف ہے نہ تو انہیں اپنی پڑھائی کا خیال رہا اور نہ ہی اپنے والدین کی عزت کا ایسی لڑکیاں جو شوبز کی دنیا سے کوسوں دور رہتی تھی اب وہ بھی ٹک ٹاک پر ا کے ناچتی ہیں اور اسی کی وجہ سے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے کبہی ان کی تصوریرں لیک کر کے۔اور کچھ کی ویڈیو کے نیچے نامناسب کمنٹ کر کے۔ کچھ انتہائی واحیات مواد اپ لوڈ کرتے ہیں۔ جو اخلاق سے گرا ہوا ہوتا ہے۔ اور کچھ ایسی ویڈیو بناتے ہیں جوقوموں میں تضاد کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں یعنی جو ٹائم ہمیں اپنی پڑھائی پر دینا چاہیے وہ ہم موبائل میں ویڈیو بنانے میں گزار تے ہیں۔ کیونکہ آج کے بچے ہی کل کے معمار ہیں اور اگر آج کے بچے ہی فضول کاموں میں پر جائیں گے تو ہمارے ملک کا کیا بنے گا۔
عوام پاکستان میں ٹک ٹاک 19۔5
استعمال کرتی ہے۔ جس میں 27÷ 13 to 17۔ سال کے بچے ہیں۔ 42÷ 17to 24 ۔ ہمارے جوان ہیں۔ تو اس چیز سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان کس طرف جا ہے ہیں۔ ۔ ہمارے ملک کے جوانوں کو اس ٹک ٹاک کی بہت بری لت لگ گئی ہے۔ کبھی دریا میں کود کے ویڈیو بنا رہے ہیں کبھی ریل کی پٹری پر چل رہے ہیں اور کبھی ڈرائیونگ کے دوران ویڈیو بنا رہے ہیں اور اس کی وجہ سیکتنی ہی ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں ہیں۔ لیکن کسی کو احساس نہیں۔ کیوں آخر کیوں یہ ہماری زندگی میں اتنی اہمیت کی حامل ہو رہی ہے کہ اس سے آگے ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آ رہا ہے۔ ٹھیک ہے کچھ لوگوں کے لیے یہ کمائی کا ذریعہ بنیں بہت سارے بیروزگار لوگ تھے جن کے لیے اس نے کام مہیا کیے لیکن دولت سب کچھ نہیں ہوتی۔ انسانی زندگی کے آگے دولت کی ٹکے جتنی قدر نہیں ہے۔ ” جان ہے تو جہان ہے ” لیکن یہ سب بہولے ہوے ہیں ہر کوئی مشہور ہونے کے لیے اور پیسے کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ اور اس کے لیے وہ کون سا طریقہ اپنا رہا ہے اسے اس چیز کی پرواہ نہیں ہے۔ جب حکومت نے اس پر ایکشن لیا تو ہماری عوام نے ایسے احتجاج کئے کہ جیسے یہ ان کے لئے آکسیجن کا کام کرتی ہے حکومت کو چاہیے کہ اس پر سخت ایکشن لے اور اسے مکمل طور پر پاکستان میں بند ہونا چاہیے۔ نہ کہ ان ٹک ٹوکرز کو گورنر ہاؤس بلا کر ان سے تقریریں کروائی جائیں۔ چین اور پاکستان کی دوستی اتنی نازک تو ہے نہیں کہ ایپلیکیشن کے بند ہونے پر خراب ہو جائے۔ یہ ہمارے ملک کے مستقبل کا سوال ہے اور ہمارے حکمرانوں کو اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ اور اگر اس پر ابھی سے کام شروع نہ کیا گیا تو تو ہماری نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔ ہمارے شاعر علامہ اقبال نوجوانوں کو عقاب سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ اقبا ل عقاب کی ساری خوبیاں اپنے مسلم جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ نوجوانوں میں شاہین جیسی صفات پیدا ہوں اور ان کے مقاصد بلند ہوں۔ لیکن ہمارے نوجوانوں کا مقصد بس مشہور ہونا ہی رہ گیا ہے ا?جکل کے جوانوں کو وہی عقابی روح بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ا?ج کا جوان بھی اقبال کا جوان ہے مگر کیا وہ اقبا ل کاجوان بن کے دکھا رہا ہے؟ یا اس کے تقاضوں کو پورا کرپارہا ہے؟ سوشل میڈیا پہ ہر وقت اَپ ڈیٹ رہنے والا جوان اس تگ و دو میں رہتا ہے کہ اس کی پوسٹ پر لاہک کم ہیں یا زیادہ۔ ہمارے جوان کس منزل کی طرف چل پڑے ہیں؟ ہمارے جوانوں کو سوچنا ہوگا کہ سوشل میڈیا پر ایکٹو رہنا ہی زندگی نہیں ہے کیا ہمارے زندگی کے مقاصد اتنے ہی محدود رہنے چاہئیں؟ کیا ہماری زندگی کا مقصد صرف یہی ہے دوسروں کی ٹوہ میں ہر وقت رہنا۔ علامہ اقبال نے کہا تھا۔سبق پھر پڑھ صداقت کا‘ عدالت کا‘ شجاعت کالیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔افسوس کی بات ہے کہ ہم نے صداقت کا سبق پڑھا نہ عدالت اور شجاعت کا، اگر پڑھتے تو قدرت شاید ہم سے دنیا کی امامت کا کام لیتی۔ دیکھو آج دیکھو ان ملکوں کا حال کیا ہوا جنہوں نے دوسرے ملکوں سے توقعات رکھیں کہ وہ آکر ہمارے لئے کچھ کریں گے۔ ابھی بھی وقت ہے اپنے آپ کو سدھارنے کا۔ سدھر جا ہے اس سے پہلے کے پانی سر سے اونچا ہو جائے۔
ٹک ٹاک معاشرتی زوال کا ایک ذریعہ
وقتِ اشاعت : December 18 – 2020