|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2020

یلان بلوچ
قوم چاہے جتنے بھی قبائل اور مذاہب ومسالک میں تقسیم ہو جب کرب وبلاء آتے ہیں ،جب مصائب ومشکلات کے بادل چھا جاتے ہیں تو پھر نہ وہ قبائل دیکھتے ہیں کہ یہ فلاں قبیلہ ہے لہذا اسے استثنیٰ حاصل ہے نہ وہ مذاہب دیکھتے ہیں کہ یہ فلاں مذہب سے ہے لہذا اسے درگزرکردیں ،نہ وہ مسالک دیکھتے ہیں بلکہ جب بھی کسی خطہ میں کوئی آفت وپریشانی آتی ہے تو سب کی جھونپڑیوں تک پہنچتی ہے سب کے در ودیوار کو ہلادیتی ہے اور پوری قوم کو متاثر کرتی ہے۔
موجودہ دور میں مشرق سے لیکر مغرب تک شمال سے لے کر جنوب تک بلوچستان کا خطہ آفتوں کی زد میں ہے۔عرصہ دراز سے یہ قطعہ ارضی جھلس رہاہے۔ مختلف شکلوں میں اور مختلف طریقوں سے زمین کے اس حصے پر آفات نے گزرگاہیں بنالی ہیں۔
ایک چیز ہوتی ہے انسانیت ، انسانی اقدار اور حقوق ،شاید بلوچ بحیثیت قوم اس مخلوق میں شمار ہوتی ہے کہ نہیں کیونکہ مہذب معاشروں میں تو انسان انسان ہے حیوان کے بھی حقوق کا خیال رکھا جاتاہے اسے زندگی گزارنے کی بنیادی سہولتیں دی جاتی ہیں مگر واحد خطہ بلوچستان ہے جہاں حیوان کے حقوق کے بارے میں سوچنے کی کوئی غلطی نہیں کرتا بلکہ انسانوں کے ساتھ بھی حیوان سے بدتر سلوک کیاجاتاہے۔
عرصہ دراز قبل ساحل بلوچستان کے ایک سرے میں موجود جیونی نامی علاقے میں پیاس سے بلبلاتی خواتین ونوجوانوں نے پانی کی فراہمی کیلئے ریلی نکالی، جلسہ جلوس کیا جہاں مقررین نے خطاب کیا جواب میں انہیں پانی کے بجائے گولیاں ملیں اور معصوم بچیاں یاسمین و ازگل جیسے معصوم پھولوں کو ہمیشہ کیلئے سلادیا گیا مگر جیونی میں آج بھی پانی کا بحران ہے اور گوادر کے باسی آج بھی پیاسے ہیں۔
سی پیک کو گیم چینجر ثابت کرنے کیلئے دن رات رٹا لگاکر اہلیان گوادر کو بالخصوص اور اہلیان بلوچستان کو باالعموم نت نئے خواب دکھائے گئے مگر یہ یقین محکم سب کا تھا کہ جن باسیوں کو پانی مانگنے پر گولیاں دی گئیں، ان کیلئے سی پیک بھی کسی اژدھا سیکم نہ ہوگا مگر پھر بھی وہ دل بہلاتے رہے کہ نہیں ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں کیسے بچے کو بے یار ومددگار چھوڑسکتی ہے یقیناً ایک نا ایک دن ریاست مہربان ماں کی طرح بچوں پر دست شفقت رکھ کر انہیں اپنی آغوش میں پناہ دے کر یہ ثابت کریگا کہ وہ حقیقی ماں ہے مگر یہ سب وہم وگمان ہی رہا اور مہربان ماں تو سوتیلی ماں سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئی ہے۔
ستر سالوں سے اہلیان بلوچستان منتظر بیٹھے ہیں کہ ایک نا ایک دن ریاست ایک مہربان ماں بن کر واقعی ہمیں بیٹھا تسلیم کرلیگا مگر ریاست چلانے والوں نے قسم کھالی ہے کہ آپ کی ہمارے سامنے وقعت وحیثیت ہی نہیں چاہے آپ لاکھ جتن کرلیں۔
بلوچ قوم یا بلوچستان جو تین حصوں میں تقسیم ہے ایران افغانستان اورپاکستان، تینوں ممالک میں آباد بلوچوں کے قبائل بکھر ے پڑے ہیں جو ایک دوسرے کے حال سے واقف تک نہیں۔
افغانستان کی تو بات چھوڑدیں کہ وہاں سے مملکت خدادادپر دنیاکے کئی ممالک کی ایجنسیاں حملہ آورہیں لہذا وہاں تو باڑ لگے ہی رہنا چاہیے مگر کیا کہیں ایران سے متصل سرحدی علاقوں کو جو پنجگور، بلیدہ، زامران ، مند ، دشت ، تمپ اور جیونی تک پہنچتی ہیں جہاں سے بلوچستان میں رہنے والے انسان پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں مگر ان باڈروں کو باڑلگاکر کے ڈیزل وتیل کے کاروبار پر ہمیشہ کیلئے قدغن لگایا گیا۔ بظاہر چند ایک مقام پر گزرگاہیں بنائی گئی ہیں مگر یہ گزرگاہیں وقتی ثابت ہوتی ہیں اور ایک مدت کے بعد ان کو بھی بغیر پوچھے بندکیا جاتاہے۔
جالگی باڈر جو ضلع کیچ کو ایران سے ملانے والی سب سے زیادہ قریب ترین سرحدہے اور اہلیان مکران و رخشان وجھالاوان کیلئے سب سے آسان ومختصرراستہ ہے طویل عرصہ سے بند ہے اور تیل بردار گاڑیوں کیلئے ممنوعہ علاقہ بن چکاہے۔ریاستیں روزگار دیتی ہیں چھینتے نہیں مگر کس سے شکوہ کریں اور کسے فریاد سنائیں کہ سرزمین پاک پر انسانی روپ میں کئی فرعون خدا بن بیٹھے ہیں۔
چلو یہ بھی مان لیا کہ ایران سے متصل سرحدی علاقے کو باڑلگاکر بند کرنا از حد ضروری ٹھہرا ،اگر کچھ وقت کیلئے باڈر بندہوگا تو اس کے بدلے ان علاقوں میں ریاست روزگار کے نئے مواقع پیدا کرکے انہیں بہتر سے بہتر روزگار فراہم کرکے انہیں یہ یقین دلائیگا کہ ریاست نے واقعی انہیں اپنا تسلیم کرلیاہے اور ان کیلئے متفکر ہے۔
مگر کریں کیا کہ ایک جانب ایران سے متصل سرحدی علاقے کو باڑ لگاکر لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کردیاگیا جہاں اکا دکا اگر تیل کا کاروبار جاری ہے وہاں بھی سفارشی لوگوں اور ان لوگوں کو گزرنے کا موقع ملتاہے جنہیں سلام علیک کے سلیقے وطریقے آتے ہیں اور ہر شخص کیلئے نہیں بلکہ من پسند لوگوں کے ذریعے من پسند لوگوں پر کرم نوازیاں جاری ہیں ۔اسی چیز کو دیکھتے ہوئے کئی مرتبہ متاثرین نے احتجاج بھی کیا، حکام تک اپنی بات پہنچائی مگر سب بیکار۔
ایک جانب ایران سے متصل باڈر پر باڑ لگائے جارہے اورلگائے جاچکے ہیں تو دوسری جانب باڑ کے اندر باڑ لگائے جارہے ہیں۔ اگر ایرانی سرحد پر باڑلگائے جاتے ہیں تو اس پر ہم سوال کرنے کی جرات ہی نہیں کرسکتے جبکہ باڑ کے اندر باڑ لگانا سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک ہی شہر کے باسیوں، ایک ہی قبیلہ وزبان کے لوگوں کو تقسیم کرکے کچھ کو باڑ کے اندر بند کرناا ور ایک حصے کو باہر رکھنا تاکہ ایک دوسرے سے مل نہ سکیں،یہ کچھ عجیب وغریب محسوس ہوتی ہے۔
ایک پورٹ کراچی میں بھی ہے اگر پورٹ کو باڑلگانا تھا اور خطرات سے محفوظ بنانا تھا تو ا س کا آغاز کراچی سے کرتے ،زیادہ دھماکے ٹارگٹ کلنگ تو کراچی میں ہوتے ہیں ناکہ گوادر میں ۔اگر باڑلگانا ترقی کا آغاز ہے تو یقیناً اسکی مخالفت نہیں بنتی مگر باڑلگانے سے پہلے پانی پلاکر پیا س بجھادیتے، سمندر کو ماہی گیروں کیلئے کھول دیتے، خدا کی قسم نہ ہم موٹروے مانگتے ،نہ میٹرو بس، بس یہ سمندر ،یہ ریت ہم سے نہ چھینتے کہ ان پر ہمارے آبائواجداد کے نشان ہیں جن پر چل کر ہم سکھ کاسانس لیتے ہیں تو بڑی نوازش ہوتی۔