بلوچستان میں رہنے والے یا یوں کہا جائے کہ بلوچ با الخصوص قول و فعل اور وعدوں کے دھنی ہوتے ہیں وہ جو قول یا اعلان کرتے ہیں اس پر جان قربان کرنے بھی دریغ نہیں کرتے۔ آپ کو بلوچوں کی تاریخ میں ایسے ہزاروں داستان ملیں گے کہ انہوں نے جو وعدہ یا قول کیا اس پر اپنا خاندان اور قوم کی قربانی سے کبھی دریخ تک نہیں کیا۔ لیکن افسوس ہماری سیاست بلوچیت اور عبادت سے ہٹ کر ہی ہے۔ ہماری اب تو روایات بن چکی ہیں کہ جو جتنا زیادہ جھوٹ دھوکہ فریب دینے میں ماہر ہوگا وہ سیاسی میدان کا بڑا کھلاڑی اور عظیم سیاست دان ہوگا۔
بلوچستان میں اسی طرح کا کھیل کئی عشروں سے جاری ہے روز نئے وعدے اور اعلانات ہونے کے باوجود زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں سیاسی وعدوں اور اعلانات سے بلوچستان پیرس بن چکا ہے لیکن زمینی حقائق کے مطابق بلوچستان دنیا کا پسماندہ ترین اور پتھر کے زمانے کا تباہ حال صوبہ ہے۔ بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان بھی الحمد اللہ صوبے کی تاریخ کے واحد صاحب سنت وزیر اعلیٰ ہیں وہ جہاں بھی جاتے ہیں ماشا اللہ خود ہی باحماعت نماز کی امامت کراتے ہیں اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو وزارت اعلیٰ بھی ایک امام کی طرح ہے آپ صوبے کے ایک کروڑ چالیس لاکھ عوام کے امام ہیں ۔
بلوچستان کے لوگوں کی نظریں آپ پر ہیں اور آپ سے عوام کو بہت ساری امید وابستہ ہیں لیکن آپ بھی سابق حکمرانوں کی طرح بلوچستان والوں کا دل بہلانے کیلئے بہترین تقریر اور خوشنما وعدے کرکے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر رہے ہیں۔ جام کمال خان کمال مہارت سے گفتگو کرکے سامعین کو مطمئن کرنے میں جتنی مہارت رکھتے ہیں اتنے اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں کمالات نہیں دکھا رہے۔ جام کمال خان کے وزارت اعلیٰ کا دور اب تین سال کے قریب پہنچ رہی ہے ۔ نصیرآباد کے گزشتہ دورے پر نصیرآبادڈیرہ مراد جمالی کے ایم پی اے میر سکندر خان نے تین درجن سے زائد عوامی مطالبات سپاسنامے میں پیش کئے۔
جس پر بعد ازاں جام کمال نے کمال مہارت سے عوامی مسائل کو مکمل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی اور یہ بھی یقین دلایا کہ میں جو وعدہ یا اعلان کرتا ہوں اسے ضرور عملی جامع پہناتا ہوں لیکن وہ وعدے اور اعلانات دوسال گرزنے کے باوجود دلی دور است کے مترادف ہیں ۔ڈیرہ مراد جمالی جو کہ نصیرآباد ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر ہے کوئٹہ کے بعد گنجان آبادی پر مشتمل ڈویژن ہے لیکن عوام اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں عوام ہر بار وعدے اور اعلانات کرنے والوں کو ہی منتخب کرتے ہیں لیکن وہ بلوچستان اور کوئٹہ کی یخ بستہ راہداریوں میں عوام کو بھول کر اپنی دنیا خود آباد کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
ان سیاسی قائدین کی تقدیر بدلنے اور ایک نئی دنیا آباد کرنے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ عیش و عشرت کا ایک نیا دور کا آغاز ہو جاتا ہے لیکن اگر نہیں بدلتی تو عوام کی تقدیر نہیں بدلتی وہ سابقہ روایات کی طرح بیماریوں، بھوک ،افلاس، ظلم وزیادتی، انتقامی کاروائیوں اور سیاسی لارڈز کے ظلم و قہر برداشت کرکے اور بلک بلک کر جان دیتے ہیں اور عوام صرف ایک ماہ یعنی انتخابی مہم کے دوران ہی چائے چاول پر راضی ہو کر اپنے اگلے پانچ سال کودورباہ جہنم بنا دیتے ہیں ۔آپ نصیرآباد ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر کی حالت دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔
یہ شہر کم کچی آبادی اور گندگی کا ڈھیر زیادہ لگتا ہے آپ پوری شہر کی آبادی کا سروے کریں تو آپ کو ستر فیصد شہری مختلف قسم کی خطرناک موذی بیماریوں میں مبتلا نظر آئیں گے جہاں کے شہری گٹر اور صاف پانی ملا مکس پانی پی کر بھی جی رہے ہیں جہاں کا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بھی ویران اور تباہ حالی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جہاں کروڑوں روپے کی ادویات کے فنڈز کے باوجود ادویات ناپید ہیں۔ جہاں ڈاکٹرز میسر نہیں موجودہ معاون خصوصی برائے ہیلتھ بلوچستان کا حلقہ انتخاب اور ڈیرہ مراد جمالی اسپتال کی بدحالی اور ادویات کی کمی ہمارے نمائندوں کی عوام سے مخلصی کی ایک بہترین جھلک ہے ۔
جہاں صوبے کے چھٹے بڑے شہر کو بائی پاس تک نہ ہو جہاں کئی مرتبہ اعلانات کے باوجود میڈیکل کالج تک فراہم نہ کیا گیا ہو جہاں کے ہونہار لاء کالج کی سہولیات سے محروم ہوں جہاں کیڈٹ اور ریزیڈنشنل کالج سے ہی محروم ہوں جہاں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں سے عوام مستفید نہ ہو سکتے ہوں لیکن اس کے باوجود شومئی قسمت کہ اب بھی عوام ان سیاسی اشرافیہ کے وعدوں اور اعلانات پر اتنا عمل اور یقین رکھتے ہیں ۔اگر عوام حقیقی تبدیلی کیلئے اللہ کی ذات پر یقین رکھیں اور اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے لگیں تو ان کی دنیا و آخرت کامیابی وکامرانی سے منور ہو سکتی ہے۔
جبکہ اب شنید میں آیا ہے 21 دسمبر سے قول و فعل کے پکے دھنی وزیر اعلیٰ جام کمال خان دوبارہ نصیرآباد کی قسمت سنوارنے اور عوام کی معیار زندگی میں انقلاب برپا کرنے کیلئے تشریف لا رہے ہیں اور پھر ایک بار جام کمال خان اپنے وعدوں اور اعلانات کا انبار لگا کر عوام کو لولی پوپ دے کر جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب سے امیدیں رکھنا سادہ لوح عوام کا حق ہے مجھ ناچیز کو اس بارے میں کسی رائے کا حق نہیں لیکن میں اپنے تجربات کی روشنی میں ہی کچھ بے ادبی اور گستاخی کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جو اپنے حلقہ انتخاب لسبیلہ کو ترقی اور خوشحالی نہیں دے سکا وہ نصیرآباد کو کیونکر ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتا ہے۔
جو تین نسلوں سے لسبیلہ کی پسماندگی اور محرومی کا خاتمہ نہ کر سکا ہو وہ کیونکر بلوچستان کی ترقی کیلئے کچھ کر سکتا ہے جو صوبے میں کرپشن کمیشن کے خاتمے پر بے بس اور لاچار ہو اس سے انقلاب کی توقع اور امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ نصیرآباد اور لسبیلہ سمیت بلوچستان کی پسماندگی ،بدحالی ہمارے کرائے کے سیاست دانوں اور ان کی سلیکشن کرنے والوں کی بدولت ہے جہاں پسند اور ناپسند پر نمائندوں کا انتخاب ہو۔ جہاں کی وزارت اعلیٰ اور وزارتیں میرٹ اور اہلیت کے بجائے حکم پر ہی ملتی ہوں وہاں انقلاب نہیں تباہ حالی، پسماندگی، احساس محرومیاں ہی جنم لیتی ہیں۔
بلوچستان سمیت ملک میں شفاف انتخابات کے بجائے سلیکشن نے ہی جمہوریت کا بیڑہ غرق اور کرپشن و کمیشن کو ترقی دی ہوئی ہے ۔صوبے کی تاریخ میں کسی پسندیدہ سیاست دان پر نیب کا کوئی کیس تک نہ ہوا ہو تو آپ یقین کریں کہ بلوچستان ہی فرشتہ صفت سیاستدانوں کااصل مسکن ہے یہاں کرپشن کے الزام لگانے والے ہی ملکی ترقی اور جمہوریت کے مخالف اور دشمن تصور کیے جاتے ہیں۔
اب وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ بلوچستان جیسے امیر اور معدنیات سے مالا مال صوبے کے مفلوک الحال عوام پر رحم کیا جائے اور عوام کی حقیقی معنوں میں ترقی اور صوبے کی خوشحالی کیلئے اقدامات کئے جائیں بصورت دیگر اس طرح کی روایات سے ہی انقلاب برپا ہوتے ہیں جو بھیانک نتائج کے حامل بھی ہو سکتے ہیں۔