دو دوست اور برادر ممالک اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تاریخی تعلقات میں 19 دسمبر، 2020 ایک یادگار دن ہوگا۔ اس دن ایک تاریخی پیش رفت کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین تفتان بارڈر کے علاوہ دوسری رسمی بارڈر کا باقاعدہ افتتاح ہوگیا۔گبد- ریمدان بارڈر (سرحدی گزرگاہ) آخر کار دونوں ممالک کے مابین کئی سالوں کے اتار چڑھائو کے بعد باقاعدہ طور پر کھول دیا گیا۔ دونوں ممالک کے مابین دوستانہ اور برادرانہ تعلقات میں اس اہم اقدام کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے ان کی تجارتی اور معاشی صلاحیتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کی آزادی کو سرکاری طور پر تسلیم کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور پیش آنے والی مشکلات اور مصائب جیسے تباہ کن جنگیں اور قدرتی آفات کے وقت، ایران ہمیشہ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہے۔اسی طرح پاکستان بھی ایران کی حکومت اور عوام کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب ایران کی فتح پرمبارکباد پیش کرنے والے پہلے ممالک میں پاکستان شامل تھا۔ایرانی عوام عراق کے ویمپائر ڈکٹیٹر کے ساتھ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں پاکستانی حکومت اور عوام کی حمایت کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
عالمی استکبار کے خلاف ایرانی حکومت اور عوام کی استقامت پر پاکستان کے عوام اور حکومت کی حمایت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
بھائی چارے اور دوستی کی سرحدیں
اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان 945 کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحد ہے۔
دونوں ممالک کی تاریخی مشترکات کی روشنی میں یہ سرحد ہمیشہ ہی دونوں ممالک کے مابین ایک مستحکم اور قابل اعتماد مشترکہ سرحد رہی ہے اوروقت کی مشکلات، دوستی اور
محبت کے اس بندھن کو کبھی نہیں توڑ سکیں۔
دونوں ممالک کی تجارتی اور معاشی صلاحیتیں
اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مجموعی آبادی 300 ملین سے زیادہ ہے۔ اس بڑی آبادی سے خطے میں ایک بہت بڑی مارکیٹ نے جنم لیا ہے جو ایک بڑی معاشی یونین کے طور پر اس خطے کی معاشی ترقی کے لئے ایک متحرک قوت کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے معیشت کی ایک دوسرے پر وابستگی، بڑے پیمانے پر ثقافتی مشترکات، معاشی تعلقات، بے مثال جیو پولیٹکل اور جیو اکنامک محل وقوع اور لمبی مشترکہ سرحدیں بہت اہم اور نمایاں خصوصیات رکھتی ہیں جو دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
قابل دید کمزوریاں اور ناقص انفراسٹرکچر
اس کے باوجود کہ دونوں ممالک کی معیشت ان باہمی فوائد کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھاسکی، پھر بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، دونوں ممالک کے مابین مجموعی طور پر قانونی تجارتی حجم 1.5 ارب ڈالر رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہ تجارتی حجم 500 ملین ڈالر تک ہے۔ ان سرکاری اعداد و شمار میں نمایاں فرق سے قطع نظر، دونوں ممالک کے مابین تجارت کا موجودہ حجم، ان ممالک کے تجارتی صلاحیتوں کے مطابق نہیں اور نہ ہی یہ دونوں ممالک کی حکومتوں اور معاشی اداروں کے اطمینان کا سبب بن سکتا ہے۔
اگرچہ دونوں ممالک نے کچھ سال پہلے 5 ارب ڈالر کی تجارتی حجم کا ہدف مقرر کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے مابین تجارت کے حجم بڑھنے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اور باہمی تجارتی تعلقات اسی روایتی انداز اور حجم پر قائم ہیں۔دونوں ملکوں کے مابین معاشی تعاون اور تجارتی تعلقات میں رکاوٹ کے طور پر ناقص انفراسٹرکچر بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ لمبی سرحدیں رکھنے کے باوجود، گزشتہ آٹھ دہائیوں سے دونوں ممالک کا صرف ایک رسمی بارڈر (تفتان- میرجاوہ) کے مقام پر رہا ہے۔
حالانکہ اس ایک رسمی اس بارڈر میں بھی تجارتی تعلقات کی ترقی کے لئے مضبوط انفرااسٹرکچر اور سہولیات کا فقدان ہے۔پاکستانی زائرین سفر کے دوران یا پاکستانی آم اور ٹینجیرین کی سیزن میں دونوں اطراف سے زائرین اور ڈرائیوروں کو کسٹم گیٹس کے پیچھے گھنٹوں بلکہ کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔دوسری جانب، دونوں ممالک کے مابین کوئٹہ سے تفتان بارڈر تک واحد 640 کلومیٹر قومی شاہراہ جو پاک ایران روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے خستہ حالی کا شکار ہے جس میں بڑھتی تجارت اور ٹرانزٹ کی صلاحیت نہیں۔
بینکاری کے شعبوں میں رابطوں کا فقدان اور موجودہ ریلوے نظام کی خستہ حالی دیگر مسائل ہیں جو کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے مابین معاشی تعلقات اور تجارت پر منفی طریقے سے اثراندازہوئے ہیں۔
گبد- ریمدان بارڈر (سرحدی گزرگاہ) کا باقاعدہ افتتاح اور اس کی اہمیت
جو کچھ مختصر ذکر کیا گیا وہ دونوں ممالک کے نئے گزرگاہ کی اہمیت کا ایک پہلو ظاہر کرتا ہے۔جب ہم گبد- ریمدان بارڈر کے جغرافیائی محل وقوع پر نگاہ ڈالتے ہیں تو نئے گزرگاح کی اصل اہمیت سمجھ میں آجاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان نے خلیج فارس اور بحیرہ عمان میں اپنے ساحلوں پر خصوصی توجہ دے رکھی ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران میں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گوادر کے مقام پر دو بین الاقوامی بندرگاہوں کی تعمیر دونوں ممالک کے اس نئے نظریہ کی عکاسی کرتا ہے۔
دونوں ممالک کے پالیسیوں کے مطابق ایران اور پاکستان کے ساحلوں پر بہت بڑے اور اسٹریٹجک منصوبے عمل میں آرہے ہیں۔شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ گبد- ریمدان بارڈر کے مغربی اور مشرقی ساحلی علاقے مستقبل قریب میں علاقائی اور بین الاقوامی رہائشی مقامات، صنعتی، سرمایہ کاری اور تجارتی مراکز بن جائیں گے۔پلان کے مطابق پاکستان کا عظیم سی پیک منصوبہ گوادر میں اپنی اہمیت اور عروج کو ظاہر کرے گا۔پاکستانی حکام کے مطابق گوادر کی بندرگاہ ایک جدید اور بڑی عالمی بندرگاہ بن جائے گی۔
اس کے علاوہ وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکام نے بلوچستان کے ساحلی علاقے کی ترقی کے لئے تفصیلی منصوبے تیار کیے ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کراچی، پاکستان کا معاشی دارالحکومت ہونے کے ناطے اسی ساحل پر واقع ہے جہاں ایران کی نئی معاشی دارالحکومت عسلویہ بھی واقع ہے۔
بے مثال جغرافیائی محل وقوع
یورپ اور برصغیر کی معاشی اہمیت اپنی جگہ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران ان دو عظیم معاشی مراکز کے مابین ایک تاریخی پل کی حیثیت رکھتاہے۔ اس بڑے معاشی تذبذب کو حل کرنے میں نئے گبد- ریمدان بارڈر کا افتتاح صرف ایک چھوٹا لیکن اہم اقدام ہے۔
تکمیلی بات
پی ٹی آئی کی حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے گزشتہ دو سالوں میں خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستانی حکومت اس معاملے کی ضرورت اور ملکی معیشت پر اس کے اثرات سے بخوبی واقف ہونے کے علاوہ سنجیدہ بھی دکھائی دیتی ہے۔دس سال کے اتار چڑھاو کے بعد گبد- ریمدان بارڈر کا افتتاح اس حکمت عملی کی ایک علامت ہے جسے رکنا نہیں چاہئے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات خراب کرنے کے لئے چھپی ہوئی قوتیں کارفرما ہیں۔ حالیہ برسوں میں ہم نے چابہار اور گوادر کو دو حریف بندرگاہوں کے طور پر متعارف کروانے کی بہت ساری واضح اور خفیہ کوششیں دیکھی ہیں۔
جبکہ یہ دونوں بندرگاہیں ایک دوسرے کی تکمیل میں مدد دے سکتی ہیں اور ایران اور پاکستان کی ترقی پذیر معیشتوں کو آپس میں جوڑسکتی ہیں۔ لہذا اسلامی جمہوریہ ایران نے دونوں بندرگاہوں کے درمیان ریل اور روڑ رابطوں کے منصوبوں کی تجویز دی ہے۔یہ منصوبہ ایک اسٹریٹجک آئیڈیا ہے جو دونوں ممالک کے ساحلی علاقے کی صنعتیں اور آبادی کو آپس میں ملاتا ہے اور آخر کار برصغیر اور چین (CPEC) کو ایران کے راستے مشرقی بحیرہ روم اور یورپ سے جوڑتا ہے۔ یہ منصوبہ خطے کی معیشت کے لئے امید کی کرن ہے اور جنگوں، تباہی، معاشی اور معاشرتی پستی اور تباہ کن دہشت گردی کے آفت کو ختم کرکے اس کے بجائے معاشی خوشحالی، ثقافتی پیشرفت، امید
اور معاشرتی ترقی پیدا کرسکتا ہے۔
سرحدی منڈیاں اور ان کی اہمیت
غربت، بیروزگاری، اسمگلنگ اور دونوں ممالک کی سرحدوں کے معاشرتی عدم مساوات نے اپنے بدصورت چہرے دکھائے ہیں اور ہماری اقوام کی شاندار تہذیب کی تاریخ کو مسخ اور ہمیں شرمندہ کیا ہے۔ یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم اس عمل میں بے قصور نہیں ہیں۔ معاشی خوشحالی ہمیشہ ہی غربت اور بدحالی کا دشمن رہی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین طویل مشترکہ سرحد کے دونوں اطراف وسیع آبادی اور اعلیٰ معاشی و تجارتی صلاحیتوں کے ہوتے ہوئے اس خطے میں غربت کا جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
خطے میں غربت، اسمگلنگ اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا مقابلہ کرنے کے لئے سرحدی منڈیاں پہلا موثر اقدام ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران گزشتہ سال سے ہی سرحدی منڈیوں کی تیاری کر رہا ہے لیکن پاکستانی سرحد کے اندر اس طرح کے منڈیوں کی عدم فراہمی نے ان منڈیوں کی کارکردگی کو کم کردیا ہے اور یہ مارکیٹ اپنا اہم کردار ادا نہیں کرسکے۔خوش قسمتی سے حالیہ مہینوں میں سرحدی منڈیوں کو فعال بنانے میں وفاقی حکومت اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کافی سنجیدہ ہیں اور وزیر اعظم پاکستان نے حال ہی میں پاکستانی سرحد پرسرحدی منڈیوں کے قیام کا حکم جاری کیا ہے۔
دو ہفتے قبل صوبہ بلوچستان کے معزز وزیر اعلیٰ اور اعلیٰ سطح کے فوجی افسران کا خطے کے سرحدی مقامات کا دورہ اور سرحدی منڈیوں کے تیزی سے قیام پر تاکید، علاقے کے عوام خصوصاً ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کے لئے ایک امید افزا عمل ہے۔
خلاصہ
اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات کو فروغ دینے کی بڑی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان ممکنہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے ضروری انفراسٹرکچر کی فراہمی ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔گبد- ریمدان بارڈر کا افتتاح اس سمت کا پہلا اہم اقدام سمجھا جاتا ہے۔ یہ بارڈر اس خطے میں واقع ہے جہاں دونوں ممالک کی معاشی ترقی کی ترجیحات اس کے مشرق اور مغرب میں واقع ہیں اور دونوں ممالک کی معیشت کی ترقی اور دنیا کے دو بڑے تجارتی خطوں، یورپ اور برصغیر کو جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ اس پروجیکٹ کی تکمیل کے ساتھ سی پیک کا عظیم معاشی منصوبہ تعطل کو توڑ کر ایران کے راستے چین کو مشرقی بحیرہ روم، قفقاز اور یورپ سے جوڑ دے گا۔ گبد- ریمدان بارڈر کا افتتاح خطے کی دو خوشحال معیشتوں (ایران اور پاکستان) کی ترقی میں ایک اہم عمل کا آغاز ہے، جسے سرحدی منڈیوں کے قیام، ریلوے، ہوائی، سمندری اور زمینی راستوں کی آپس میں ملاپ، بینکاری میں تعاون، مشترکہ منصوبوں اور سیاحت کی صنعت کی طرف توجہ دینے سے مکمل اور مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔