چار سال قبل ٹرمپ امریکی سیاست کے لیے ایک اجنبی نام تھا اور یہ تصور بھی محال تھا کہ وہ صدارتی انتخاب جیت لے گا۔ امریکی سیاست کے بااثر حلقوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ہیلری کلنٹن کی جیت یقینی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کسی نے ٹرمپ کو سنجیدہ نہیں لیا اور صدارتی امیدواروں کے لیے ہونے والی روایتی کڑی جانچ پڑتال کے بغیر ہی انہیں میدان میں اترنے دیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے ’’ریڈ نیک‘‘ (سرخ گردن) کہلائے جانے والے سفید فام امریکیوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس طبقے کی اکثریت فیکٹری مزدور ہے ۔
اور ری پبلکن پارٹی ان میں مقبول رہی ہے۔ اجرتوں کی زائد لاگت کے باعث امریکا کی کئی صنعتیں دوسرے ملکوں میں منتقل ہوگئیں۔ غیر ملکی تارکین وطن نے امریکا آکر مقامی سفید فام آبادی سے کم اجرتوں پر کام کرنا شروع کردیا اور لاکھوں سفید فام بے روزگار ہوگئے۔ ملک میں فرسودہ ہوتے انفرااسٹرکچر اور صنعتوں میں آنے والی جدت کا جائزہ لینے کے بجائے امریکا نے ترقی پذیر ممالک میں فلاح و بہبود کے منصوبوں پر دریا دلی سے امداد دی۔ امریکا اپنے بڑے شہروں میں بسی غربت زدہ آبادی کو نظر انداز کرتا رہا۔ ان شہری ملازمت اور مزدوری پیشہ حلقوں ہی میں ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت زیادہ تھی۔
نسلوں سے محفوظ روزگار رکھنے والے ان امریکیوں سے روزگار ہی چھن گیا۔ یہ وہ ہنر مند اور مزدور طبقہ تھا جو ہفتے کے باقی دن صرف کام کرتا ہے اور اتوار کو چرچ میں جمع ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے مل جل کر وقت گزارتا ہے، ان کی زندگی اسی دائرے میں بسر ہوتی ہے ۔ ڈیڑھ سو سال پہلے ہونے والی خانہ جنگی کے بعد امریکی آبادی کا ایک محدود لیکن بااثر طبقہ نسل پرستانہ رجحان رکھتا ہے۔ بے روزگاری اور شدت پسندی نے نسل پرستی کے ان دبے انگاروں کو ہوا دے کر شعلوں میں تبدیل کردیا۔ اس طبقے کو اپنی طرز زندگی خطرے میں محسوس ہونے لگا۔
اور ان کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ غیر سفید فام آبادی ان پر غالب آجائے گی، ٹرمپ نے اسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس صورت حال کا اندازہ ہونے تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ ٹرمپ صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے ہر وعدے پر قائم رہے۔ امریکی مفادات کے لیے ہر معاہدے پر کڑا بھاؤتاؤ کرکے نظر ثانی کروائی۔ اس سے بڑھ کر ٹرمپ کئی امریکی صنعتوں کو ملک واپس لے آئے اور انہیں امریکا میں کام کرنے پر مجبور بھی کیا۔ ٹرمپ نے امریکا کا تجارتی توازن بہتر کرنے کے لیے چین اور یورپ وغیرہ پر بھاری ٹیکس لگائے۔
اور نیٹو کے بجٹ کے لیے دیگر نیٹو ارکان سے زیادہ بڑا حصہ ادا کروایا۔ روزگار کے مواقع پیدا ہونے اور ٹیکس میں بڑی چھوٹ ملنے سے لاکھوں امریکیوں کی زندگی میں بہتری آئی ، غریب کو روزگار ملا اور امیرمزید امیر ہوگئے۔ وباء نے امریکی معیشت کی اس رفتار کو سست کردیا۔ پولیس کے خلاف احتجاج نے ’’بلیک لائیوز میٹرز‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی جس میں سیاہ و سفید فام امریکی پولیس کی زیادتیوں کے خلاف یک زبان ہوگئے۔ لیکن لبرل حلقوں کی جانب سے پولیس کے وسائل میں کٹوتی کے مطالبے نے روایتی امریکیوں کے کان کھڑے کردئیے۔
وہ پہلے ہی اس احتجاج کو قانون کی پسپائی سمجھتے تھے تاہم ایسے مطالبات کے بعد انہوں نے اس تحریک کو بیرونی ’’سوشلسٹ‘‘ یا اشتراکی خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ سیاہ فاموں میں بھی یہ تشویش پیدا ہوگئی کہ کہیں حالات قابو سے باہر نہ نکل جائیں۔ ٹرمپ نے افغانستان میں جاری غیر مختتم نظر آنے والی جنگ کو ختم کرنے ، عراق اور شام وغیرہ سے اپنی فوج واپس لانے کا وعدہ کیا تھا۔ نیٹو بھی ان جنگ زدہ علاقوں سے نکلنے کے لیے آمادہ ہوگئی۔ امریکا کی معاشی ترقی کے لیے درکار سرمایہ بے دریغ ان جنگوں میں صرف ہورہا تھا۔
اس بار ٹرمپ کے مخالف عناصر ایک جگہ جمع ہوگئے اور تہیہ کرلیا کہ اسے دوبارہ منتخب نہیں ہونے دیں گے۔ انتخابی مہم ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ امریکا کو وبا ء نے آلیا۔ جوبائیڈن کئی ڈیموکریٹ امیدواروں میں سے ایک تھے لیکن بدلتے حالات نے انہیں بہتر امیدوار بنا دیا۔ برنی سینڈر نے ٹرمپ کو شکست دینے کے مشترکہ مقصد کے تحت بائیڈن کے ساتھ ٹکر کا مقابلہ کیا۔ کئی کام یابیوں کے باوجود ٹرمپ کے مزاج کی خود سری نے ان کے حریفوں کو مدد فراہم کی، کورونا وباء میں بھی ٹرمپ کے غیر دانش مندانہ ٹوئٹ اور پھکڑ پن کا سلسلہ جاری رہا۔
امریکا میں جس تیز رفتاری سے ویکسین تیار ہوئی اسے وسائل کے منظم انداز میں استعمال اور طبی سائنس کا معجزہ کہا جاسکتا ہے لیکن المیہ یہ رہا کہ اپنے حامیوں میں اپنا ’’طاقت ور‘‘ امیج برقرار رکھنے کے لیے ٹرمپ نے ایسا رویہ اختیار کیا جس سے ان کی کام یابیاں ماند پڑ گئیں۔ دوسری جانب امریکی اسٹیبلشمنٹ کے بعض شبہات درست نکلے۔ امریکی مقتدرہ کو ٹرمپ پر سب سے بڑا شبہ یہ تھا کہ روس نے سوشل میڈیا کے ذریعے امریکی انتخابات میں مداخلت کی کیوں کہ وہائٹ ہاؤس میں روس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والا صدر اس کے مفاد میں تھا۔
ٹرمپ نے حال ہی میں امریکی اداروں پر ہونے والے بڑے ہیکنگ کے حملے کا الزام بھی روس پر عائد کرنے سے انکار کردیا۔ روسی صدر پیوتن ففتھ جنریشن وار کو ایک نئی سطح پر لے جاچکے ہیں اور کوئی لیڈر اپنے قومی مفاد کے لیے ایسا کیوں نہیں کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پیوتن کے پاس ٹرمپ کا ایسا کچھ ہے جس کی وجہ سے ٹرمپ روس سے ڈرتا ہے۔ اسی وجہ سے ٹرمپ کی چار سال کی کامیابیاں بھی دھندلا گئیں۔ امریکا کی اوہایو یونیورسٹی کے ڈائریکٹر برائے انتخابی قوانین ، ایڈورڈ فالی بذریعہ ڈاک ووٹ یا پوسٹل بیلٹ کو ’’ حالیہ دہائیوں میں ووٹوں کی گنتی پر پیدا ہونے والے سنگین تنازعات کی جڑ‘‘ بتاتے ہیں۔
2003سے 2018کے مابین 15بار ایسا ہوا کہ کسی سخت مقابلے میں ان ووٹوں کے ذریعے ہونے والی جعل سازی کی بنیاد پر نتائج منسوخ کیے گئے۔ مارچ 2020تک ٹرمپ کو انتخابی نتائج کا اندازہ ہوچکا تھا۔ رواں برس مئی میں اپنی شکست یقینی نظر آنے کی وجہ سے ٹرمپ نے پوسٹل ووٹنگ میں جعل سازی پر واویلا شروع کردیا۔ ستمبر میں پینسلوینیا سپریم کورٹ نے ڈاک سے پڑنے والے ووٹوں کے قابل قبول ہونے کی تاریخ میں توسیع کردی اور انہیں ڈراپ باکسز میں جمع کروانے کی اجازت بھی دے دی۔
ریپبلکنز نے اس فیصلے کو روکنے کے لیے امریکی سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن 19اکتوبر کو عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی۔ پینسلوینیا کے ریپبلکنز نے مدت میں توسیع کے فیصلے کو روکنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر عدالتی کارروائی آگے بڑھانے کی کوشش کی لیکن 28اکتوبر کو عدالت نے اس درخواست کی قبل از انتخاب سماعت سے انکار کردیا۔ 28اکتوبر ہی کو ریپبلکنز نے شمالی کیرولینا میں ریاست کے انتخابی بورڈ کی جانب سے وبا کی بنیاد پر انتخاب کے نو دن بعد تک بیلٹ ووٹس قبول کرنے کی مہلت کو تین دن تک محدود کرنے کی استدعا کی۔
4نومبر کو وفاقی جج ایمیٹ جی سلیوان نے امریکا کے پوسٹ ماسٹر جنرل لوئس ڈیجوائے کو فوری طور پر تمام پوسٹل ووٹ پہنچانے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ ڈیجوائے اس حکم پر عمل درآمد نہ کروا سکے تو عدالت نے کہا کہ انہیں عہدے سے برخاست کردینا چاہیے۔ امریکی میڈیا میں پائی جانے والی ٹرمپ کی مخالفت کی وجہ سے انتخابات سے متعلق رپورٹس اور سرویز سے ڈیموکریٹس کی برتری کا تاثر ملنا یقینی بات تھی۔ وبا کے دنوں میں ٹرمپ کی ٹوئٹس کے ذریعے کی گئی لغو گوئی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔
انتخابی نتائج آنے کے بعد ٹرمپ نے بالخصوس ٹیکساس ، جارجیا ، وسکونسن اور مشی گن کے انتخابی نتیجوں کو چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔ سپریم کورٹ میں اپنے ہم خیال جج بھرتی کرنے کے بعد تجارت پیشہ ٹرمپ کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ اس کی جیب میں ہے۔ یہ ٹرمپ کا مغالطہ تھا کیوں کہ نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود ان ججوں نے بلا خوف و رغبت فیصلے کیے۔ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو 50قانونی کارروائیوں میں منہ کی کھانا پڑی۔ 13دسمبر کو 538الیکٹورل کالج کے ممبران نے ووٹ دیا اور ٹرمپ کے 232ووٹوں کے مقابلے میں بائیڈن نے 306ووٹ حاصل کرلیے۔
ٹرمپ کے قریبی دوست اور سینیٹ میں ریپبلکن کے اکثریتی قائد مچ مک کونل نے بائیڈن کو انتخاب جیتنے پر مبارک باد دے دی جو کہ ٹرمپ کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔ امریکا کے ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس کی برتری کے بعد اب سینیٹ میں ریپبلکنز کی برتری کا انحصار 6جنوری کو جارجیا میں سینٹ کی نشست کے لیے ہونے والے انتخاب پر ہے۔ سینٹ میں عددی صورت حال 50-50ہے اور نائب صدر کے ووٹ سے حزب اقتدار کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں ٹرمپ کا جارجیا کا دورہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کے لیے ’’بوسۂ مرگ‘‘ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس ہنگامہ خیزی میں کئی مرتبہ یہ محسوس ہوا کہ امریکا کا جمہوری نظام خطرے میں ہے۔ لیکن سپریم کورٹ سے ٹرمپ کے انتخابی اعتراضات مسترد ہونے اور ریپبلکنز کے سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے ارکان کی اکثریت کی جانب سے انتخابی نتائج تسلیم کرلینے سے تمام تر دباؤ کے باوجود نظام محفوظ رہا۔ بائیڈن کو ٹرمپ پر یوں بھی 70لاکھ ووٹوں کی برتری مل گئی تھی۔ ٹرمپ کے قریبی ساتھی روڈی جیولیانی اور اس کی ٹیم کی جانب سے افواہوں کی گرم بازاری اور ٹرمپ کے سوئنگ اسٹیٹ کے نمائندگان سے رابطوں کے باوجود کوئی منتخب نمائندہ ’بے ضمیر‘ نہیں ہوا۔
جب حال ہی میں ثابت شدہ مجرم لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فلین کو صدارتی معافی دی گئی تو کئی خدشات پیدا ہوئے، اس کے ساتھ ہی انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کے لیے ’مارشل لاء‘ لگانے کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ پاکستان کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ فلین چند دنوں کے لیے ٹرمپ کا قومی سلامتی کا مشیر رہا کیوں کہ یہ وہ مشتبہ شخص ہے جو یہ عہدہ ملنے سے قبل پاکستان پر بمباری کا پُرزور حامی تھا۔ بہر حال ، ٹرمپ کے چیف آف اسٹاف اور سینیئر قانونی مشیروں نے ’مارشل لاء‘ کی تجویز مسترد کردی۔مبینہ طور پر پینٹا گون میں ٹرمپ کے طرز عمل پر گہری تشویش پیدا ہوئی اور خاص طور پر مارشل لاء سے متعلق مشاورت نے سنجیدہ سوالات پیدا کردئیے۔
امریکی فوج میں بھرتی کے وقت ہر فرد ’’میں صدر امریکا کے تمام احکامات بجا لاؤں گا‘‘ کا حلف اٹھاتا ہے۔ تاہم یونیفارم کوڈ آف ملٹری جسٹس کے آرٹیکل 90 میں درج ہے کہ افواج کے اہل کار اپنے افسر بالا کے’’قانونی‘‘ احکامات مانے گا۔ لیکن کیا کوئی فوجی اپنے سینئر افسر، سیکریٹری دفاع یا صدر کے’’خلاف قانون‘‘ احکامات ماننے سے انکار بھی کرسکتا ہے؟
ایسے حالات میں سپاہی کوآئین میں بیان کردہ قانونی اور اخلاقی حدود میں رہنا چاہیے اور کسی بھی خلاف قانون حکم ماننے سے انکار کردینا چاہیے۔ ٹرمپ کے وفاداروں اور دوستوں کے اکسانے کے باوجود نظام کی مضبوطی ثابت ہوئی۔ ٹرمپ ہی کے مقرر کیے گئے سپریم کورٹ کے تین ججوں نے جمہوری نظام کو قائم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ امریکی انتخاب کی اس ہنگامہ خیزی کے بعد جمہوریت کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوئی۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)