|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2020

قائداعظم محمد علی جناحؒ کا یوم ولادت مناتے ہوئے راقم کے ذہن میں اواخر نومبر1985؁ء کے ایک واقعے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ روزنامہ’’ نوائے وقت ــ‘‘اسلام آباد (تب یہ راولپنڈی سے شائع ہوتا تھا) کے رپورٹر جناب نواز رضا راولپنڈی پریس کلب کے صدر منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے ماہوار پروگرام’’میٹ دی پریس‘‘ کا آغاز کیاتھا جس میں ہر ماہ ملک کی نمایاں شخصیات کو اظہارخیالات کیلئے مدعو کیا جاتا تھا۔جناب نواز رضا پروگرام کی پریس ریلیزتمام اخبارات کوجاری کروانے کیلئے خود ہی سپرمارکیٹ میں واقع پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) کے دفتر آجایا کرتے تھے ۔

ایک دن راقم نے جناب نواز رضا کو بتایا کہ پاکستان کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ پارک میں جہاں قائداعظم ـ ؒنے 1941؁ء اور پھر 1946؁ء میں تحریک پاکستان کے سلسلے میں مقامی شہریوں سے خطاب کیا تھا، ایک یادگار تعمیر کی جانی تھی لیکن اس مقصد کیلئے مختص فنڈزشہر کے میئرمیاں احسان الحق ثانی کی طرف سے اپنے حلقے میں اسلامیہ ہائی سکول جناح کالونی، گورونانک پورہ اور گورنمنٹ ڈگری کالج دھوبی گھاٹ کے سنگم پر ایک مینار کی تعمیر پر خرچ کرکے اسے فرید چوک کا نام دے دیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف قائد اعظمؒ کی یادگار کیلئے مخصوص جگہ پرعلاقے کے لوگ کوڑا کرکٹ پھینک رہے ہیں۔

اور رات کے اوقات میں دوسرے شہروںسے آنے والی بسوں کے مسافر رفع حاجت کیلئے دھوبی گھاٹ کے میں سٹاپ پراترتے ہیں اور اس طرح وہاں نہ صرف گندگی پھیل رہی ہے بلکہ تعفن کی وجہ سے وہاں سے گزرنا بھی محال ہوچکا ہے۔ ساتھ ہی راقم نے جناب نواز رضا کو اس سلسلے میں ایک خبر بھی دی جو اگلے ہی دن’’ نوائے وقت‘‘ کی زینت بن گئی ۔ اسی شام پی پی آئی کے چیف رپورٹر صوفی رفیق صاحب نے راقم کو بتایا کہ سابق بھٹو حکومت کے وزیر اطلاعات و مذہبی امور مولانا کوثر نیازی نے جو اب سینیٹ کے رکن ہیں، ایوان بالا میں اس خبر پر ایک تحریک پیش کی ہے ۔

اور اس سلسلے میں کمشنر فیصل آباد سے رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔چند روز گزرے، صوفی رفیق صاحب سینیٹ کی کارروائی کی رپورٹنگ کرکے دفترآئے اورخبر فائل کرنے کی تیاری کرنے لگے، اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، راقم نے ٹیلی فون اٹھایا تودوسری طرف ’’۔۔۔اور لائن کٹ گئی‘‘ کے مصنف مولانا کوثر نیازی لائن پر تھے، راقم کے فون اٹھاتے ہی بولے ’’ریاض صاحب! آپ نے مجھے مروادیا، کمشنر فیصل آباد نے رپورٹ دی ہے کہ خبر جھوٹی ہے، مذ کورہ جگہ پر کوئی گندگی نہیں پائی گئی نیزکوئی محب وطن شہری قائداعظم ؒکی یادگار کیلئے مخصوص جگہ پررفع حاجت تو کیا کوڑا پھینکنے کا بھی تصور نہیں کر سکتا۔

اب آپ ہی بتائیں کہ کمشنر کی رپورٹ کے بعد میری کیا عزت رہ گئی ہے۔‘‘ راقم نے عرض کی ’’جناب! کمشنر صاحب کی رپورٹ سوفیصد درست ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی مولانا تیز آواز میں بولے ’’جب کمشنر کی رپورٹ درست ہے توخبردینے کے پیچھے آپ کے مقاصد کیاتھے؟‘‘ راقم نے جواب دیا ’’جناب! کمشنر صاحب کی رپورٹ اس لئے درست ہے کہ کمشنر صاحب کو معلوم ہے کہ وہ جگہ قائد اعظمؒ کی یادگار کیلئے مختص کی گئی ہے اس لئے وہ واقعی وہاں گندگی پھیلانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے لیکن جو مسافر وہاں آکر حاجت سے فارغ ہوتے ہیں۔

اور علاقے کے لوگ جووہاں کوڑا پھینکتے ہیں، انہیں یہ بات نہیں معلوم، اس لئے وہاں غلاظت پھیلاتے ہوئے ان کے ذہن میں ایسا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ جب کمشنر صاحب نے دھوبی گھاٹ گرائونڈ کا دورہ کیا توان کی آمد سے پہلے وہاں سینیٹری سٹاف پہنچ چکاتھا اور اس جگہ کی صفائی ستھرائی ہوچکی تھی۔میںآپ کو اس جگہ موجود گندگی کے ڈھیروں کی تصاویر بھجوا دوں گا۔‘‘ مولانا نے کہا اب اس کی ضرورت نہیں ، جو ہونا تھا ہوگیااور اس سے پہلے کہ راقم مولانا کو لائن پر لاتا، انہوں نے خود ہی لائن کاٹ دی۔

راقم کو جب بھی یہ واقعہ یادآتا ہے تو ساتھ ہی قوم پرقائداعظمؒ کے بے پناہ احسانات بھی یادآنا شروع ہوجاتے ہیں جو انہوں نے اسلامیان ہند کیلئے ایک آزاد وطن کے حصول کیلئے کیے تھے۔ قائداعظم ؒ ہندومسلم اتحاد کے علمبردار بن کربرصغیر کے میدان سیاست میں ابھرے تھے لیکن ہندو قیادت کی شاطرانہ چالوں کا ادراک ہوتے ہی وہ کانگریس سے علیحدگی اختیار کرکے آل انڈیا مسلم لیگ کی صفوں میں چلے آئے او ر اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت جلد ہی سیاست کے افق پر چھا گئے۔ انہوں نے قوم کیلئے ایک چومکھی لڑائی لڑی جس کے دوران انہیں غیروں کے علاوہ اپنوں کی بھرپور مخالفت کا بھی سامنا تھا۔

انہیں کافراعظم تک کہہ کر پکارا گیا لیکن ان کے پایہ استقامت میں ذرا بھر لڑکھڑاہٹ نہ آئی۔ وہ انگریزی میں تقریرفرماتے تھے جبکہ قوم کی ایک واضح اکثریت انگریزی زبان سے ناآشنا تھی۔ اس کے باوجودقوم کو قائداعظمؒ کی دیانت اور مقصد سے لگن پر نہ صرف اعتماد تھا بلکہ ناز بھی تھا۔چنانچہ ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قوم یکجان ہو گئی۔14اگست 1947؁ء کو قوم کو اغیار سے آزادی حاصل ہوئی لیکن افسوس قائداعظمؒ جنہوںنے اپناتن، من اور دھن قوم کیلئے وقف کردیاتھا، کی زندگی نے وفانہ کی اور وہ قیام پاکستان کے محض ایک سال بعد ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

اغیار کے پنجہ استبداد سے آزادی اور پاکستان کا قیام بلاشبہ قوم پر قائداعظمؒ کا عظیم احسان ہے اور ہم نے ان کے احسان سے ان کے انتقال کے بعد بھی خوب فائدہ اٹھایا، جونہی قیام پاکستان کا اعلان ہوا اور انتقال آبادی کا سلسلہ شروع ہوا، ہم نے کلیم بھرنا شروع کردئیے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ آخر ہم ’’آزادی‘‘ کی نعمت سے بہرہ ور ہوئے تھے اوراب نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھانا ’’کفران نعمت ‘‘ ہوتا۔ہم اسی سرزمین کے باشندے تھے اورہندوئوں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں پر ہمارا بھی تو’’حق ‘‘تھا، ہم پر اچانک منکشف ہوا کہ قیام پاکستان سے قبل ہم ’’پودینے کے باغوں‘‘ کے مالک بھی تھے۔

چنانچہ ہم نے بہتی گنگا سے خوب ہاتھ دھوئے،اور تو اور قائداعظمؒ کے اس احسان کی بدولت ہم نے اپنی ذاتیں تک بدل ڈالیں۔سچ ہے آدمی وہی ترقی کرتا ہے جو وقت کے ساتھ چلتا ہے۔لہٰذاجو وقت کے ساتھ نہ چل سکے وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ذرا سوچئے ،قائداعظمؒ کا ہم پر کتنا بڑااحسان ہے کہ آزادی کے بعد ہمیں ہروہ آزادی مل گئی جس کاہم پہلے تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ہم اس ملک کے مالک بن بیٹھے اور اس کی اراضی ہماری ذاتی اراضی بن گئی، جہاں خالی اور لاوارث جگہ نظر آئی ، قبضہ جما لیا، تارکین وطن کی جائیدادیں اپنے نام کرواڈالیں، شاعر نے تو کہاتھا ’’دشت تو دشت ،دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے‘‘

لیکن ہم نے قبرستان تک نہ چھوڑے، قوانین تو موجود تھے لیکن ڈر کاہے کا؟ آخر ہم آزاد قوم ہیں۔ہم احسان فراموش قوم نہیں ہیں، ہم نے اپنے محسن کو ہرقدم پر یاد رکھا ہے اور اپنے ہر دفتر میں قائداعظم کی تصویر سجارکھی ہے، انہیں مزید ’’خراج عقیدت‘‘ پیش کرنے کیلئے ہم نے کرنسی نوٹوں اور سکوں تک پر بابائے قوم کی تصویرنقش کرالی ہے اور اگر کہیں قانون آڑے آتا ہے تو قائداعظمؒ کا یہ نقش ہمارے ــ’’کامــ‘‘ آجاتا ہے۔ یعنی یہ قائداعظمؒ کی تصویر اور نام کی’’ برکت‘‘ ہے کہ ہمارا کوئی کام کبھی رکتا نہیں، ناجائز کام کو جائز کروانا ہو،کسی کی حق تلفی کرنا ہو،کسی کی جائیداد پر قبضہ کرنا ہو ، اپنی جائیداد کی رجسٹری کروانی ہو۔

گاڑی کی رجسٹریشن کروانی ہو، روزگار کے حصول کا مسئلہ درپیش ہو،بڑے افسر سے کام کروانے کیلئے اسے تحفہ بھجوانا ہویا کاغذات کی تصدیق کروانی ہو، ہر جگہ’’ قائداعظم‘‘ ہی ہمارے کام آتے ہیں اور ان کے ’’نام‘‘ کی ’’برکت‘‘ سے مہینوں اور برسوں کے رکے ہوئے کام پل بھر میں ہو جاتے ہیں۔راقم لکھتے لکھتے ابھی یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ اس کی نظروں کے سامنے صبح کا منظر گھوم گیا،دفتر کے سربراہ کی پشت پر لگی تصویر میں قائد اعظمؒ بظاہرمسکراتے نظرآرہے تھے لیکن صاحب ساڑھے دس بجے تک دفتر نہیں پہنچے تھے اور دفتر کا ایک اہلکار مجھے آرام سے گھر بیٹھنے کی تلقین کرنے کے ساتھ ہی گھر بیٹھے بیٹھے کام کرواکر دینے کی نوید دے رہاتھا۔

اور قائداعظم کے نقش والے بڑے کرنسی نوٹ کا تقاضا کررہاتھاکیونکہ مجھے اپنے گھر کیلئے بنیادی ضرورت کی فراہمی کیلئے ایک کنکشن چاہیے تھا۔ میں تقریباً اڑھائی سال سے یہاں چکر لگارہاتھا اور اب دفتر کے سربراہ سے ملنے کی خواہش رکھتا تھا۔میری نظرایک مرتبہ پھردیوار پر آویزاں قائداعظمؒ کی تصویر کی طرف اٹھی اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ ان کی گھورتی ہوئی نظریں مجھ ہی پر مرکوز ہیں اور گویا سرگوشیوں میںکہہ رہی ہیں کہ اگر رشوت لینا گناہ ہے تو رشوت دینا بھی گناہ ہے۔ میں قائداعظمـؒ کی ان نظروں کی تاب نہ لاسکا اور واپس گھر کی طرف چل دیا ۔

واپسی کے سفر میں قائد اعظم کی سرگوشیاں راستے بھر میرے کانوں میں گونجتی رہیں، وہ فرما رہے تھے کہ تم کیسی قوم ہوکہ ہرسال میرا یوم ولادت اس عہد کی تجدید کے ساتھ مناتے ہو کہ پاکستان کو میرے خوابوں کی تعبیر دو گے اور میرے مشن کی تکمیل کرو گے لیکن تمہیں میرے خوابوں کا علم ہے نہ میرے مشن سے آگہی، اور تو اور تمہیں میرے اصولوں کا بھی پاس نہیں، تم دفتروں اور کرنسی نوٹوں پر میری تصویراور اپنے چہروں پر منافقت بھری مسکراہٹ سجاکر سمجھتے ہوکہ میرے مشن کی تکمیل کر رہے ہو، پاکستان میں نظام کی بحث میں الجھ کرنہ صرف میری ذات بلکہ میری جدوجہد اور مشن کو متنازعہ بنا رہے ہو۔

کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے لنکنز ان(Lincoln’s Inn) میں داخلہ لیتے وقت جب اس کے صدردروازے پر اپنے آقاﷺ کا اسم مقدس بحیثیت بہترین قانون دان لکھا دیکھا تھا تو اسی وقت تہیہ کر لیاتھا کہ مجھے اپنی زندگی کو آقاﷺ کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ہے، پھر جب میں نے علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد کا آغاز کیا تب بھی میں نے مسلمانان برصغیر کو اسلام کے نام پر ہی ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا تھا ، میں نے تمہارے لئے ’’ایمان، اتحاد اور تنظیم‘‘ کے جو اصول وضع کیے تھے وہ اسلامی تعلیمات کا ہی نچوڑ تھے۔

میں ’’کام ، کام اور بس کام‘‘ پر زور دیاتویہ بھی عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا،اب میں تمہیں یاد دلائوں اقبالؒ نے کیا کہاتھا؟ اس نے کہاتھاــ’’وقت فرصت ہے کہاں ، کام ابھی باقی ہے‘‘آج سے اس شعر کو حرزجاں بنالو اور عملی طور پرثابت کردو کہ پاکستان کامطلب واقعی لاالہ الااللہ ہے

آج بھی قائداعظمؒ کی یہ سرگوشیاں میرے کانوں میں گونج رہی ہیں اور ساتھ ہی اقبالــؒ کے یہ شعر بھی:
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمدﷺ کا تجھے پاس نہیں
اور
وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نو ر توحید کا اتمام ابھی باقی ہے