شہید بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 ء کو کراچی میں پیدا ہوئی، وہ اپنے والد قائد عوام کی پیا ر ی پنکی تھیں، انہوں نے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی جمہو ری سوچ کو لیکر آگے بڑھی شہید بھٹو کی شہا دت کے بعد 1986 ء میں پاکستان آئیں تو عوام کے ٹھا ٹھے ما رتے سمندر نے اُن کا پر تبا ک استقبال کیا اس طرح اس عوامی سمندر ضیا ء آمریت کو شکست دے دی ثابت ہوا شہید ذوالفقار علی بھٹو کا وہ بنیا دی سلو گن کہ ” طاقت کا سر چشمہ عوام ہے”
شہید بے نظیر بھٹو نے جمہو ری انداز میں عوام کی طاقت سے ضیا ء آمریت کا مقابلہ کیا اور اس طر ح آمریت کو شکست دے کر جمہو ری حکومت کا قیا م عمل آیا لیکن آمریت کے کردار عوام دشمن قوت ابھی بھی جمہوری صفوں میں موجود تھی، جو یہ نہیں چاہتے تھے کہ ملک کے اندر عوامی حکو مت ہو، اوراس طرح وہ اپنی ان ناپاک سازشوں میں کامیاب ہوئے اور ایک با ر پھر آمریت کے پیداوار چھا گئے اور مختلف سازشیں کر کے عوام کے دلوں سے بھٹو کی چاہت کو ختم کر نے پر تلے رہے۔
مگر بھٹو آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہے، اور اسی طرح شہید بھٹو کی پیا ری پنکی شہید بی بی بھی عوام کے دلوں پر راج کر رہی ہے، 27 دسمبر کی شام جب لیا قت باغ میں شہید بی بی کو قتل کیا گیا تو مجھے مولا نا کوثر نیا زی کے اشعار یا د آگئے، مولانا کوثر نیا
زی شہید ذوالفقار علی بھٹو کے رفیق کا ر تھے،
راز دنیا پر کھلا ہے یہ تیرے قتل کے بعد،
لوگ مرکے بھی رہا کرتے ہیں زندہ کیسے،
کون کتنا ہے تیرے قتل کی سازش میں شریک،
اک نہ اک روز نقاب اٹھے گا ہر چہرے سے،
شہر تو محو منا جا ت و دعا کا پوچھو،
حاکم شہر نے وہ رات گزاری تھی کیسے،
مولانا کو ثر نیا زی نے یہ اشعا ر شہید محترم بے نظیر بھٹو کے عظیم باپ قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شہا دت کے حوالے سے لکھی، جب انہیں ایک سیا ہ رات میں عالمی طاقتوں کی ایماء پر ایک آمر نے تختہ دار چڑھا دیا تھا، ابھی بھٹو شہید کی جدائی کے آنسوں تھمے نہیں تھے، کہ غریب عوام کیلئے اُمید کی کرن محترمہ بے نظیر بھٹو کو بڑے سفا کا نہ طریقے سے 27 دسمبر 2007ء راستے سے ہٹا دیا گیا، آج وطن عزیز کے غریب عوام محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر نوحہ کناں ہیں۔
کمزور قوتوں اور غریب ممالک کا یہ بہت بڑا المیہ ہے، کہ جب ان میں کوئی بڑے لو گ (رہنماء) پیدا ہے تو ہیں، اور وہ اپنے غریب عوام کی امیدوں اور امنگو ں کو پورا کر نے کیلئے آگے بڑھتے ہیں، تو انہیں راستے سے ہٹا دیا جا تا ہے، اور انہیں سراخ تک نہیں ملتا ہے، کہ ان کے محبو ب و رہنما ء کا لہو کس کے ہا تھوں پر ہے، اور اگر بعض واقعا ت یا مقاما ت پر حقائق کا پتہ چلتا بھی ہے تو عالمی گم شائستہ طاقتیں مزید خون خرابے پر اتر آتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کے ان دو عظیم واقعا ت جن میں قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو اور فخرے اشیا ء محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، ان دونوں واقعا ت کے پیچھے انگہنت کہانیاں ہیں، اور ان دونوں واقعا ت کے رہنماء ہو نے کے بعد کروڈوں عوام کی امیدوں، سہا روں اور امگوں کا خون ہو ا یہ کہا جا سکتا ہے، کہ شہید بھٹو اور شہید بی بی کا قتل کروڈوں انسانوں کی خواہشا ت کا قتل ہے، اور مملکت خداداد پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔
شہید بی بی جب نو سالہ آمرانہ دو ر کے بعد 18 اکتوبر 2007 ء کو وطن واپس تشریف لائیں تو کراچی کی شہراؤ ں پر عوام کا سیلا ب امڈ آیا، عوام دشمن طبقات شہید بی بی کے اس بے مثال پر تبا ک استقبال سے حواس با خستہ ہو گئے اور شہید بی بی کے گاڑی کے قریب کار ساز کے مقام پر بم بلاسٹ کر کے 300 سو سے زائد کارکنوں کی شہادت کی سلامی دی گئی، لیکن وہ بہادرخاتون جس کی رگوں میں عظیم باپ کا خون دوڑرہا تھا۔
وہ غریب عوام کے چہروں پر امید کی کرن دیکھ کر عوام دشمن قوتوں کو للکار آگے بڑھی، اور بل آخر 27 دسمبر کی شام روالپنڈی لیا قت باغ میں اپنے کا کنو ں کے ساتھ جام شہا دت نوش کی، سلام بی بی شہید تیری جرت اور بہا دری کو، قارین، 27 دسمبر کے حوالے سے لکھی گئی تحریر میں اگر میں قائد لسبیلہ غلام اکبر لاسی کا تذکرہ ناکروں تو میں سمجھتا ہوں کہ زیادتی ہو گی، مرحوم غلام اکبر لاسی کا شما ر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی با عتما د اور قریبی ساتھیوں میں ہو تا ہے۔
مرحوم غلام اکبر لاسی لسبیلہ سے دو مرتبہ ممبر آف قومی اسمبلی بنے،اور دونوں مر تبہ وفاقی وزیر بھی رہے، اپنے مختصر دور میں مر حوم نے لسبیلہ کے لوگوں کو بیرون اور اندرون ملک میں روزگار فراہم کیا، آج بھی لسبیلہ میں غلام اکبر لاسی کے چھوڑے ہو ئے مشن پیپلز پارٹی لسبیلہ کے نظریا تی دوست نوجوان رہنماء سابق ٹیکٹ ہولڈر نصراللہ رونجھو کی قیا دت میں مشن جاری کیئے ہوئے ہیں۔
تحریر کے آخر میں دعا گوہوں اللہ پاک قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ما در جمہو ریت بیگم نصرت بھٹو، قائد لسبیلہ مرحو م غلام اکبر لاسی، شہدا جمہوریت و شہدا کا ر ساز کی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں عالی مقام عطا ء فرمائیں۔