|

وقتِ اشاعت :   December 29 – 2020

اس نے اپنی کتاب Daughter of Destiny میں خود کودخترمشرق قرار دیاتھا لیکن دنیا نے اس کامقام اس سے بھی سوا جانا۔ نہیں یقین تو 1996؁ء کی گنزبک آف ورلڈریکارڈ اٹھاکردیکھ لیجیے جس میں اسے عصر حاضر کی مقبول ترین سیاست دان قراردیاگیاورنہ 4؍مئی 1996؁ء کے ’ٹائم‘ اور’آسٹریلین میگزین‘ دیکھ لیجیے جن میں اسے دنیا کی سو طاقتور ترین خواتین میں شمار کیاگیاتھا۔اعزازات اس کے بے شمارہیں، وہ کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم تھی، وہ پاکستان کی سب سے کم عمروزیراعظم بھی تھی، وہ پاکستان کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور سب سے زیادہ اعزازیافتہ وزیراعظم بھی تھی۔

وہ پاکستان کی پہلی شخصیت تھی جو دومرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی جبکہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کیلئے پرعزم تھی لیکن وہ اپنے سب اعزازات کے ساتھ چپکے سے اس دنیا سے چلی گئی اور اپنے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں اور کم و بیش اتنی ہی تعداد میں اپنے مخالفین کو سوگوار کرگئی۔ دہشت گرد اس کی تاک میں تھے۔ اس پرپہلا خودکش حملہ 18؍اکتوبر 2007؁ء کو کراچی میںاس وقت ہوا جب سے وہ آٹھ سالہ جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آئی تھی لیکن قدرت کو کچھ اور منظورتھا اس لئے بال بال بچ گئی۔لیکن جو وقت معین تھا وہ اسے نہ ٹال سکی اورآٹھ سال بعد وطن لوٹنے والی وہاں چلی گئی جہاں سے کوئی لوٹ کرنہیں آیالیکن یکے بعد دیگرے سب کوہی وہاں جانا ہے۔

برصغیر میںبھٹو اور گاندھی خاندان میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ دونوں خاندانوں کی تین تین نسلیں اقتدار میں بھی رہیں اور حزب اختلاف میں بھی۔ غیر طبعی اموات کے سلسلے میں بھی دونوں خاندانوں میں گہری مماثلت ہے۔بھارت میں اندراگاندھی اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی اور راجیو گاندھی غیر طبعی موت کاشکارہوئے تو پاکستان میں بھٹو فیملی کے بیشتر افراد بھی غیرطبعی موت سے ہمکنارہوئے۔ 1979؁ء میں والدذوالفقار علی بھٹوکوپھانسی ہوئی، 1985؁ء میں بھائی شاہنوازفرانس کے شہر کینز(Cannes) میں پراسرار موت کاشکارہوئے، 1996؁ء میںجب وہ خود برسر اقتدارتھی، دوسرے بھائی مرتضیٰ کراچی میں گولیوں کا نشانہ بنے اور آخر میں 2007؁ء میں بینظیر بھٹوخود دہشت گردی کا شکارہوگئیں۔

طرز سیاست اور نظریات سے اختلاف اپنی جگہ، بینظیربھٹو کا قتل پاکستان توکیا دنیا کا ہرفردکو سوگوار کرگیاتھا اور اس قول کی عملی تصویرسامنے آگئی کہ ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کاقتل ہے اور اس غیر معمولی خاتون کے قتل کے درد کو دنیا بھر میں محسوس کیاگیا۔ تو کیا سفاک اور شقی القلب قاتل نے یہ نہیں سوچاتھا کہ یہ قول کسی عام انسان کانہیں محسن انسانیتﷺ کا فرمان ہے۔21؍جون 1953؁ء کراچی میں پیداہونے والی بینظیر بھٹو نے پاکستان میں ابتدائی تعلیم کے بعد 1973؁ء میں ریڈ کلف کالج ہارورڈ یونیورسٹی اور پھر 1976؁ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔

اس کے بعد 1976-77؁ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے ہی فارن سروس میں گریجویشن کی۔وہ سب سے پہلے پاکستان کی سب سے کم عمر سفارتکار کے روپ میں اس وقت منظر عام پرآئیں جب سقوط ڈھاکہ کے بعدوہ اپنے والد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکے ہمراہ تاریخی شملہ معاہدے کیلئے بھارت جانے والے وفد میں شامل ہوئیں ۔اس تجربہ سے بینظیر نے بہت کچھ سیکھا ، جون 1977؁ء میں وہ ایک باقاعدہ سفارتکار کے طورپرابھریں اور اس دوران جو کچھ سیکھا اسے بعد میں اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران اس کمال مہارت سے استعمال کیا کہ اقتدارسے محرومی کے بعدبھی اہل مغرب انہیں خارجہ پالیسی پر اتھارٹی تسلیم کرتے تھے اور خارجہ امورپرلیکچرز کیلئے انہیں خصوصی طورپر مدعو کیاجاتا تھا۔

بینظیر بڑی باہمت ، نڈر اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔ 1988؁ء کے انتخابات کیلئے اپنی پارٹی کی مہم انہوں نے اس حالت میں چلائی جس میں کوئی عام خاتون گھر سے باہرنکلتے وقت بھی سومرتبہ سوچتی ہے لیکن بینظیر نے ملک کے طول وعرض میں مسلسل دورے کئے اور بڑے بڑے عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔ عورت کو عام طورپر صنف نازک سمجھاجاتاہے لیکن بینظیر نے اسم بہ مسمیٰ ہونے کاثبوت دیا ، پاکستان کی عام عورت پانچ دس مردوں کے سامنے زبان کھولتے ہوئے جھجکتی ہے لیکن یہ بینظیر کااعزاز ہے کہ انھوں نے مردوں کے غلبے والے اس معاشرے میں مردوں اور خواتین پر مشتمل لاکھوں کے اجتماعات سے خطاب کیا۔ان کا خطاب کااپناایک مخصوص اندازتھا اور وہ انتہائی نپے تلے الفاظ استعمال کرتی تھیں۔

اپریل1986؁ء میں جب بینظیروطن واپس آئیںتو پوراملک ان کیلئے چشم براہ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب وہ لاہور کے بعد فیصل آباد پہنچیں تو تاریخی دھوبی گھاٹ گرائونڈکے سٹیج پر راقم کے ہم زلف چوہدری سرفراز علی کی تین سالہ بچی مہین کوپہلے گود میں اٹھایا اور پھر ہاتھوں میں اٹھاکر اسے سرسے بلند کرکے مجمع کویہ باور کرایا کہ وہ ایک شفیق ماں ہونے کے علاوہ اپنے کارکنوں سے محبت رکھنے والی سیاستدان بھی ہیں۔بینظیرموقع محل کی مناسبت سے جملے چست کرکے مجمع کو مسحور کردیتی تھیں۔

مارچ 1990؁ء میں راقم کومظفرآباد کے نیلم سٹیڈیم میں ان کے جلسہ اور پھر آزادکشمیرکونسل و قانون ساز اسمبلی کے مشترکہ اجلاس کی کوریج کاموقع ملا۔ اپنی تقریرمیں انہوں نے بھارتی رہنمائوں کو مخاطب کرکے کہاکہ جہاں کشمیریوں کا پسینہ گرے گاوہاں پاکستانیوں کاخون گرے گا۔ بینظیر بھٹو کے یہ الفاظ پاکستانی قوم کی طرف سے کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کے بھرپوراظہارکے عکاس ہیں۔بہترین مقررہونے کے علاوہ بینظیربہترین مضمون نگار اور مصنف بھی تھیں۔ دنیا بھر کے اخبارات میں خارجہ امورپر ان کے پرمغز مضامین باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے۔

1978؁ء میں بینظیر نے Foreign Policy in Perspective جبکہ 1989؁ء میں Daghter of the East لکھیں۔ دونوں کتابیں بہت مقبول ہوئیں۔اس کے علاوہ ان کی تقاریراور تحریروں کو دنیابھر میں ممتاز مصنفین نے اپنی کتابوں میں محفوظ کیاہے۔ ان میں سے Keith Philip Lepor کی کتابیں The Way Out ، Pakistan Foreign Policy, Challenges and Responses in the Post-cold War Era اور After the Cold Warنیز William Saffire کی کتاب Lend Me Your Ears: Great Speeches in History قابل ذکرہیں۔ مزیدبرآں بینظیر کی کچھ تحریریں Kristof and Nickerson کے زیراہتمام شائع ہونے والی کتاب Predictions for the Next Millennium اور Bookmaster Inc. کی طرف سے شائع کی جانے والی کتاب Book of Hopes and Dreams میں بھی شامل کی گئیں۔

جنوری1996؁ء میں جب وہ دوسری مرتبہ وزیراعظم کے منصب پرفائز تھیں توخورشید حسن میر(اب مرحوم) کے توسط سے راقم کو وزیراعظم سیکرٹریٹ میں خدمات انجام دینے کی دعوت دی لیکن بوجوہ راقم نے ان کی دعوت قبول نہ کی۔اصل میں وہ ’’دی نیشن‘‘ لاہور میں مسئلہ کشمیر پر شائع ہونے والے مضمون سے متاثر ہوئی تھیں اور بذریعہ ای میل اسے سراہاتھا(اس وقت تک ای میل کے ساتھ محفوظ رکھنے یعنی saveکا آپشن دستیاب نہیں تھا اس لئے بینظیر بھٹو کا وہ ای میل پیغام محفوظ نہ کیا جا سکا لیکن اس کے بعد کے ای میل پیغامات میرے پاس محفوظ ہیں۔

اسی طرح محترمہ کے والد ذوالفقار علی بھٹو کا 1967؁ء کا ایک خط جب انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی، کافی عرصہ راقم کے پاس موجود رہا لیکن بدقسمتی سے جب قبضہ گروپ نے وراثتی جائیداد پر قبضہ کیا ،تین سوسال پرانی دوسری دستاویزات نیز دادا اور والدصاحبان کے اسناد کے ساتھ ساتھ جناب بھٹو کا یہ خط بھی قبضہ کرنے والوں کی دست برد سے نہ بچ سکا) اوربعد میں وہ اپنے قتل تک راقم سے بذریعہ ای میل رابطے میں رہیں۔ دوسری مرتبہ جلاوطنی کے دوران بینظیر بھٹو نہ صرف اپنے کارکنوں بلکہ پاکستان میں دوسرے افراد سے بھی براہ راست رابطے میں رہیں۔

اور یوں ثابت کیا کہ وہ پارٹی وفاداریوں سے زیادہ انسانی ہمدردی اور سماجی روابط پر یقین رکھنے والی خاتون ہیں۔ 10 ؍فروری 2003؁ء کو انہوں نے راقم کو مندرجہ ذیل میل بھیجی حالانکہ راقم ان کی پارٹی کاورکرتھا نہ ان کے طرز سیاست سے متفق:

Dear Riazuddin Sahib, Thank you for the kind message on the occasion of Eid. This year we are not observing Eid due to the death of Ameer Shereen Begum first wife of Quaid e Awam Zulfikar Ali Bhutto. I take this opportunity to convey my good wishes to you and your family. – Mohtarma Benazir Bhutto
وسط اپریل2004؁ء میں راقم کے برادرنسبتی چوہدری حامد علی کے انتقال پر انہوں نے راقم کو یہ پیغام بھجوایا
Dear Riazuddin Sahib, I am deeply grieved to hear the sad news that Ch. Hamed Ali, your brother in law has passed from this world. May God grant the soul a place in heaven and give the family members the patience to bear this loss. MBB
مندرجہ بالا پیغامات کے علاوہ بینظیر بھٹو کا 4؍دسمبر2002؁ء کو بھجوایا جانے والا عیدکارڈ بھی راقم کے میل باکس میں محفوظ ہے جس پر یہ الفاظ رقم ہیں:
Blessings of Ramadan and Eid Greetings to Mr Riazuddin
From Mohtrama Benazir Bhutto

بینظیرایک مخلص قومی رہنماء کی حیثیت سے عوام میں گھل مل جاتی تھیں بقول ان کے جب ہم اقتدار میں ہوتے ہیں تو خوب بارشیں ہوتی ہیں، فصلیں خوب ہوتی ہیں، معیشت مضبوط ہوتی ہے اور ملک ترقی کرتاہے۔ اس لئے کہ ہم عوام پر مہربان ہوتے ہیں اور قدرت ہم پر مہربان ہوتی ہے۔بینظیر کی موت بھی اس وقت ہوئی جب وہ جلسہ گاہ سے رخصت ہوتے ہوئے عوام میں گھل مل گئی تھیں۔موت برحق ہے اس سے کسی کو مفر نہیں ۔ہم لوگوں اور ان کے کردار کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ قدرت کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔اور کسی بزرگ کاقول ہے کہ قدرت اچھے لوگوں کو جلد اپنے پاس بلالیتی ہے۔ بہرحال اللہ بینظیر کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔