پٹ فیڈر کینال کی تعمیر سے قبل اوچ، مانجھوئی اور شاہی کینال کی کمانڈ میں زیر کاشت رقبہ بلوچستان کا سب سے زیادہ زرخیز اور آباد علاقہ ہوا کرتا تھا یہاں پر ہر قسم کے باغات ہوا کرتے تھے اور اس علاقہ کے آم کے باغات بہت مشہور ہو کرتے تھے یہاں گندم اور چاول کے علاوہ ہر قسم کی سبزیاں اور پھل کاشت کئے جاتے تھے 1967 ء میں پٹ فیڈر کینال کی تعمیر کا کام مکمل ہوا یہ نہر شاہی کینال، اوچ اور مانجھوئی کینال کے زیر کاشت رقبہ کے بالائی حدود کے اوپر ریتیلی زمین میں تعمیر کی گئی تھی پٹ فیڈر میں پانی سپلائی کے فوراً بعد سیم و تھور کے مسائل ابھرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے۔
چند سالوںمیں تقریباً دو لاکھ ایکڑ انتہائی زرخیز اراضی سیم و تھور کیوجہ سے مکمل تباہ ہوگئی اس کے بعد اربوں روپوں کی لاگت سے سیم نہروں کا جال بچھایا گیا اور ان سیم نالوں پر سالانہ کرڑوں روپے دیکھ بھال اور مرمت کی مد میں خرچ ہوتے ہیں لیکن اس منوصبے کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا یہاں کے لوگ تقریباً نقل مکانی کرکے روز ی روٹی کی تلاش میں دوسرے شہروں میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے دن بدن کی بڑھتی ہوئی بے روز گاری، بھوک و افلاس سے بد امنی اور دہشتگردی کا رجحان بڑھنا گیا اب چند ایک علاقوں میں چھوٹے چھوٹے زمین کے ٹکڑوں پر صرف چاول کاشت کیا جاتا ہے۔
جس کی پیداواری صلاحیت انتہائی قلیل ہے جس کیوجہ سے زمیندار تنگ دستی کا شکار ہیں جہاں تک ھموجودہ نہری نظام کے کام میں رکاوٹ اور طوالت کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں کافی تحقیق اور جستجو کے بعد یہ اخذ کیا گیا کہ اس پروجیکٹ پر کوئی ماہر اور تجربہ کار انجینئر بحیثیت پروجیکٹ ڈائریکٹر نہیں آیا سابقہ چیف انجینئر ایریگیشن محمد ابراہیم رند نے کسی طرح اس پروجیکٹ کو کامیابی سے چلایا مگر ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد نا اہل اور نا تجربہ کار انجینئروں کو محض سیاسی اثر و رسوخ کی بناء پر لایا گیا ۔ تاہم اس دوران چیف انجینئر حاجی عبدالحمید مینگل اور شیر افغان جیسے اچھے انجینئرز آگئے۔
لیکن اُن کو چند ماہ بھی ٹکنے نہیں دیا گیا ٹھیکیدار اور سیاسی لوگوں کی ایماء پر تعینات کردہ پروجیکٹ ڈائریکٹروں نے صرف ان کی خوشنودی کیلئے کام کرکے تمام فنڈ ہڑپ کرلئے ۔ نہری نظام کے فنڈز کو ناجائز طور پر دوسرے علاقوں میں منتقل کے نام نہاد سیلابی بندات کے نام پر خورد برد کردیا گیا۔ جس کیوجہ سے نہری نظام پر کام تقریباً معطل ہو کر رہ گیا جس سے ہزاروں کسانوں اور زمینداروں کو سالانہ اربوں روپوں کا نقصان ہورہا ہے ۔ یہاں پر میں موجودہ سیکرٹری ایریگیشن بلوچستان اور اس کے ماتحت آفیسران کے بھتہ خوری کا ایک انوکھی مثال پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
وہ اس طرح کے موجودہ سیکرٹری ایریگشن بلوچستان کے ایماء پر حالیہ 2020 ء موسم خریف کے موسم میں نصیر آباد ڈویژن کے محکمہ ایریگیشن کے انجینئرز نے پٹ فیڈر کینال کے کمانڈ کے ہزاروں کسانوں اور زمینداروں کا زرعی پانی پٹ فیڈر کینال کے بیرون کے زمینداران کو غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کے عیوض لاکھوں روپے بھتہ لیکر کمانڈ کے ہزاروں کسانوں اور زمینداران کی زرعی اراضی کو بنجر اور غیر آباد کردیا ہے جبکہ اس ضمن میں چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بینچ سبی نے مورخہ 30 دسمبر 2015 ء کو اپنے ایک فیصلے میں حکم صادر کیا تھا کہ سیکرٹری ایریگیشن بلوچستان اپنے ایکس ای این پٹ فیڈر کینال ڈویژن۔
ڈیرہ مراد جمالی کے مورخہ 15 مارچ 2014 ء کے روزنامہ جنگ کوئٹہ میں شائع شدہ نوٹیفکیشن کی پاسداری کرتے ہوئے بیرون کینال چاول کی غیر قانونی کاشتکاری کو روکے۔ شکر ہے کہ زمیندار کسان تحریک بلوچستان اور علاقے کے معزز قبائلی عمائدین کے مسلسل احتجاج اور طویل جدوجہد کے بعد آخر کار رنگ لائی۔ پٹ فیڈر کینال کی توسیعی پروجیکٹ ڈیرہ مراد جمالی میں اربوں روپوں خورد برد کرکے گرین بیلٹ کو تباہ کرنے والے کرپٹ آفیسران کے خلاف نیب بلوچستان نے احتساب عدالت میں ریفرنس جاری کیا ہے۔
قوی امید ہے کہ احتساب عدالت نہ صرف کرپٹ عناصر کے خلاف بے رحمانہ احتساب کریگی۔ بلکہ پچھلے کئی برسوں سے جو دو لاکھ ایکڑ بنجر اراضی گرین بیلٹ میں تبدیل ہونا تھی اُن ہزاروں کسانوں اور زمینداران کے ارب ہا روپے کے نقصانات کا بھی ازالہ کیا جائے گا۔