بلوچستان ملک کا وہ بد نصیب صوبہ ہے کہ جسے آج کے اس جدید دور میں جدید موٹر وے سڑکیں دینے سے وفاقی حکومتیں انکاری ہیں یہی وجہ ہے کہ اس صوبے کی قومی شاہراہوں پر اموات کی شرح میں گزشتہ چند سالوں سے بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے کیونکہ بلوچستان کو دیگر صوبوں سے ملانے والی سنگل ٹریک سڑکوں پر ٹریفک زیادہ ہو چکی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وفاقی محکموں خصوصاً ریلوے حکام کی عدم دلچسپی سے بلوچستان کے لئے آنے والی ٹرینوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، ایک آدھ ٹرین کوئٹہ سے کراچی یا لاہور کے لئے چلائی جاتی ہے۔
جس میں کوئی بھی معزز شہری سفر کرنے سے گریزاں رہتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ٹرینوں میں آج کے دور کی جدید سہولیات تک نہیں ہیں ،ان ٹرینوں کو سکھر ’ روہڑی اور پنجاب کے دیگر اسٹیشنوں پر روک کر کراچی سے لاہور یا پشاور چلنے والی تیز رفتار ٹرینوں کو’’ کراسنگ‘‘ دینے کے نام پر گھنٹوں سائیڈ لائن پر روک کر اس کا تماشہ بنانے کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری رہنے کے سبب اب یہ ٹرینیں کوئٹہ سے اپنی منزلوں تک 36,36گھنٹوں میں پہنچ رہی ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ ان ٹرینوں کی سروس کو ناکام کرنے میں وفاقی محکموں کا پورا پورا ہاتھ ہے ۔
مال گاڑیوں کے ذریعے اشیاء کی ترسیل سالوں ہوئے رک گئی ہے ایک عرصہ ہو چلا ہے کہ ہماری آنکھوں نے کوئٹہ سے کسی بھی طرف مال گاڑی جاتے ہوئے دیکھی ہو۔ مال گاڑیاں تو سرے سے ہی غائب ہیں چاہے وہ ایران کے لئے جانے والی ٹرینیں ہوں یا چمن کے لئے ‘ ان کا نام و نشان مٹ چکا ہے دوسری طرف مسافر بردار ٹرینوں کی بندش سے مسافروں کا تمام رش پرائیویٹ کوچز اور ٹوڈی گاڑیوں پر پڑا ہے جن کی تعداد میں گزشتہ چند سالوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر ان بسوں کے نت نئے ٹرمینل بنائے جا چکے ہیں۔
یہاں سے نکلنے والی گاڑیاں محض چوبیس گھنٹوں میں اپنی منزلوں پر پہنچ جاتی ہیں کہاں ٹرین کی 36گھنٹوں کی تھکا دینی والی سفر اور کہاں ان بسوں اور کار گاڑیوں کے ذریعے محض 24گھنٹوں میںمنزل مقصود تک پہنچنے کا سفر‘ظاہر بات ہے کہ شہری ان بسوں کے ذریعے سفر کو ترجیح دیتے ہیں لیکن دوسری طرف ٹریفک کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہونے کی وجہ سے کوئٹہ سے جیکب آباد‘ کراچی ‘ لاہور ‘ ملتان ‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور کے لئے جانے والی بسیں اور دیگر گاڑیاں سنگل ٹریک سڑکوں کے باعث تواتر کے ساتھ حادثات کا شکار ہورہی ہیں۔
جس کے نتیجے میں جب صبح اخبار اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو کسی نہ کسی شاہراہ پر کسی بڑے حادثے کی خبر ضرور ملے گی اب تو اس میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے تقریباً ہر روز ان قومی شاہراہوں پر حادثات دیکھ کر پریشانی بھی لاحق ہوتی ہے کیونکہ بلوچستان کے عوام پر شدید ذہنی دباؤ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے جب بھی کوئی شخص یا اس کی فیملی ان سڑکوں پر سفر کے لئے نکلتے ہیں تو سفر کی تمام دعاؤں کو پڑھنے کے علاوہ ان کے گھر والوں کا مسلسل بذریعہ موبائل فون رابطہ رہتا ہے اور ان سے ہر دو چار گھنٹوں کے بعد رابطہ کرکے ان کی خیریت پوچھی جاتی ہے۔
حتٰی کہ سفر سے نکلنے پر شہری اور ان کی فیملی’’خیرات ‘‘ کے لئے کوئی رقم بھی مقرر کرتے ہیں کہ منزل مقصود تک پہنچنے پر کسی غریب شخص کو اللہ کی رضا کے لئے بخریت پہنچنے پر رقم دی جاتی ہے اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیاجاتا ہے کہ وہ کسی حادثے کے بغیر اپنی منزل تک پہنچے ہیں ۔یہ صورت حال نفسیاتی صورت اختیار کر چکی ہے ، لوگوں میں خوف ان پے در پے حادثات کی وجہ سے پیدا ہونا لازمی امر ہے شاید ہی کسی اور صوبے کے لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہوں ما سوائے ہم بلوچستانیوں کے ‘ اور پھر افسوسناک صورت حال یہ بھی ہے کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا 47فیصد شاہرائیں رکھنے والا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود این ایچ اے کے ہیڈ آفس سے بھی محروم ہے۔
ہیڈ آفس کو کوئٹہ میں ہونا چائیے تھا جبکہ اسے اسلام آباد میں بنایاگیا ہے اب اسلام آباد کے وفاقی وزیر ہوں یا وہاں کی بیورو کریسی ان کو تو بلوچستان سے جو محبت ہے وہ ان کے دوروں کی تعداد دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے شاذو ناذر کسی وفاقی وزیر نے یا وفاقی سیکرٹری نے بلوچستان کا دورہ کیا ہو۔ سی پیک کے نام پر بھی یہ صوبہ وفاقی حکومتوں کی بد نیتی کا شکار چلی آرہی ہے سی پیک گوادر کی وجہ سے ہے لیکن یہاں قومی شاہراہیں سی پیک کے نام پر تعمیر ہونے سے محروم ہیں آج سے چند سال قبل سابق وزیراعظم نواز شریف نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ‘ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کی موجودگی ۔
میں سی پیک کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان تا کوئٹہ ژوب کے ذریعے سڑک بنانے کے لئے ’’افتتاحی ڈرامہ ‘‘ رچایا بلکہ یوں کہا جائے کہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت مولانا فضل الرحمن اورمحمود خان اچکزئی کو جوان کے وفاق میں اتحادی تھے کو ’’ماموں‘‘ بنایا ، آج تک یہ روڈ نہیں بنا‘ یہ سڑک گزشتہ کئی سالوں سے ایشیائی ترقیاتی بینک کے فنڈ سے زیر تعمیر ہے اس کی تعمیر مکمل ہونے کی اب تک کئی تاریخیں دی جا چکی ہیں لیکن یہ سڑک ژوب تا ڈیرہ اسماعیل خان مکمل ہونے کا نام نہیں لیتی ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے وزرائے اعلیٰ صاحبان سمیت دیگر وزراء صاحبان جہازوں میں سفر کرتے ہیں۔
ایسے میں انہیں کیا دلچسپی اور کیا لگاؤ‘ کہ وہ کسی وفاقی سیکرٹری یا چئیرمین این ایچ اے کو بلوچستان طلب کرکے صورت حال کا جائزہ لیں ان کی بھلاسے ‘ انہیں کیا سروکار انہوں نے پانچ سال کو ’’ اپنی ٹارگٹ‘‘ بنا رکھا ہے کہ ان پانچ سالوں میں انہوں نے اور اپنے خاندان کے لئے کیا کچھ کرنا ہے ،آج ان وزرائے اعلیٰ صاحبان کے منفی رویے کے باعث وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین کو ہم پر طنز کرنے کا موقع ملا جنہوں نے گزشتہ دنوں اپنی پریس کانفرنس میں یہ تک کہا کہ بلوچستان کو وفاق سے اوسط 400ارب روپے ملتے ہیں۔
لیکن صوبائی حکمران اپنے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے پنجاب کو گالی دیتے ہیں۔ گزشتہ دس سالوں سے بلوچستان کو اوسطاً چار سو ارب روپے ہر سال ٹرانسفر ہوتا ہے ایک کروڑ کی آبادی والے صوبے میں یہ رقم کہاں چلی جاتی ہے ہمیں وفاقی وزیر پر غصہ نہیں کرنا چائیے بلکہ اپنے نمائندوں سے پوچھیں کہ وہ وفاقی وزیر کو کیوں جواب نہیں دیتے ۔آج کیوں بھیگی بلی بنے نظر آتے ہیں وفاق سے جو بھی ہم پر چڑائی کرتا ہے۔
ہم ان سے دب کر خاموش ہوجاتے ہیں یہ ہماری نا اہلی نہیں تو کیا ہے کہ آج ہمارے حکمران ’’حب بائی پاس‘‘ کا افتتاح کرنے میں بھی ناکام نظر آتے ہیں اس بائی پاس کے کام کو عرصہ ہو چلا ہے مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا جب اس طرح کی صورت حال ہو کہ حکمران اپنے علاقہ کی بائی پاس کے مکمل ہونے میں عدم دلچسپی برت رہے ہوں تو آپ خود سوچئیے کہ وہ بلوچستان کے عوام کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں بس صرف یہ کہہ سکتے ہیں! وائے شومئی قسمت ۔