2020دنیا بھر میں حکومتوں کے لیے آزمائش کا سال ثابت ہوا۔ پاکستان میں حکومت کی کارکردگی بُری نہیں رہی، بلکہ بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر رہی ۔ عمران خان کو ادراک تھا کہ ملک کی بہت بڑی آبادی دیہاڑی دار مزدوروں پرمشتمل ہے اس لیے دیگر ملکوں کی اندھی تقلید سے گریز کرتے ہوئے پاکستان میں سخت لاک ڈاؤن کی پالیسی اختیار نہیں کی گئی۔ اگر یہ غیر دانش مندانہ قدم اٹھایا جاتا تو ملک میں کورونا سے زیادہ لوگ بھوک سے مرتے۔ غریب عوام کی مدد کے لیے حکومت کے زیادہ تر اقدامات مؤثر ہوئے اور بعض کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
سبھی مستحقین تک مدد نہیں پہنچ سکی۔ کورونا کے باعث انتظامی ڈھانچے میں کئی مسائل پیدا ہوئے جنھیں یہ بحران ختم ہونے کے بعد حل کرنا ہوگا۔ تاہم 2021کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہوئے ملک کے لیے بنیادی اہمیت رکھنے والے چند امور سے متعلق منصوبہ بندی پر غور کرنا چاہیے۔ 2020کے آخری نصف میں اشیائے صرف کی قیمتیں تیزی سے بڑھیںجس کی وجہ سے 2021میں تیار شدہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہوگا۔ موقعہ پرست عناصر کے خلاف بروقت کارروائی کے باعث مہنگائی میں ہوش رُبا اضافہ ہوا۔
ایک جانب سیاسی طور پر ملکی حالات نازک دور میں داخل ہوچکے ہیں اور دوسری جانب مسلسل بڑھتی مہنگائی نے عوام کے پیمانۂ صبر کو لبریز کردیا ہے۔ عدلیہ کو قوانین کی اصل روح کے نفاذ کی جانب توجہ دینا ہوگی۔ ڈینیئل پرل کیس کے قاتلوں کی رہائی کے حکم نے عدالتی نظام کے اعتبار پر سوالیہ نشان لگادیا۔ سندھ ہائیکورٹ نے 2دسمبر 2020کو صوبائی حکومت کو ان تمام ملازمین کی تفصیلات جمع کروانے کی ہدایت کی ہے جنھوں نے نیب میں پلی بارگین کیا ہے یا رضاکارانہ طور پر کرپشن کے مال سے دست بردار ہوئے ہیں۔
ان میں سے 500بدعنوان افسران آج بھی سندھ کی سول انتظامیہ میں اہم عہدوں پر بیٹھے لوٹ مار کررہے ہیں۔ کرپٹ افسران کو ملازمت جاری رکھنے کی اجازت دینے سے نظام کھوکھلا ہورہا ہے۔ ان بدعنوان عناصر کے ساتھ انہیں تحفظ فراہم کرنے والوں کو بھی بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا دنیا میں کہیں بھی کرپشن کو ایسی کھلی چھٹی دی جاسکتی ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ سندھ ہائیکورٹ اب آگے کیا کرتی ہے۔ پاکستان میں احتساب کا شور تو بہت ہے لیکن نتائج معمولی ہیں۔ اتنی آگ نہیں جتنا دھواں اٹھتا ہے۔
اگر کرپشن کیسز میں سیاسی قائدین کسی طرح گرفت میں آبھی جائیں تو ان کی ضمانتیں ہوجاتی ہیں۔ لاہور ایسے مقدمات میں ضمانت کے لیے مشہور ہے ، وہاں یا تو بااثر ملزمان اسپتالوں میں ہیں لندن سدھارچکے ہیں۔ پوری دنیا میں دہشت گردی کی مالی معاونت، منی لانڈرنگ، غیر قانونی آف شور اکاؤنٹ اور مالی بے ضابطگیوں کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے اثاثے ملک ہی میں نہیں بیرون ملک بھی منجمد کیے جاتے ہیں چاہے ایسا علامتی طور ہی پر کیوں نہ کیا گیا ہو لیکن ایسے جرائم کے خلاف عدم برداشت ظاہر کرنے کے لیے ایسے اقدامات ہوتے ہیں۔
نیب کو چھوٹے چوروں کے بجائے اپنی زیادہ توانائی موٹی گردنیں دبوچنے میں صرف کرنی چاہیے۔ ملک میں اپوزیشن اپنی کرپشن اور بیرون ملک منتقل کی گئی دولت بچانے ہی کے لیے تو ایک جگہ جمع ہے۔ منی لانڈرنگ ہی کے ذریعے تو ماضی میں یہ جماعتیں باری باری کا کھیل جاری رکھے ہوئے تھیں۔ المیہ دیکھیے کہ بلاول ان مسائل کی بنیاد پر عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں جو ان کے والد اور اتحادیوں کے ادوار میں پیدا کیے گئے۔ تاہم اس صورت حال کے باوجود سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی سطح پر کہیں کہیں امید کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔
فوج میں عمران خان اپنی دیانت داری کے باعث مقبول ہیں لیکن قصبوں اور دیہات میں ان سپاہیوں کے اہل خانہ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور اپوزیشن اسی موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے ملکی زراعت کو نظر انداز کیے رکھا۔ وبا میں گندم، چاول، پھل اور سبزی کی وافر رسد نے ہمارا بھرم رکھ لیا۔ کھیتوں سے منڈیوں تک پیدوار کی رسد کمیشن ایجنٹ ہماری زراعت کا بڑا مسئلہ ہیں۔ ایک دور تھا کہ ہم زرعی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل تھے بلکہ بہت سے پھل، بزیاں اور نقد آور فصلیں برآمد بھی کیا کرتے تھے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ فرسودہ زرعی طریقوں کے باعث ہماری پیداوار تیزی سے نیچے آرہی ہے اور ان پہلوؤں کے ساتھ متعلقہ اداروں کی غفلت اور کرپشن کا قلع قمع بھی ضروری ہے۔ چینی پر دی جانے والی سبسڈی اور اس کی پیداوار سے خرید و فروخت تک کا پورا نظام کرپشن کے اس کھیل کی مثال ہے۔ جہانگیر ترین کو میں اپنا اچھا دوست مانتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ وہ چینی بحران میں خود پر اٹھنے والے سوالات کا تسلی بخش جواب دیں گے۔ تمباکو نوشی جس طرح صحت کے لیے مضر ہے اسی طرح جس زمین پر اس کی کاشت ہورہی ہے۔
وہاں سے غذائی اجناس ختم ہورہی ہیں۔ تمباکو کا استعمال اپنے نشے کا عادی بنا لیتااور انسان کی سوچنے کی آزادانہ صلاحیتوں کو اپنے قابومیں کرلیتا ہے، اسی لیے قرآن نے نشے کو ممنوع قرار دیا ہے۔ تمباکو نوشی کا فوری خاتمہ ممکن نہیں تاہم اسے بھاری ٹیکس عائد کرکے محدود کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑھ کرہم اپنی صحت برباد کرنے کے ساتھ اپنا اجتماعی مستقبل دھوئیں میں اُڑا رہے ہیں۔ کئی سابق سینیئر بیورکریٹس پاکستان میں کام کرنے والی دنیا کی بڑی تمباکو کمپنیوں بورڈ میں شامل ہیں، ان کا انتخاب حکومتی پالیسی سازی پر اثرا انداز ہونے کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔
ان کی مدد سے یہ کمپنیاں بھاری ٹیکسوں ، پرمنٹ اورلائسنس وغیرہ کے جھملیوں سے گلو خلاصی کرواتی ہیں۔ کب سے ملکی مفاد ان نوازشوں پر قربان ہوتا آرہا ہے۔ حکومتوں کی جانب سے دولت یا تعلق نبھانے کے لیے عام آدمی کی قیمت پر سرمایہ کاروں کو نوازنے کی ایک اور بڑی مثال کے الیکٹرک ہے۔ کیا کبھی کسی نے صرف اس اراضی کی مالیت کا اندازہ لگایا ہے جو کے الیکٹرک کی ملکیت ہے؟ کے الیکٹرک کراچی کے نمایاں مقامات پر بیش قیمت زمینوں کی مالک ہے اور صرف اس زمین کی قیمت اس رقم سے کہیں زیادہ ہے۔
جو اس کے شیئرز کی فروخت کے لیے مقرر کی گئی۔ حکومت چاہے زرداری یا نواز شریف کی ہو یا عمران خان کی ، کے الیکٹرک کو سبھی سے مراعات ملتی ہیں۔ کون اور کیوں الجمیع گروپ اور ابراج کو نواز رہا ہے؟ اور انہیں کون ’’رعایتیں‘‘ دے رہا ہے؟2010میں اختیارات کی صوبوں کی منتقلی کے لیے اٹھارہویں ترمیم کی گئی لیکن یہ قانون سازی سماجی ، معاشی اور سیاسی سطح پر ملکی ترقی میں معاون ہونے کے بجائے رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ اس کے باعث معیشت کی مکمل بربادی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے اور ڈر ہے کہ کہیں ریاست کا وجود ہی خطرے میں نہ پڑ جائے۔
اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی نے یوگوسلوایا کو ٹکڑے کردیا تھا۔ ٹیکسیشن اور این ایف سی ایوارڈ کی مثالیں سامنے ہیں۔ 2021کے الیکشن پر اٹھارہویں ترمیم پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ پاکستان میں سینیٹ الیکشن ایک تماشا بن چکے ہیں اور عدلیہ بھی اس میں ہونے والی بدعنوانی سے واقف ہے۔ خفیہ رائے شماری سے ووٹوں کی خریدو فروخت کا بازار گرم ہوتا ہے۔ اب کھلے عام رائے شماری کے طریقے ہی سے سینیٹ کا وقار بچایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح مردم شماری سے متعلق مسائل و تنازعات کو بھی فوری حل ہونا چاہیے۔
ایسی جمہوریت جہاں آبادی کا شمار سیاسی و انتخابی چالبازی کے دور پر کیا جائے وہاں بے چینی اور خلیجیں بڑھتی ہیں۔ ہم اپنی قومی سلامتی کے اہم ترین پہلو تعلیم سے متعلق ابہام کا شکار ہیں اور اٹھارہویں ترمیم کے تحت اسے صوبوں کے سپرد کرچکے ہیں۔ اس کی وجہ سے ذریعہ تعلیم اور متضاد نکتہ ہائے نظر ایک ہی ملک کے نظام تعلیم کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایک موقف یہ ہے کہ ریاضی اور سائنس انگریزی میں پڑھائے جائیںجب کہ دیگر مضامین کی تعلیم اردو یا مادری زبان میں دی جائے۔ یکساں قومی نصاب سے سرکاری، نجی اور دینی تعلیمی اداروں میں ہم آہنگی اور برابری پیدا کی جاسکتی ہے۔
وفاقی حکومت نے اس مقصد کے تحت پری پرائمری اور پہلی سے پانچویں کلاس تک کی نصابی کتابیں تیار کر لیں۔ تاہم ان کتابوں کی منظوری دینے والے مجاز بورڈز صوبائی اختیار میں ہیں جہاں اس مقصد کے لیے درکار اہلیت ہی نہیں پائی جاتی۔ اس نصاب کے فوری نفاذکے لیے وفاقی سطح پر ایک مرکزی ادارہ قائم ہونا چاہیے جو تیزی سے توثیق اور نفاذ کے مراحل طے کرے۔بھارت کی جانب سے فالس فلیگ کارروائیوں کے خطرات سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور ہماری مسلح افواج کو اس حوالے سے چاق چوبند رہنا ہوگا۔
سی پیک اس خطے ہی کے نہیں پوری دنیا کے اقتصادی و تہذہبی منظرنامے کو تبدیل کرنے والا ایک غیر معمولی منصوبہ ہے۔ اس سے کئی نئے اتحاد جنم لیں گے اور ہمارے چین سے دیرینہ تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔ روس بھی سرد جنگ میں اپنے خلاف کھڑے ہونے والے پاکستان کے بارے میں اپنا تناظر بدل رہا ہے اور اسے ایک توازن قائم کرنے والی غیر جانب دار قوت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ امن 2021کی جنگی مشقوں میں شرکت سے روس نے مستقبل کی کئی تبدیلیوں اشارہ دیا ہے۔ کئی برسوں سے روس کے ساتھ جس پائپ لائن پر بات جاری ہے ۔
اس کی تکمیل سے ہماری توانائی کی ضروریات کو بڑا تحفظ ملے گا۔ جب اختیار رکھنے والے بھی حالات کو جوں کا توں رکھنے کے لیے اپنی ذمے داریوں سے روگردانی کریں تو افسوس ہوتاہے۔ یہ اچھے لوگ ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بننے والی کرپٹ قیادت کو کیوں برداشت کیے ہوئے ہے؟ اپنے ہی بیان کردہ اخلاقی اصولوں پر عمل نہ کرنے منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔ سیاسی منافقت بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ جب کروڑوں انسانوں کی زندگیاں اور ریاست کا وجود خطرے میں ہو تو ریاست کی حفاظت کے ذمے داروں کا کیا کرنا چاہیے۔ ہمیں 2021میں ہرشعبے کی درست سمت کا تعین کرنے کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)