|

وقتِ اشاعت :   January 5 – 2021

2 جنوری 2021 کو اسلام آباد کا نوجوان اسامہ عوام کے رکھوالوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن جاتا ہے۔ اور یہ کوئی پہلا کیس نہیں ہے۔ اب تو آئے دن ہمارے شہری پولیس کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں۔ کبھی پولیس مقابلے میں تو کبھی کسی اور جرم میں۔ پنجاب پولیس میں تو یوں لگتا ہے جیسے غنڈے بھرتی ہوتے ہیں جنکا کام ہی غنڈہ گردی کرنا ہے۔

عوام اور میڈیا کے پریشر پر چند افراد کو حراست میں لے لیا جاتا ہے مگر پھر کیا وہی اندھا قانون اور اندھی ریاست جہاں سب آزاد ہیں۔
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر

انتہائی افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے یہ پولیس جسے ہم نے اپنا نگہبان بنایا ہے مگر ہر شریف آدمی کی دعا ہے کہ خدا نہ کرے کبھی اسے پولیس کے قریب سے بھی گزرنا پڑے اور پولیس سٹیشن وہاں تو اللہ کبھی کسی دشمن کو بھی نہ لے جائے، اتنی دہشت ہے عوام کے دلوں میں اپنے محافظوں کیلیے۔
ہم مانتے ہیں کہ یہ کچھ لوگ ہیں باقی پولیس اچھی ہے۔ ہمارے ملک میں پولیس کو کبھی اتنی عزت نہیں ملی مگر پولیس کے کام جب ایسے ہونگے تو لوگ سلامی تو پیش کرنے سے رہے۔

جان کی اب کوئی مانگ نہیں
ہتھیلی پہ رکھ کہ چلتا ہوں
کیا خبر کب چھین لی جائے
اسی ڈر سے روز مرتا ہوں
موت مجھ کو کیا ڈرائے گی
میں تو جینے سے ڈرتا ہوں
جب مخافظ ہی ٹھہرا قاتل
تو رہزنوں سے کہاں ڈرتا ہوں

نجانے یہ انصاف کیسا ہے جس کی پکار صرف حکمرانوں کیلیے سنائی دیتی ہے۔ ہماری جیلوں میں روز نجانے کتنے شریف کبھی بیماری سے تو کبھی تشدد سے مرتے ہیں جن کی تعداد بھی معلوم نہیں اور نہ کسی کو ان کی خبر ہے۔ غریب دن میں کئی کئی بار مرتا ہے کبھی دہاڑی نہ ملنے پر تو کبھی بچوں کی فیس جمع نہ ہونے پر تو کبھی بیوی کی دوائی نہ لانے پر، کبھی بھوکے پیٹ تو کبھی ننگے پیر مگر کسی کو کان و کان خبر نہیں ہوتی اور امیر کا کتا بھی بیمار پڑ جائے تو سارا ملک سوگوار ہو جاتا ہے۔ مگر غریب کی کوئی سنتا نہیں۔ کب عام آدمی کو انصاف ملے گا۔ یہ سوال ہم سالوں سے پوچھ رہیں گے مگر جواب ہے کہ ملتا ہی نہیں۔ ہمارے ہاں طاقت کا غلط استعمال عام ہو گیا ہے جس کو روکنا ضروری ہے۔