|

وقتِ اشاعت :   January 6 – 2021

یہ تاثر عام ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اپنے نجی شراکت داروں کو مالی فوائد فراہم کرنے کے لیے جہاں ہر قانون کو توڑ دیتی ہے وہیں عوامی مفادات کو طاقت کے زور پر کچل بھی دیتی ہے۔ اس تاثر کو مزید تقویت دینے کے لئے ایک اور متنازعہ منصوبہ کا سنگ بنیاد بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں کروایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے نجی شعبے کے اشتراک سے ملیر ایکسپریس وے پر کام کا آغاز کردیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سندھ حکومت کی غلط منصوبہ بندی سے کراچی کا ایک اور اہم منصوبہ کامتنازعہ ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

مقامی افراد بے دخل ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ملیر ندی صدیوں سے اطراف کے کسانوں کی زرخیر زمینوں کو سیراب کر رہی ہے۔ مقامی لوگوں کی موروثی زرعی اراضی کے علاوہ متعدد رہائشی آبادیاں بھی اس منصوبے کی زد میں آرہی ہیں۔ملیر ایکسپریس وے کے متاثرین نے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ سائیں اسلم بلوچ اور عظیم دہقان بھی ملیر ایکسپریس وے کے متاثرین میں شامل ہیں ان کے مطابق وہ کسی بھی ترقی کے مخالف نہیں مگر اس کے آڑ میں معاشی قتل اور لوگوں کو بے گھر کرنے کے عمل کے خلاف ہر محاذ پر آواز بلند کی جائے گی۔

مگسی گوٹھ ،سموں گوٹھ، لاسی گوٹھ سمیت دیگر گوٹھوں کے ہزاروں مکین صدیوں سے یہاں بستے ہیں یہ ممکن نہیں کہ لوگ موروثی زرعی اراضی اور گھروں کو ملیر ایکسپریس وے کے نیچے روندتے ہوئے دیکھ کر خاموش تماشائی بنے رہیں۔اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماؤں کو بھی شدید عوامی دباؤ کا سامنا ہے۔ضلع ملیر سے سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے چار رکن منتخب اور خاتون کی مخصوص نشست پر ایک رکن ہے جبکہ قومی اسمبلی کے دو ارکان یہاں سے منتخب ہوئے۔ بلدیہ ملیر اور ضلع کونسل کراچی بھی پیپلز پارٹی کے پاس رہی ہے ۔

مگر اس تمام صورتحال میں یہ تمام نمائندے منظر عام سے غائب ہیں یا پھر پارٹی قیادت کی ناراضگی کے خوف سے لب کشائی سے گھبرا رہے ہیں۔آئین و قانون کے ماہرین کے مطابق موروثی زمین کو اس کے مالک کی مرضی کے بغیر حکومت استعمال میں نہیں لاسکتی۔ اس کی واضح مثال کے فور منصوبہ ہے جہاں موروثی زمین کے مالکان کی وجہ سے کراچی کو پانی سپلائی کرنے کے میگا منصوبے کے روٹ کو کئی بار تبدیل کیا گیا اور یوں سندھ حکومت ایک بار پھر اسی طرح کی غلطی ملیر ایکسپریس وے پر دہرا رہی ہے جس کا خمیازہ ایک بار پھر کراچی کے شہری ہی بھگتیں گے۔

سندھ حکومت ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کے لئے ریتی و بجری ملیر ندی سے اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے جو سندھ اسمبلی کے ایکٹ 2003 کی سنگین خلاف ورزی ہوگی جس کے تحت کسی بھی زمین سے ریتی اور بجری سمیت معدنیات نکالنے کی (ممانعت) اور اس طرح کی کھدائی جس کا اثر ‘اگر اس علاقے کی سیاحت، آثار قدیمہ اور ماحول پر پڑتا ہے تو اس کے لیے کوئی رعایت یا اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اسی طرح ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے پانی درکار ہوگا اگر سندھ حکومت نے اس منصوبے کے لئے زیر زمین پانے نکالنے کی کوشش کی تو یہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے 2004 کے حکم نامہ کی خلاف ورزی ہوگی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے کے روٹ پلان میں معمولی ردوبدل سے کسانوں کا ذریعہ معاش اور مقامی آبادی کے سروں پر چھت کا سایہ محفوظ کیا جاسکتا ہے مگر اس بارے میں حکومت سندھ کے ارباب اختیار چپ سادھے ہوئے ہیں۔