|

وقتِ اشاعت :   January 7 – 2021

صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے بلوچستان میں گوادر شہرکے ارد گرد باڑ لگانے اور بلوچستان اور سندھ کے جزائر کے بارے میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے وفاق کے سپرد کرنے کو صوبہ بھر میں نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ ان کا تعلق خالصتاً عوام اور خصوصاً روزگار کے ذرائع کی بندش سے ہے جس کے جواب میں بلوچستان کے طو ل و عرض میں ان دونوں حکومتی فیصلوں کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا۔ یہ فطری عمل بھی ہے کہ جب آپ عوام کے احساسات و جذبات کے بر خلاف حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر منفی فیصلے کرتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ اس سے عوام میں شدید منفی رد عمل پیدا ہوتا ہے۔

ان دونوں فیصلوں کے بارے میں بھی عوام کی جانب سے شدید رد عمل کا آنا لازمی امر تھا لیکن دوسری طرف حکومتی ایوانوں میں ان فیصلوں کو عجیب و غریب نام دے کر اس کی ’’ لیپا پوتی ‘‘ کرنے کی کوشش کرکے ان دو فیصلوں کو ’’ قابل عمل اور پسندیدہ ‘‘ قرار دلوانے کی جو کوشش کی جارہی ہے انہیں صرف حکومتوں کی سطح پر یا کابینہ میں بیٹھ کر ’’ جی سر ‘‘ یسں سر‘‘ کے علاوہ کہیں بھی پذیرائی نہیں مل رہی کیونکہ گوادر کے گردو نواح میں موجود چھوٹے چھوٹے شہروں کی ذرائع آمدنی سے لے کر تعلیم ‘ صحت اور دیگر شعبوں کا تعلق براہ راست گوادر شہر سے ہے ۔

جب ان چھوٹے شہروں سے بقول ایم پی اے گوادر میر حمل کلمتی کے روزانہ چالیس پچاس ہزار افراد ان شہروں سے گوادر میںداخل ہوتے ہیں اور نقل و حمل کا سلسلہ بلا ٹوک جاری رہتا ہے اب آپ خود سوچئیے کہ گوادر پورٹ کی وجہ سے شہر کی رونقوں میں اضافہ کرکے مقامی آبادیوں کو اس میں حصہ دار بنانے کی ضرورت ہے آپ ان مقامی لوگوں کے وسائل اور کاروبار پر قدغن لگا کر لوگوں کو خصوصاً گوادر میں داخل ہونے والوں کو باڑ کے ذریعے اندر اور باہر جانے کا ’’ پرمٹ ‘‘ جاری کریں گے اور غیر بلوچستانی شخص گوادر اور مقامی شہریوں سے دن بھر یہ پوچھتا رہے کہ آپ کون ہیں کہاں سے آرہے ہیں۔

کہاں جارہے ہیں‘‘ اس میں لمبی لمبی لائن لگا کر عوام کی درگت بنائی جاتی رہے تو آپ خود سوچئیے کہ حکومتی فیصلوں کے بارے میں عوام میں خوشی کی لہریں دوڑیں گی یا کہ بیزاری ۔بلوچستان ملک کا وہ واحد بد نصیب صوبہ ہے کہ اس کے فیصلے بلوچستان کی سطح پر نہیں بلکہ اسلام آباد ‘ لاہور اور کراچی میں بیٹھ کر کیے جاتے ہیں اب تو اس سلسلے میں اس قدر تیزی آئی ہے کہ نہ تو بلوچستان اسمبلی کی قرار دادوں کو خاطر میں لایا جاتا ہے اور نہ ہی عوامی نمائندوں کے چیخنے پکارنے پر ‘ اپنے منفی عمل بارے فیصلوں پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔

ارباب اختیار کے فیصلوں سے عوام اور’’ حکومتوں کے کرتا دھرتائوں ‘‘ میں نہ صرف تلخیاں بڑھ رہی ہیں بلکہ ان میں دوریاں بھی پیدا ہورہی ہیں جو یقیناً نیک شگون نہیں ۔سابق وزیراعلیٰ اور چیف آف سراوان نواب محمداسلم رئیسانی نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے لیے کرتا پور اور ہمارے لیے خار دار تاروں والی باڑ، ہمیں اس قسم کی ترقی قبول نہیں۔ سی پیک کو خوشحالی کا راز قرار دینے والے بلوچوں ‘ پشتونوں اور سندھیوں کا دشمن ہیں ،گوادر کو بلوچوں کے لئے شجرہ ممنوعہ قرار دینے کے خدشات کے پیش نظر ہم نے اسے دارالخلافہ قرار دیا تھا ۔

وزیراعلیٰ کا دفتر قائم کیا جنہوںنے ہمارے بعد حکومتی باگ دوڑ سنبھالی ‘ وہاں کبھی نہیں بیٹھے، دفتر پر قبضہ ہوا ہے آج شہر کے گرد باڑ لگایا جارہا ہے جس کو بلوچ ہرگز پسند نہیں کرتے ،ترقی کے نام پر ہمارے وطن پر قبضہ کرنا سی پیک کو خوشحالی کا راز قرار دینا بہت بڑا ڈرامہ ہے ،جو بھی ان سازشوں میں شامل ہوگا بلوچوں ‘ پشتونوں اور سندھیوں کا دشمن تصور ہوگا۔سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک بلوچ کے درمیان اس صورت حال پر مشترکہ موقف اپنانے کے سلسلے میں کراچی میں اہم ملاقات ہوئی جس میں گوادر کے باڑکے بارے میں واضح موقف اپناتے ہوئے کہاگیا کہ گوادر باڑ اور صوبائی حکومت کے ماتحت۔

جزائر کو وفاقی حکومت کے ماتحت لانے کے فیصلوں کے خلاف سخت مزاحمت کی جائے گی اور ان فیصلوں کو کسی صورت قبول نہ کیا جائے گا۔ بقول سردار اختر مینگل وفاق ایک بار پھر بلوچستان اور سندھ کی ساحلی پٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی سازش کررہا ہے یہ کس قسم کی ترقی ہے جو مقامی لوگوں کو اپنی سرزمین پر جانے سے روکتی ہے یہ ترقی نہیں بلکہ استحصال ہے اور ہم اسے کسی صورت قبول نہیں کریں گے گوادر فروخت کرنے کے لئے نہیں اور نہ ہی ہم کسی کو بلوچستان تقسیم کرنے کی اجازت دیں گے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ سیکورٹی اور امن کے نام پر گوادر کی آبادی کو بے دخل کرنے کی حکومتی اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

بقول ان کے پہلے مرحلے میں گوادر کی آبادی کو باڑ لگا کر تقسیم کیاجارہا ہے اور دوسرے مرحلے میں مقامی آبادی کو گوادر سے بے دخل کرنے کی عوام دشمن منصوبے پر عمل درآمد مقصود ہے لیکن ہم بلوچستان کے عوام کے خلاف ہر قسم کی سازش کو ناکام بنائیں گے بلوچستان کی سلیکٹیڈ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت اک سوچے سمجھے ساز ش کے تحت گوادر پر ناجائز قبضہ کرنے کی کوششیں کررہی ہیں انہیں ہمارے رد عمل کا اندازہ نہیں۔ کراچی میں مختلف قوم پرست پارٹیوں ‘ دینی جماعتوں ‘ ماہرین قانون اور سول سوسائٹی کے نمائندوںنے صدارتی آرڈیننس کے تحت۔

پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کسی علاقے کی جغرافیہ میں تبدیلی کی کوئی مثال نہیں ملتی آرڈیننس سے نہ صرف سندھ بلوچستان کے سمندر بلکہ ہمارے دریا پر بھی قبضہ کرنے کی راہ ہموار کردی گئی ہے۔ موجودہ حکومت نے آئین کو پامال کرتے ہوئے 31اگست کو جو صدارتی آرڈیننس جاری کیا ہے یہ سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش ہے اتھارٹی کے دائرہ کار میں آنے والے علاقے کو آئین اور قانون سے ماورا قرار دیا گیا ہے۔

ان خیالات کا اظہار بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ ‘ پشتونخواہ میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی ،سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ ‘ ڈاکٹر قادر مگسی، سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب بلوچ ‘ ممتاز قانون دان شہاب اوستہ ‘ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر صلاح الدین ‘ عوامی ورکرز پارٹی کے یوسف مستی خان و دیگر نے مقامی ہوٹل میں ایک روزہ نیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس عمل کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس کے خلاف قرار دادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020ء فوری طورپر واپس لے کر آئین میں کیے ہوئے معاہدے کے تحت قومی اکائیوں بلوچستان اور سندھ کے جغرافیائی حدود کو محفوظ بنایا جائے ورنہ صوبائی حکومتوں کی خاموشی کو غیر آئینی اقدام میں شریک تصور کرکے تحریک چلائی جائے گی ۔

بلوچستان اسمبلی کے جمعہ 27نومبر کے اجلاس میں گوار میں لوگوں کی جدی پشتی اراضیات کو سرکاری قرار دینے کے فیصلے کے خلاف قرار داد منظور کرتے ہوئے بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی نے کہا کہ ضلع گوادر کے جدی پشتی اراضیات کو سرکاری قرار دینے کے فیصلے سے ضلع گوادر کے لوگوں میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی ہے ۔گوارمیں لوگوں کی زمینوں کو سرکاری ملکیت ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ وہاں سرکاری کی ایک انچ بھی زمین نہیں ہے تمام زمینیں وہاں کے مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں ہم ان سے کس صورت دستبردار نہیں ہوگے مقامی لوگوں کوطاقت کے ذریعہ زمینوں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔

سرکاری محکموں کو ہزاروں ایکڑزمین الاٹ کی گئی ہے جو زمین مری زون کے لئے ایکوائر کی گئی ہیں وہاں سے مقامی آبادی کو لینڈ ایکوزیشن کے تحت منتقل کرکے انتہائی قلیل معاوضہ دیا گیا ہے کئی افراد ایسے بھی ہیں جنہیں معاوضہ تک نہیں دیا گیا ہے ۔گوار میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے یہاں تک کہہ دیا کہ آپ ہمیں اس ملک کا حصہ نہیں سمجھتے ایسا نہ ہو کہ بنگلہ دیش جیسا واقعہ رونما ہو۔ گوادر میں باڑ لگائی جارہی ہے یہ باڑ کم از کم اسلام آباد میں لگائی جائے ۔

جہاں وزیراعظم ‘ صدر مملکت اور ان کے و زراء کو خطرات ہیں گوادرمیں باڑ لگاکر وہاں کے ماہی گیروں کے نقل و حمل کو محدود کیا جارہا ہے تاکہ وہ سمندر میں نہ جائیں یہ سب کچھ بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر قبضہ جمانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ بدھ 6جنوری کے اخبارمیں بلوچستان بار کونسل کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی وزیر داخلہ کا گوادرمیں باڑ لگانے کے کام کو بند کرنے کے متعلق بیان حقائق پر مبنی نہیں ،باڑ لگانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے بلوچستان ہائی کورٹ کی ہدایت پر حکومت نے اسمبلی فلور پر ایک کمیٹی تشکیل دی ۔

جو تمام جماعتوں کے پارلیمانی ممبران پر مشتمل تھی لیکن حکومت کی جانب سے بد نیتی اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس ایک سرکاری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جسے بلوچستان بار کونسل اور گوادر کے عوام مسترد کرتے ہیں ۔حکومت بلوچستان اسمبلی کی رولنگ کی پاسداری کرے ورنہ بلوچستان بار کونسل حکومتی بد دیانتی کے خلاف دوبارہ عدالت سے رجوع کرے گی ۔