بلوچستان سے کراچی آنے والے لوگوں کے ساتھ پولیس گردی عروج پر ہے۔ چیکنگ کے بہانے لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا معمول بن گیا۔ لوگوں سے لوٹ مار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ انہیں مختلف الزامات کے مقدمات میں پھنسا کرحوالات میں بند کرنے کا عمل جاری ہے۔ عورتوں اور بچوں کی بھی عزت نہیں کی جاتی ۔ بلوچستان سے آنے والے مسافروں کے مطابق کراچی کے چھ سے زائد پولیس تھانے مذکورہ عمل کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ جن میں سعید آباد تھانہ، موچکو تھانہ، بلدیہ تھانہ، شیرشاہ تھانہ، سائٹ تھانہ، مدینہ کالونی تھانہ سمیت دیگر تھانے شامل ہیں۔
رئیس گوٹھ سے پولیس گردی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو یوسف گوٹھ سے لے کر مہاجر کیمپ، شیرشاہ سے ہوتا ہوا لیاری تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان راستوں یا سڑکوں پر مسافروں سے پیسے بٹورنے جیسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ان مسافروں کی سب سے زیادہ تعداد مریضوں پر مشتمل ہوتی ہے جو کراچی علاج معالجہ کے لئے آتے ہیں۔ مذکورہ علاقوں میں قائم پولیس چوکیاں اور پیٹرولینگ ٹیمز مسافروں کے لئے وبال جان بن گئیں ہیں۔ سماجی حلقوں کے مطابق مریضوں کو بھی چوکیوں میں لا کر حراساں کرکے ان سے بھاری رشوتیں طلب کی جاتی ہیں۔
جبکہ رشوت دینے سے انکار کرنے پر ان پر جھوٹے مقدمات درج کرکے حوالات میں بند کردیا جاتا ہے۔ یہ پولیس چوکیاں ٹارچر سیلز بن چکے ہیں۔ اگر تھانوں کی حدود میں امن وامان کی صورت حال کے حوالے سے نظر ڈالی جائے تو ان تھانوں کی حدود میں اسٹریٹ کرائم کا تناسب کراچی شہر کے دیگر تھانوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن پولیس اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان کو پکڑنے کے بجائے بلوچستان سے آئے ہوئے لوگوں کو تنگ کرکے ان سے لوٹ مار میں مصروف ہے۔ مسافروں کے مطابق سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام لوٹ مار میں ملوث پولیس اہلکاروں اور افسران کی کھل کر پشت پناہی کرتے ہیں۔
یہ سلسلہ کئی سالوں بلکہ دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ جب بھی بلوچستان سے کوئی غریب فرد کسی کام کی غرض سے کراچی جاتا ہے تو کراچی پولیس انہیں بلاوجہ روک کر تنگ کرتی ہے۔ ان سے ایسے توہین آمیز و نفرت بھرے انداز میں پیش آتی ہے جیسے وہ کوئی دہشتگرد ہے، پولیس اہلکارتلاشی کے بہانے ان کے پیسے سمیت دیگر قیمتی اشیاء کو لوٹ لیتے ہیں۔ اگر کوئی رشوت دینے سے انکار کرے تو اس پر تشدد کرکے اسے تھانے لے جا کر اس پر مختلف جھوٹے الزامات کے دفعات پر مقدمات درج کرتے ہیں۔گوکہ کراچی آنے والے زیادہ تر مریض ہوتے ہیں ۔
جنہیں دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر ہوتی ہے۔ بلوچستان بھر کے لوگ علاج معالجے سے لے کر زندگی کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ چونکہ صوبہ بلوچستان صحت سمیت زندگی کے دیگر شعبہ جات میں بھی پیچھے ہے۔ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ترقی کے حوالے سے پسماندہ ترین صوبہ ہے۔ گورننس کے فقدان کی وجہ سے صوبے کے عوام کو صحت عامہ سمیت بنیادی مسائل درپیش ہیں۔ بلوچستان میں اب تک کوئی ایسا سرکاری یا غیر سرکاری اسپتال موجود نہیں، جہاں بہتر علاج کی سہولیات میسر ہوں۔
بلوچستان کے دیہی علاقوں میں صحت عامہ کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے حاملہ خواتین کو شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر کیسز میں زچہ و بچہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں کسی بھی قریبی شہر تک پہنچنے کے لیے سڑکوں کی ابتر صورتحال کی وجہ سے منٹوں کا سفرگھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے۔عوام کا یہی کہنا ہے کہ صحت تو بنیادی انسانی حق ہے مگر وہ حیران ہیں کہ اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود انہیں علاج کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ان کا مطالبہ ہے کہ صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
خاص طور پر اندرون صوبہ دور دراز علاقوں میں سرکاری اسپتال قائم کیے جائیں، جبکہ پہلے سے موجود اسپتالوں کو فعال کیاجائے اور وہاں ادویات کے علاوہ صحت کی سہولیات پہنچائی جائیں۔مسافروں نے بتایا کہ پہلے یہ ہوتا آرہا تھا کہ کراچی پولیس رسم و رواج کا لاج رکھتے ہوئے خواتین کو سائیڈ پہ کرکے مرد حضرات کو لوٹ لیتے تھے۔ مگر آج کل پولیس یہاں تک آ پہنچی ہے کہ خواتین کو بھی تلاشی کے بہانے بدتمیزی اور غیراخلاقی طریقے استعمال کرکے ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرتے ہیں۔جبکہ خوردونوش کی اشیاء بردار گاڑیوں کو بھی نہیں چھوڑا جاتا ۔
رئیس گوٹھ سے لکی چڑھائی تک موچکوں پولیس کی چار موبائیلیں کھڑی ہوتی ہیں جو صرف بلوچستان سے آنے والی گاڑیوں کو تنگ کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ دیگر تھانوں کی حدود میں بھی جاری رہتا ہے۔ سعیدآباد تھانہ، بلدیہ تھانہ، شیرشاہ تھانہ، سائٹ تھانہ، مدینہ کالونی تھانہ سمیت دیگر تھانے شامل ہیں۔ یوسف گوٹھ بس ٹرمینل پر بعض ٹیکسی ڈرائیورز بھی پولیس کے مخبر ہوتے ہیں جو پولیس کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب مسافر کو بس اڈے سے سوار کیا جاتا ہے تو راستہ میں پولیس چوکی پر ڈرائیور ہیڈ لائٹس کے ذریعے ساری کہانی بتاتے ہیں کہ روکنا ہے یا نہیں۔
یہ فیصلہ مسافروں کے پاس ان کے سامان اور دیگر قیمتی اشیاء کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس لوٹ مار میں ڈرائیور کا بھی حصہ ہوتا ہے۔تیسرا ٹولہ چوروں کا ہوتا ہے جو پولیس اور ڈرائیورز کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ بعض اغوا کے کیس بھی سامنے آئے ہیں۔ خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا جاتا ہے۔ فیملی کے فیملی اغوا کیے گئے۔علاوہ ازیں مند، تربت، گوادر، پسنی، اورماڑہ، پنجگور، آواران، کوئٹہ، قلات، مستونگ، خضدار سے جب بسیں اور کوچز دوران سفر مختلف چیک پوسٹوں کی زیادتیوں کا شکار ہوتی ہیں جن میں وفاقی اداروں کے اہلکار انہیں بلاجواز تنگ کرتے ہیں۔
جن میں کوسٹ گارڈ، ایف سی، کسٹم سمیت دیگر ادارے شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی ملک کے بارڈر پر سفر کیا جارہا ہے۔ شہری ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہور ہے ہیں۔ ہر قدم پر ایک چوکی بنی ہوئی ہے چیکنگ کے نام پر انہیں حراساں کیا جاتا ہے۔ ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ باپ کو بیٹی کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے۔ شوہر کو بیوی اور بھائی کو بہن کے سامنے بے عزت کیا جاتا ہے۔سندھ پولیس کی بدمعاشی کراچی کے علاقے رئیس گوٹھ سے شروع ہوجاتی ہے بلوچستان حکومت کو چاہیئے کہ سندھ حکومت کے سامنے یہ مسئلہ اٹھائے۔
جبکہ دوسری جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن جماعتوں کا بھی خاموش رہنا ایک حیران کن بات ہے۔ کیونکہ وہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر پیپلز پارٹی کے اتحادی ہیں اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ ان کی جماعت کے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرکے اس پولیس گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ بلوچستان کے غریب عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔