|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2021

ملک کے تمام شہریوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی پاکستان کی معاشی ترقی، غربت میں کمی اور ریاستی استحکام کا بنیادی تقاضا ہے۔ لیکن یہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے لیے مضبوط معیشت اور سیاسی ہم آہنگی ضروری ہے۔ جدید تعلیم سے نہ صرف پاکستانی معاشرے کا فرسودہ قبائلی اور جاگیردارانہ ڈھانچا تبدیل ہوگا بلکہ سماجی و معاشی رشتوں میں بھی تبدیلیاں آئیں گی۔ اس لیے قبائلی، جاگیردار اور مذہبی اشرافیہ تعلیم کے ایسے منصوبوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔

کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز(کے سی ایف آر) کے زیر اہتمام 6جنوری کو ’’پاکستان میں تعلیم کو درپیش چیلنجز‘‘ کے عنوان سے ہونے والے ویبینار میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے تمام پاکستانیوں کے لیے تعلیم کے یکساں مواقع یقینی بنانے سے متعلق عمران خان کی حکومت کے پختہ عزائم پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کس طرح تعلیمی شعبے میں مشترکہ مقاصد پر ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے صوبائی وزرائے تعلیم سے رابطے میں ہیں اور وبا سے جنم لینے والے حالات کے مقابلے کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد لے رہے ہیں۔

انہوں نے ویبینار کے شرکا کے سوالات کے جواب دیے لیکن بار بار اٹھارہویں ترمیم پر آکر بات رک جاتی تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ نصابی کتب میں پائے جانے والے سقم کیسے دور کیے جائیں گے جب کہ یہ صوبائی دائرہ اختیار میں ہے تو اس کا کوئی واضح حل وہ نہیں بتا سکے۔ ظاہر ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی بعض شقوں میں اگر تبدیلی کرنا بھی ہو تو مارچ کے سینیٹ انتخاب میں تحریک انصاف کو درکار اکثریت کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوگا اور اس کے لیے حکومت کو اپنے اتحادیوں کی حمایت بھی درکار ہوگی۔ قومی سطح پر فکری وحدت کے لیے بنیادی طور پر یکساں پروگرام بہت ضروری ہے۔

اسی طرح یکساں قومی نصاب کے لیے مدرسہ اصلاحات کا بھی خیر مقدم ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ بہت سے مذہبی رہنما یہ نہیں چاہیں گے کہ مدارس کے طلبا کو سخت گیری سکھانے والے طرز تعلیم کا نعم البدل میسر آجائے۔ ’نیا پاکستان‘ یقینی طور پر جدید تعلیم کے بغیر ممکن نہیں لیکن اس سنگ میل کو طے کرنے کے لیے کٹھن اور صبرآزما مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ ان میں سے کئی رکاوٹیں فوری طور پر دور ہونی چاہییں۔ نئے اسکول بنانے کے بجائے پہلے سے موجود اسکولوں کی حالت میں بہتری لائی جائے اور انہیں جدید سہولیات فراہم کی جائیں۔

اساتذہ کی تعداد اور استعداد میں اضافہ کیا جائے اور اس حوالے سے سیاسی رکاوٹیں بھی دور کی جائیں۔ ہمیں غیر روایتی حل نکالنا ہوں گے مثلاً اسکول کی عمارتوں سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے دو شفٹوں میں کام کیا جائے اور اسی طرح وبا کے حالات میں آن لائن تدریس کے کم خرچ متبادل فراہم کیے جائیں۔ ہمارے ملک کے پیچیدہ اور متنوع معاشی ، سماجی اور ثقافتی تانے بانے کی وجہ سے اٹھارہویں ترمیم میں تعلیم کو صوبے کے اختیار میں دیا گیا ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ ایک جانب انتہائی ترقی یافتہ شہر ہیں تو دوسری جانب پس ماندہ دیہی اور قبائلی پس منظر رکھنے والے علاقے ہیں۔

پھر ہر صوبے کی اپنی پختہ لسانی شناخت ہے یہی وجہ ہے کہ سب کے لیے یکساں تعلیم کا منصوبہ الٹ نتائج پیدا کرے گا۔ دوسری جانب اس تنوع کے ساتھ ساتھ دہائیوں پر محیط لسانی، مذہبی اور دیگر اختلافات قومی آہنگی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ لسانی اور مذہبی منافرت نے ہمیں پارہ پارہ کردیا ہے اور بانیان پاکستان کی جانب سے صدیوں پرانی اس تفریق کو وحدت میں بدلنے کی کوششوں سے مسائل کی گتھی مزید الجھ گئی جس کے باعث ہمیںموجودہ صورت حال کا سامنا ہے۔ ’’کثرت میں وحدت‘‘ کے تصور کی بنیاد یہ ہے کہ اختلاف کو تسلیم کرکے مشترکات پر اتفاق ؎ مستحکم کیاجائے۔

لیکن یہ تصور پاکستان میں جڑ نہیں پکڑ سکا اورموجودہ حالات میں آئندہ بھی اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔موجودہ حکومت کی جانب سے تمام پاکستانیوں کے مشترکات کی بنیاد پر یکساں تعلیم فریم ورک کی تشکیل کے منصوبے کا درست سمت میں پہلے قدم کے طور پر خیرمقدم ہونا چاہیے۔ لیکن گزشتہ برس ’’سنگل نیشنل کریکیولم‘‘ یا یکساں قومی نصاب کے عنوان سے شائع ہونے والی دستاویز کا دائرہ بنیادی فریم ورک تک محدودنہیں۔ اس میں قومی سطح پر پائے جانے والے تنوع کو زیادہ اہمیت دیے بغیر یکساں تعلیمی نظام کی کوشش نظر آتی ہے اور اسی وجہ سے صوبوں کی جانب سے اس پر کڑی تنقید کی گئی۔

قومی نصاب کے نفاذ کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں اور حکومت نے آئندہ تعلیمی سیشن کے لیے اس کے تحت نصابی کتب کی اشاعت کے احکامات بھی دے دیے ہیں۔ صوبائی حکومتوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ انہی خطوط پر نصابی کتب تیار کریں۔ بدقسمتی سے وفاقی وزارت تعلیم نے کئی رکاوٹوں کو نظر انداز کیا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے مابین باہمی رابطہ بھی ناقص رہا جس کی ایک مثال یہ ہے کہ سندھ نے قومی نصاب کے نفاذ سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس کا اپنا تشکیل دیا گیا تعلیمی پروگرام اسے زیادہ موزوں محسوس ہوتا ہے۔

حکومتی ہدایات پر عمل درآمد کرنے کے لیے بڑے اداروں کو قومی نصاب کے تحت کتابوں کی اشاعت میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ نصابی کتب یا معاون مطالعاتی مواد کی اشاعت کے لیے اجازت نامے جاری کرنے کا اختیار صوبائی ٹیکسٹ بورڈز کے پاس ہے۔ یکساں قومی نصاب کے اطلاق میں سندھ متذبذب ہے اس لیے نصابی کتب کی اشاعت اگر روکی نہیں گئی تو بھی اس میں تاخیر یقینی ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب کے جاری کردہ حکم نامے کے بعد تمام نصابی اور معاون مطالعاتی مواد کی اشاعت کے لیے پی سی ٹی بی ایکٹ 2015کے تحت منظوری لینا ضروری ہے۔

پری پرائمری اور پرائمری نصابی کتب کے لیے جائزہ فیس 2000روپے سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ روپے کردی گئی ہے۔ دیگر صوبے بھی پنجاب کی طرح فیسوں میں اضافہ کررہے ہیں جس کے بعد شائع ہونے والی نصابی کتابوں کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ کتابوں کی قیمت میں اضافے کا بوجھ بھی والدین ہی کو اٹھانا پڑے گا جو پہلے ہی نجی اسکولوں کی بھاری فیسیںادا کررہے ہیں۔ پبلشرز کی جانب سے پیش کردہ ان نکات پر غور ہونا چاہے؛ یوکے یا بین الاقوامی نصاب کے تحت ہونے والے امتحانات جیسا کہ جی سی ایس ای اور آئی بی وغیرہ کے لیے کتابوں کی منظوری سے متعلق ابہام دور ہونے چاہیے۔

انہیں یا تو منظوری سے مستثنیٰ کردیا جائے یا متعلقہ نصاب کی روشنی میں ان کا جائزہ لیا جائے۔ ریاضی اور سائنس کی تعلیم انگریزی میں دی جائے اور باقی مضامین اردو یا مادری زبانوں میں پڑھائے جائیں۔ مادری زبان میں تدریس کے فوائد اپنی جگہ اس کے ساتھ ہی تجویز یہ ہے کہ نصابی کتابوں کے جائزے اور منظوری کے لیے وفاقی سطح پرایک مرکزی ادارہ بنایا جائے جس کے فیصلے پورے ملک میں نافذ ہوں۔ یکساں قومی نصاب کا نفاذ مرحلہ وارکیا جائے۔ ٹیکسٹ بک بورڈز نجی پبلشرز کے جمع کرائے گئے مسودوں کا جامع انداز میں جائزہ لے کر اجازت نامے جاری کریں۔ دو سال میں نجی اسکولوں کے لیے بھی قومی نصاب تشکیل دیا جائے۔

ٹیکسٹ بورڈ اور ان کی جانچ پڑتال سے متعلق تحفظات کو دستاویزی شکل دی جائے اور جائزے سے منظوری تک مرحلہ وار ہدایات فراہم کی جائیں۔ کئی ادارے نصابی کتب کے ساتھ حوالہ جاتی اور معاون مطالعاتی مواد بھی شائع کرتے ہیں ان کی جانب سے ایسے مواد کا جائزہ ایک ساتھ ہی لے لیا جائے کیوں کہ الگ الگ منظوری سے کتابوں کی اشاعت پر آنے والی لاگت میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کے لیے تعلیمی اصلاحات وقت کی ضرورت ہے۔ وزارت تعلیم پر کارکردگی کے لیے دباؤ ہے۔ لیکن صوبائی اتفاق رائے کے بغیر قومی نصاب کی تشکیل سود مند نہیں ہوگی۔

اس کے علاوہ صوبوں میں اس کے نفاذ سے متعلق وفاقی سطح پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے پاکستان کے لیے ایک بنیادی اور متفقہ لائحہ عمل فراہم کیا جائے تاہم اس میں صوبوں کے انفرادی مواد کے لیے پوری گنجائش رکھی جائے۔ کسی بھی ایک صوبے کے عدم اتفاق سے ساری محنت رائیگاں ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے یوگوسلاویہ سے عبرت لینی چاہیے جہاں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لیے اٹھارہویں ترمیم جیسا راستہ اختیار کیا گیا لیکن نتیجے میں ریاستیں بکھر گئیں اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور انتشار پیدا ہوا۔ جذبات کے بجائے عقل و منطق کی بنیاد پر تشکیل دی گئی پالیسیوں سے ابہام رفع ہوسکتے ہیں اور ’’کثرت میں وحدت‘‘ یقینی بنائی جاسکتی ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)