|

وقتِ اشاعت :   January 10 – 2021

جنوری کا آغاز بلوچستان اور کوئٹہ کیلئے ایک ایسی خبر لے کر آیا جسکے نتیجے میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں بلوچستان کو ایک بار پھر جگہ ملی اور ماضی کی طرح اس بار بھی ایک سانحے کے نتیجے میں بلوچستان کو ہیڈ لائینز میں جگہ ملی۔ چاہے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہویا سوشل میڈیا وہاں ایک ہی پہلو پر بات ہوئی دوسرا پہلو نظر انداز ہوا اسلئے اس دوسرے پہلو پربات ہونا ضروری ہے۔ اس تحریر میں کوشش ہوگی کہ تمام پہلوئوں پر مکمل اور جامع بات کی جائے کہ کیسے حکومت بلوچستان ہو یا وفاقی حکومت دونوں نے معاملے کو نہ صرف مس ہینڈل کیا بلکہ مس مینجمنٹ بھی کی جسکے نتیجے میں ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی جو ایک عجیب سی روایت بن چکی ہے۔

اس روایت میں لاشوں کو سیاست کیلئے استعمال کیا جانے لگا ہے اسلئے ریاست کو اب سوچنا ہوگا کہ کسی گروہ یا جماعت کو کسی کی لاش پر سیاست کرنے دینی ہے یا نہیں ،لاشوں پر سیاست ہوتے ہوئے جو واقعات میں نے دیکھے ہیں آج انہیں اسلئے قلمبند کررہا ہوں کہ اس پہلو پر بھی کسی کو بات کرنی چاہئے تھی جو نہیں کی گئی کہ کیسے لاشوں پر سیاست کی جاتی ہے ۔چند روز قبل بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے دس مائن ورکرز کو شناخت کے بعد قتل کیا گیا اور اسکی ذمے داری کالعدم تنظیم نے قبول کرلی جسکے بعد ابتداء میںسبی کوئٹہ شاہراہ پر لاشوں کے ہمراہ دھرنا دیا گیا۔

اور پھر انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد لاشیں کوئٹہ منتقل کردی گئیں۔ ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے رکن اسمبلی قادر علی نائل نے اہم کردار ادا کیا ،لاشوں کی کوئٹہ میں ہزارہ ٹائون منتقلی کے بعدایک اہم اجلاس ہوا جس میں متفقہ طور پر ہزارہ برادری کے تمام مکاتب فکر کے نمائندوں نے شرکت کی اور لاشوں کی تدفین کیساتھ آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے فیصلے لئے گئے لیکن جس روز دوپہر ایک بجے لاشوں کی تدفین ہونی تھی اسی روز ہزارہ ٹائون کے قریب موجود بائی پاس پر دھرنا دیدیا گیا ،بظاہر یہ دھرنا لواحقین کی جانب سے دیا گیا تھا۔

تاہم اس دھرنے کو ایک جماعت کی حمایت حاصل تھی ۔ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے چئیرمین خالق ہزارہ نے تو اپنی پریس کانفرنس میں براہ راست الزام لگا یا ہے کہ ایک مذہبی جماعت لواحقین کو استعمال کررہی ہے سانحہ مچھ سے لیکر اب تک ہر طرف آدھا سچ بولا اور دکھایا جارہا ہے لیکن باقی آدھے سچ پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے اسلئے میں نے سوچا کہ لاشوں پر سیاست کے اس پہلو پر بات ہونی ضروری ہے پہلے روز سے تمام حلقوں سے یہ دبائو آرہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کوئٹہ کیوں نہیں آتے اور مطالبات مان کر یہ دھرنا ختم کیوں نہیں کرواتے ؟

مچھ کا سانحہ اور المیہ قصہ پارینہ ہوچکا ،اب بحث یہ چل رہی ہے وزیر اعظم آکیوں نہیں رہے ؟ اب رہی سہی کسر وزیر اعظم کی تقریر نے پوری کردی لیکن اس ساری صورتحال کو دیکھ کر مجھے دو ہزار تیرہ کے جنوری کا مہینہ یاد آنے لگا تب بھی لاشیں یرغمال بنائی گئیں ،اب بھی ایسا ہی ہوا ۔ میری ذاتی رائے میں یہ روایت ہی غلط ہے اور اس روایت کی ابتداء دو ہزار تیرہ کے جنوری سے ہوئی جب بلوچستان میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت برطرف کرکے گورنر راج لگایا گیا۔ نواب اسلم رئیسانی نے گو کہ کچھ ایسے بیانات دیئے تھے۔

جن سے ہزارہ برادری میں انکے حوالے سے اشتعال بڑھا تھا لیکن کسی بھی طور پر اس معاملے پر حکومت کو برطرف کرنے کا فیصلہ درست نہ تھا ، اسلئے اس وقت پڑنے والی روایت اب بدل ہی نہیں پارہی ہے، وہ بھی جنوری کا مہینہ تھا سال دوہزار تیرہ کا تھا ہم اسلام آباد ائیرپورٹ پر لائونج سے کوئٹہ جانے والے جہاز کی طرف جانے کیلئے لائن میں کھڑے تھے جب کوئٹہ میں پرل انسٹی ٹیوٹ کے پاس بم دھماکے کی خبر آئی اور بریکنگ نیوزکی دوڑ میں تیز دوڑنے کیلئے میں نے اپنی ٹیم کو فون کیا اور جاء حادثہ پر پہنچنے کی ہداہات دیں ۔

ابھی ہم جہاز کی طرف ہی جارہے تھے چند منٹوں میں دوسرے دھماکے کی خبر ملی۔ میں نے اپنی ٹیم سے رابطے کی کوشش کی لیکن ناکام کوششوں نے پریشان کردیا بمشکل اپنے ڈی ایس این جی آپریٹر سے رابطہ ہوا وہ صرف یہ کہہ سکا کہ سر میرا امین سے رابطہ نہیں ہو رہا، بس میرے اوسان خطا ہونے لگے ۔اختر نے دو بار سر سر کہہ کر مجھ جھنجھوڑنے کی سعی ضرور کی لیکن کوئٹہ سے دور اسلام آباد کے ائیرپورٹ پر میری آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا تھا ۔تھوڑی دیر میں امین نے فون کیا کہ سر میں خیریت سے ہوں تو میری سانسیں بھی بحال نہیں ہوئی تھیں کہ امین نے بتایا کہ میرے پیچھے سیف الرحمان رپورٹر سماء ٹی وی اور کیمرامین عمران شیخ کھڑے تھے۔

لیکن دھماکے بعد نہیں مل رہے ہیں۔ اس اثناء میں جہاز اسلام آباد سے ٹیک آف کرچکا تھا کوئٹہ لینڈنگ پر واجہ آصف بلوچ نے مرحوم سیف الرحمان اور عمران شیخ کی شہادت کی تصدیق کردی ۔ ائیر پورٹ سے سی ایم ایچ پہنچا سیف الرحمان کی میت کراچی روانہ کی اور عمران شیخ کی میت گھر کیلئے روانہ کی اور پھر ایک احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ علمدار روڈ کے دو دھماکوں میں اسی کے قریب لوگ لقمہ اجل بنے تھے، ایک سو تیس کے لگ بھگ زخمی ہوئے تھے ، احتجاجی دھرنا لاشوں کیساتھ جاری تھا کہ حکومت کی طرف سے کمشنر کوئٹہ اور سی سی پی او پنجابی امام بارگاہ پر جاری دھرنے میں پہنچے۔

بلوچستان کے دو فرزندوں نے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی اور بالآخر معاملات طے پاگئے جسکے نتیجے میں یہ دونوں افراد اما م بارگاہ سے باہر نکلے۔ کمشنر کوئٹہ اور سی سی پی او میڈیا سے نظریں بچاکرجانے لگے لیکن دونوں کیساتھ ہمارا تعلق احترام کا تھا کسی طرح روک کر پوچھا ،کیا فیصلہ ہوا تو دونوں نے کہا معاملہ حل ہورہا ہے ہم ابھی جا کر وزراء کا وفد لارہے ہیں۔ ان دونوں افسران کے جاتے ہی جنوری کی یخ بستہ راتوں میں ہم ڈی ایس این جی میں بیٹھے تھے کہ کچھ افراد کو شدید غصے میں گاڑیوں سے اترتے ہوئے اور پنجابی امام بارگاہ جاتے دیکھا۔

اسکے کچھ ہی دیر بعد کمشنر صاحب اور سی سی پی او صاحب پہنچے لیکن گاڑی سے نہیں اترے۔ کمشنر نے گاڑی کے اندر بیٹھے بیٹھے مجھے آواز دی ا ور مجھ سے سوال کیا کہ ہمارے یہاں سے جانے کے بعد کون آیا ؟میں نے نام اور حلیہ بتایا تو کمشنر کوئٹہ نے سی سی پی او کی جانب دیکھ کرکہا سر دیکھا میں نہیں کہہ رہا تھا معاملہ اسی نے بگاڑا ہے اور پھر میرے سوال پر کمشنر نے بتایا کہ دھرنا ختم ہونے اور لاشوں کی تدفین پر اتفاق رائے ہوچکا تھا اب دوبارہ معاملہ بگڑگیا ہے وہ شخصیات کون تھیں اس بحث میں جائے بغیر لیکن ان کے نام اور حلیے مجھے یاد ہیں۔

اور پھر ہم نے دیکھا کہ لگ بھگ چوتھے یا پانچویں روز اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو ئٹہ پہنچے اور نواب رئیسانی کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا جسکے بعد دھرنا ختم ہوا اور لاشوں کو دفنایا گیا ۔ آج بھی سانحہ مچھ کے بعد ایسی ہی صورتحال ہے اب بھی متفقہ فیصلہ ہو چکا تھا پھر کچھ لوگ آئے اور فیصلے پر عمل رک گیا اور اب تک احتجاج شروع ہے ۔ نام کچھ بدلے ہیں حلیے وہی ہیں جنہوں نے دو ہزارتیرہ کے دھرنے کو طول دیا وہ آج بھی اسی کام میں مصروف ہیں اس وقت بھی دو ہزار تیرہ میں احتجاج ملک گیر ہوگیا تھا ابھی بھی اس احتجاج کو ملک بھر میں وسعت دی گئی ہے۔

اور ہاں ابھی چند عرصہ قبل کی بات ہے ایک سماجی کارکن جلیلہ حیدر نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی تھی اور مطالبہ کیاکہ آرمی چیف کوئٹہ آکر ان سے مل لیں اور یقین دھانی کروائیں کہ اب ہزارہ قبیلے کے لوگوں کا قتل عام نہیں ہوگا اور پھر چند روز کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف کوئٹہ پہنچے اور جلیلہ حیدر سے ملے ۔ان دو واقعات کے علاوہ بھی کچھ ایسے واقعات ہیں جب ریاست نے سر تسلیم خم کیا اور پھر اپنی رٹ کھوتی چلی گئی اسلئے آج بھی چند افراد نے لاشوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس تحریر کا مقصد کسی غلط اقدام یا ہزارہ برادری کے قتل عام کا دفاع نہیں ہے۔

میں نے ہمیشہ اپنی رپورٹنگ میں اپنے استادوں سے یہ سیکھا ہے کہ ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دو لیکن مظلوموں کے نام پر سیاست کرنے والوںکا ساتھ دینا میرے لئے ممکن نہیں ہے اسلئے سانحہ مچھ پر میرا دل بھی افسردہ ہے دو ہزار تیرہ میں بھی جنوری تھا دو ہزار اکیس میں بھی جنوری ہے ہزارہ برادری کی لاشیں خون جمادینے والی سردی میں رکھی ہوئی تھیں یہاں آج بھی صورتحال ویسے ہی ہے جیسے نو سال قبل تھی۔ آج بھی لاشوں پر سیاست کی جارہی ہے اور دو ہزار تیرہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اس وقت سوشل میڈیا کی ابتداء تھی اب عروج ہے نو سال میں روایت اور چہرے نہیں بدلے۔

آنے والے دن کیسے ہونگے نہیں جانتا اللہ سے دعا ہے کہ میرے شہر اور میرے صوبے اور اسکے عوام کی حفاطت فرما ئے لیکن یہاں ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنی ہوگی۔ میری ذاتی رائے میں سانحہ مچھ سب سے پہلے ضلعی انتظامیہ اور تمام سیکیورٹی اداروں کی ناکامی کا نتیجہ ہے جس پر کوئی دوسری رائے ہونہیں سکتی، چاہے کوئی اٖفغانی نیشنل تھا یا پاکستانی شہری اس انداز میں ان کے قتل پر فوری طور پر جن اداروں کی پہلی ناکامی ہے انکے خلاف کارروائی نظر آنی چاہئے اور تمام ادارے اور حکومت عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں کیونکہ بعد میں کسی جے آئی ٹی یا کمیشن بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

اسلئے اب ہمیں ایسے کسی سانحے یا واقعے سے قبل اس واقعے کو ٹیسٹ کیس بنانا چاہئے ۔ اسلے یہا ںدیکھنا ہوگا کہ جہاں یہ افراد کام کررہے تھے وہاں ضلعی انتظامیہ ایف سی اور مائن اونر نے سیکیورٹی کا انتظام کیوں نہیں کیا؟ سانحے کے بعد جب لاشوں کی شناخت ہوچکی تھی تو ضلع انتظامیہ نے لاشوں کو اپنی تحویل میں کیوں نہیں رکھا کیوں کہ جو افغان مہاجرین تھے انکی لاشیں انکے ملک روانہ کرنا ریاست کی ذمے داری تھی جوپوری نہیں کی گئی۔ اسکے بعد وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء لانگو کو سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی طرح فوری طور پر مچھ پہنچنا چاہئے تھا ۔

اور یہ اسلئے بھی ضروری تھا کہ وزیر اعلٰی صوبے میں موجود نہیں تھے جبکہ وزارت اطلاعات یا وزیر اعلٰی کی میڈیا ٹیم بجائے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانے کے سینیٹر انوارالحق کاکڑ کی طرح کام کرتے ، پہلے روز وضاحت جاری کرتے کہ وزیر اعلٰی دو ڈھائی سالوں میں چند ایک مرتبہ ہی کسی نجی دورے پر گئے ہیں اسلئے اتنے دنوں کے بعد پہنچ رہے ہیں یا تاخیر کی وجہ یہ ہے اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو چاہئے تھا کہ اپنی کابینہ میں موجود چند بااثر افراد کو ہزارہ معتبرین کے پاس بھیجتے ۔واقعے کے روز ہی اور وہ اظہار یکجہتی کے طور پر متاثرین کے ساتھ ہوتے لیکن میری ذاتی رائے یہی ہے۔

کہ کابینہ میں موجود بااثر ہیوی ویٹ صرف اپنے معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں، صوبے کے دیگر معاملات سے انہیں دلچسپی نہیں ہے ۔وفاقی حکومت کا وفد پہنچا اور جو شاہکار کام انہوں نے کیا، علی زیدی اور ذولفی بخاری کے غیر سیاسی ہونے کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ انہوں نے آتے ہی جوڑ توڑ اور فائدے نقصان کی بات شروع کردی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ مجلس وحدت مسلمین سے مرکزی سطح پر معاملات طے کرکے یہاں پہنچتے اور پہلی رات دھرنے کے شرکاء سے صرف اظہار یکجہتی کرتے اور انکے غم میں شرکت کرتے لیکن اگر وہ سیاسی شعور رکھتے تو ایسا کرتے جو انہوں نے نہیں کیا۔

اسلئے ا ب امن و امان کی بحالی کیلئے ریاست کو اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی پھر اسکے بعد کسی سانحے یا واقعے کی صورت میں اشتعال پھیلانے والے عناصر کو قابو کرنا ہوگا اسکے لئے حکومت کو ایک ایس او پی تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ کسی واقعے یا سانحے کے بعد لاشوں کی تجہیز و تدفین تک ریاست کو اپنا کردار نبھانا ہوگا بصورت دیگر یہ روایت اب عام ہوگی کہ کوئی بھی گروہ یا جماعت لاشوں کو لیکر احتجاج پر بیٹھ جائیگا اور پھر ریاست کو سرینڈر کرنا پڑیگا۔ اس تحریر کو لکھتے وقت تک کی اطلاعات کے مطابق ریاست اہم فیصلے کرچکی ہے اسکی اشاعت تک جو بھی صورتحال ہو حکومت وقت کو آئندہ کیلئے۔

ایک جامع لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگابصورت دیگر لاشوں پر سیاست کی روایت پڑچکی ہے۔ دو ہزار تیرہ میں بھی جنوری تھا اب بھی جنوری ہے فیصلے تب بھی بدلے اب بھی بدلے، حلیے تب بھی وہی تھے اب بھی وہی ہیں ریاست تب بھی وہی تھی اب بھی وہی ہے لیکن اب ریاست کو روایت شکن بننا ہوگا ورنہ ایسے ہی لاشیں اور ریاست یرغمال بنتی رہینگی۔