|

وقتِ اشاعت :   January 12 – 2021

ایک مہینہ قبل کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں فورسز کے صوبائی سربراہوں، وزیروں، مشیروں اور لیڈروں کی ملاقاتیں ہوئیں، اجلاس ہوئے، خوردونوش کی دعوتیں اڑائی گئیں، بارڈر کے دورے کئے گئے اور اس سارے عمل کے بعد سرحدی عوام کو خوشخبری دی گئی کہ پاک ایران بارڈر کھل گئی ہے۔ اخباری لیڈروں (مرشدوں) نے اس اعلان کو اپنے اپنے من پسند پِیروں کی کاوشیں قرار دیکر مبارکبادوں اور تعریفوں کے انبار لگا دئیے اخبارات سے لیکر سوشل میڈیا تک تعریفوں کے پل باندھے گئے ایرانی تیل کا کاروبار کرنے والوں اور اس سے منسلک لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب تبدیلی سرکار واقعی میں سرحدی عوام کو ریلیف دینے کیلئے۔

اقدامات اٹھا رہی ہے اگلے چند دنوں میں اسپی کہن پوائنٹ کے کھلنے کا سن رہے تھے کہ اچانک واجہ عمران خان کے حکم پر چیف سکریٹری کا نوٹیفکیشن بم کی مانند مکران کے عوام پر گر پڑا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ صاحب اقتدار و اختیار کیا کرنا چاہتے ہیں ان کے اقدامات ایسے ہیں جیسے چند افراد رات کو بیٹھ کر اگلے دن کیلئے منصوبہ بناتے ہیں لیکن رات گئی بات گئی والا قصہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا ۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مکران میں روزگار کے اور کوئی ذرائع نہیں ماسوائے تیل کے کاروبار کے، تیل کا کاروبار کرنے والے بھی انتہائی خطرناک۔

حالات کا سامنا کرتے ہوئے ایک ایک ہفتہ سفر میں رہ کر راستے میں موت کا سامنا کرکے منزل پر جب بہ حفاظت پہنچتے ہیں تب انکے بھوک سے روتے بلکتے بچوں کے منہ میں نوالہ پہنچ کر زیست کا دھاگہ بندھا رہتا ہے ان کا کاروبار تو صرف مزدوری ہی ہوتا ہے منافع تو فورسز اور چیک پوسٹوں کے اہلکار و عہدیداروں کے جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے کا وفا مکران کے عوام کو درکار نہیں کم از کم ان کا رہا سہا روزگار تو نہ چھینا جائے، وزیر اعظم کے حکم پر چیف سیکریٹری کی جانب سے جاری ہونے والا مذکورہ نوٹیفکیشن مکران کے باسیوں کے معاشی قتل کا حکم نامہ ہے ۔

جس کے نفاذ سے سرحدی عوام نان شبینہ کے محتاج ہوکر فاقوں پر مجبور ہوجائے گی کیونکہ روزگار کے باقی ذرائع مکران جیسے پسماندہ و دورافتادہ علاقہ میں معدوم ہیں۔ پچھلی دور حکومتوں میں آٹے میں نمک کے برابر نوکریاں تو دی جاتی تھیں جوکہ اگرچہ اپنے من پسند کارکنان کے حصوں میں جاتیں لیکن پھر بھی معاش کے سلسلے میں پریشانیوں میں توڑی بہت کمی آجاتی لیکن موجودہ حکومت جب سے مسند اقتدار پر بیٹھی ہے بے روزگاری میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے، غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے غربت کی سطح آسمان کو چھو رہی ہے۔

روزمرہ کی ضروریات زندگی لوگوں کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں ، الیکشن یا سلیکشن سے قبل جو سہانے سپنے اور سبز باغ عوام کو دکھائے گئے ان میں سے ایک آدھ کو بھی تعبیر نصیب نہ ہوا، صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت مملکت اللہ داد کی تاریخ کی ناکام ترین اور غیر مقبول ترین حکومت ہے۔ وفاق سے لیکر صوبائی سطح تک عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے اگر اخباری بیانات اور ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر خوشنما اور دلفریب باتوں سے ترقی اور عوام کی معیار زندگی میں تبدیلی آ جاتی تو پاکستان اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہوتا۔

عوام دوست حکومتیں کبھی بھی اپنے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ نہیں کرتیں بلکہ اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے کوشاں رہتی ہیں لیکن موجودہ حکومت اس کے بر خلاف ایسے اقدامات اٹھارہی ہے جس سے لوگوں کی تکالیف اور مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان حالات میں اگر مکران میں ایرانی تیل پر پابندی لگائی گئی تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آئینگے معاشی ابتری سے یقینا سماجی برائیاں جنم لینگی جوکہ اگرچہ سرکار کا درد سر نہیں لیکن پرامن علاقہ کے عوام کیلئے بے شمار مشکلات پیدا کریگی۔ مکران کے موجودہ نمائندوں کی جم غفیر جوکہ سرکاری صفوں میں موجود ہیں ۔

کو چاہیئے کہ وزیر اعظم اور وفاق کو مکران کے عوام کو بارڈر کی بندش یا تیل کے کاروبار پر پابندی سے درپیش مشکلات سے آگاہ کرے اور حکومت کو چاییئے کہ تیل کے کاروبار پر بندش کا مذکورہ فیصلہ واپس لیکر مکران کے عوام کو نان شبینہ کا محتاج ہونے سے بچائے۔