|

وقتِ اشاعت :   January 13 – 2021

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مزار جس مقام پر واقع ہے قیام پاکستان سے قبل یہاں “بلوچوں” کی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ منفرد اور بلند مقام ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ بلوچی زبان میں اسے “قیامہ سری” کہتے تھے۔ اور یہ زمین خدا داد خان گبول کی ملکیت تھی جب ریاست نے فیصلہ کیا کہ یہاں قائد اعظم کو سپرد خاک کیا جائے گا تو مقامی باشندوں نے اپنی زمین بانی پاکستان کی آخری آرام گاہ کے لئے پیش کردی اور یہاں کی آبادی کو وہاں منتقل کیا گیا جسے آج جہانگیر روڈ پٹیل پاڑہ کہا جاتا ہے بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔

قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان کے مسلم اقلیتی علاقوں سے آنے والے مہاجرین کے پاس کراچی میں رہنے کے لیے جگہ نہ تھی تو خداداد خان گبول نے مزار قائد کے قریب مہاجرین کو سینکڑوں ایکڑ زمین رہائش کے لئے تحفہ میں دی اس آبادی کو آج ’’ خداداد کالونی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کراچی ائیرپورٹ کی زمین ہو یا شہر کی تعمیر و ترقی کے دیگر منصوبے تاریخ کے صفحات اگر پلٹ کر دیکھیں تو مقامی لوگوں کی قربانیوں کی بے شمار مثالیں ملیں گی اور انہوں نے کبھی بھی ترقی کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن ان کے معیار زندگی کو ہر دور حکومت میں نظر انداز کیا گیا۔

سال 2021 جنوری کے پہلے ہفتہ میں کراچی کے دیہی علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین اور بچے سڑکوں پر نکل آئے۔ان کا ایک ہی نعرہ تھا کہ انہیں ان کی سرزمین سے بے دخل نہ کیا جائے۔ متاثرین کے اس احتجاج میں واجہ رحیم بخش، واجہ محمد بخش اور واجہ اکرم بھی نظر آئے ان کا تذکرہ کرنے کی بنیادی وجہ ان کے خاندانی پس منظر کو بھی سامنے لانا مقصود ہے۔ ان کے پردادا ” واجہ ملا عیسیٰ ” انیسویں صدی عیسوی میں “ملیر” کے ولی صفت روحانی شخصیت تھے۔ ان کے قلبی اور روحانی پہلوؤں کے متعلق مختلف روایات مشہور ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس خاندان کو ملیر میں آج بھی عزت کا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ یہ لوگ جس حکومت کے خلاف سراپائے احتجاج تھے اس کے چیف ایگزیکٹو مراد علی شاہ ہیں ان کے والد سید عبداللہ شاہ 1993 سے 1996 تک سندھ کے وزیراعلیٰ رہے۔ بینظیر بھٹو حکومت کی برطرفی کے بعد سید عبداللہ شاہ پر زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے مقدمات بنے تو وہ 1997 میں بیرونِ ملک چلے گئے جہاں وہ دس سال سے زائد عرصے تک خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے مقدمے میں بھی انہیں مفرور قرار دیا گیا تھا زندگی کے آخری ایام میں وہ خود ساختہ جلا وطنی ترک کرکے وطن واپس پہنچے اور ان پر درج مقدمات میں انہوں نے سندھ ہائیکورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری لی۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس منصوبہ کو ” ملیر ” کی ترقی قرار دیا ہے مگر مقامی لوگوں کی نظر میں یہ درحقیقت بحریہ ٹاؤن کی ملیر کی زمینوں پر قبضہ گیری کا تسلسل ہے اور عام رائے ہے کہ شہر کے پوش علاقے کے مخصوص طبقے کو آمد و رفت کی بہترین سفری سہولیات فراہم کرنے کے لئے سندھ حکومت اربوں روپے خرچ کررہی ہے شاید اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ برسر اقتدار جماعت اپنے مخصوص طبقاتی پس منظر کے باعث ہمیشہ سے اشرافیہ کے مفادات کی محافظ رہی ہے کیونکہ شہر کی دیہی آبادی انسانی ترقی کے اشاریوں کی صورت حال انتہائی ابتر ہے جبکہ صوبائی حکومت کا واضح جھکاؤ اور ترجیحات صاف محسوس کی جاسکتی ہیں۔آئین پاکستان میں شہریوں کے جان و مال اور عزت کا تحفظ حکومت کی بنیادی ذمہ داری میں شامل ہے۔ آرٹیکل 26 کے تحت “کسی شخص کو اسکی جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا “۔

شہریوں کی بنیادی حقوق کی ضامن 1973 کے آئین کے خالق شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی سندھ میں اس تیرہ سالہ دور حکومت میں ” ملیر” کے حالات پر نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے کہ ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس ” کا اندھا قانون نافذ ہے۔گزشتہ دہائی کو “ملیر ” کے سیاہ ترین دور کے طور پر تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اسی دوران دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں ایکڑز زرعی اراضی اور قدرتی آبی گزرگاہوں پر قبضے کرکے کہیں رہائشی منصوبے بنائے گئے تو وہیں نئے شہر بھی معرضِ وجود میں آئے اور اس تمام عمل میں مقامی لوگوں کو طاقت و لالچ کے زور پر کچلا گیا جو انگریزی محاورے گاجر اور چھڑی کے مصداق ہے۔ظلم و جبر کے اس عرصے میں حکمران جماعت سمیت سیاسی اور قوم پرست جماعتیں، پولیس، بیوروکریسی، اور میڈیا سب کے سب برابر کے حصہ دار رہے اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔

سال 2020 میں مون سون کی بارشوں میں یہ حقیقت سب پر عیاں ہوئی کہ ” ملیر” کے ندی نالوں پر قبضے کی وجہ سے شہر کا بیشتر حصہ زیر آب آگیا اور اس کا اعتراف خود وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیا کہ سکھن ندی پر 90 فیصد قبضہ ہوچکا ہے۔ ملیر اور سکھن ندی پر درجنوں غیر قانونی رہائشی منصوبوں اور کئی جعلی گوٹھوں کے نام پلاٹس کٹنگ کرکے فروخت کیئے گئے۔ ان غیر فطری و غیر قانونی انسانی آبادیوں نے جہاں ماحول کو شدید نقصان پہنچایا تو وہیں وسائل پر بھی قبضہ جمایا جس کی وجہ سے پانی، بجلی و گیس کے بحران کا قدیم آبادیوں کو سامنا ہے۔

مزید ستم یہ کہ بے شمار صنعتوں کا کیمیائی فضلہ اور بھینسوں کے سیکڑوں باڑوں سے آنے والی غلاظت ” ملیر ” کی ندی نالوں میں بہائی جارہی ہے۔”ملیر ایکسپریس وے” کا سنگ بنیاد تو رکھ دیا گیا مگرمقامی لوگوں کی معاشی ترقی ملیر ندی کا قدرتی حسن اور ماحولیاتی تحفظ کو قائم رکھنے کے لئے سندھ حکومت نے پالیسی کا اعلان نہیں کیا جو تشویش کا باعث ہے۔