بلوچستان کے عوام ایرانی تیل کی ترسیل پربندش کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ احتجاج کا سلسلہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں جاری ہے۔ مظاہرین نے حکومت کی جانب سے تیل و ڈیزل کی بندش کو معاشی قتل قرار دیاہے۔ معاشی امور کے ماہرین نے ایرانی تیل کی ترسیل پر بندش سے بلوچستان میں جاری انسرجنسی میں مزید اضافہ ہونے کا عندیہ دے دیا اور کہا کہ ایسی پابندیوں سے معاشرے میں بے چینی کی فضا قائم ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کاروبار کے خاتمے سے قبل بلوچستان میں روزگار کے متبادل ذرائع بنائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر تیل کا کاروبار بند کردیا جائے اور متبادل کچھ نہ ہو تو دیگر معاشرتی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ حکومت سب سے پہلے ان علاقوں میں ایک بڑا معاشی پیکج دے، اس پر عمل درآمد کے بعد اس کاروبار پر بندش لگائے جو ایک بہتر اور ثابت قدم فیصلہ ہوتا۔ جس سے بلوچستان میں ابتر حالت بہتر ہونے کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔ بغیر کسی معاشی پیکج کے اس طرح کی معاشی پابندیوں سے عوام کو مزید دیوار کے ساتھ لگانے کا مترادف ہوگا۔ کیونکہ اس کاروبار سے لاکھوں لوگ منسلک ہیں۔ اور ان کا گزر بسر سمیت ضروریات زندگی بھی ایرانی اشیاء کے اردگردگھومتی ہے۔
ان پابندیوں کی وجہ سے لوگ بے روزگار ہونگے اور وہ بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر بھی مجبور ہوسکتے ہیں۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کا ذریعہ معاش اسی تیل کے کاروبار پر وابستہ ہے۔ اگر اس کاروبار کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بندکیاگیا تو یہ عوام کا معاشی قتل ہوگا۔ اور لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ جائیں گے لوگوں کے گھروں کے چولہے بند ہوجائیں گے۔معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ایران سے متصل اضلاع میں نہ صنعتیں ہیں اور نہ زراعت، جس سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہو۔
یہاں پر کاروبار کا واحد ذریعہ صرف ایرانی اشیاء اور تیل ہے۔ اگر اس کاروبار کو بندکیاگیا تو ان علاقوں میں امن و امان کا مسئلہ بھی مزید خراب ہوجائیگا۔ لہذا انہیں متبادل روزگار کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔پاک ایران بارڈر 909 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ بلوچستان کے اضلاع چاغی، واشک، کیچ، پنجگور اور گوادر سے متصل علاقہ ہے۔ دوسری جانب ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان ہے۔ کسی زمانے میں یہ ایک ہی علاقہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کو عالمی قوتوں نے تقسیم کردیا۔ جس کی وجہ یہاں کے بلوچ سیاسی اور عسکری طور پرکمزور پڑگئے۔
جس سے ان کے معاشی مسائل پر بھی منفی اثرات پڑے۔ آج بلوچ سرزمین آپ کو ایران، پاکستان، اور افغانستان میں تقسیم ملے گی۔ بلوچ سرزمین کو تقسیم کرنے کا مقصدبلوچ کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کروانا تھا۔ اور جس سے ان کی مرکزیت کو توڑاگیا اور ان کی طاقت کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کیاگیا۔ تاکہ بلوچ کمزور سے کمزورتر ہو سکیں اور حکمران ان پر حکمرانی کرتے رہیں۔آج بلوچستان میں محرومیوں کا ایک آتش فشاں موجود ہے۔ پاکستان میں غربت کے لحاظ سے بلوچستان کا پہلا نمبر ہے۔
71.1فیصدلوگ غربت کا شکار ہیں، مزید یہ کہ غربت کی شہروں کی نسبت دیہاتوں میں زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔یعنی85فیصد دیہاتی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر کے 20غریب ترین اضلاع میں بلوچستان کے 16اضلاع شامل ہیں۔ عالمی اداروں کے حساب سے بلوچستان میں غربت کی بنیادی وجوہات کے حوالے سے جتنے بھی پیرامیٹرز ہیں۔ وہ شدید تنزلی کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر پینے کے صاف پانی کو اگر لیجئے تو بلوچستان میں صرف 20فیصد لوگوں کو یہ سہولت میسر ہے۔
قحط سالی اور بے حس حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے دیہاتی آبادی کی شہروں کی طرف ہجرت ایک لازمی اور فطری امر ہے۔ بلوچستان کے صرف 25فیصددیہاتوں میں بجلی فراہم کی گئی ہے، جبکہ پاکستان کے دیگر دیہاتوں میں یہ تناسب تقریباً75فیصد ہے۔ اس کے علاوہ غربت کی دیگر وجوہات میں ریاستی جبر کے نتیجے میں بد امنی، انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی، ناخواندگی، علاج کی ناکافی سہولیات اور بیروزگاری سرفہرست ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سالانہ 25ہزار کے قریب نوجوان گریجویشن کرکے محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں۔
جن میں صرف ڈھائی سے تین ہزار کے قریب نوجوانوں کو روزگار نصیب ہوتا ہے، جبکہ باقی بیروزگاری کا شکار ہوکر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے نظر آتے ہیں۔سماجی حلقوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایرانی تیل کے کاروبار کو بند کیا گیا تو یہاں بسنے والے مجبوراً دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کریں گے۔ کیونکہ پہلے سے یہ معاشی بدحالی اور بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ تیل کے کاروبار کے علاوہ ان کے پاس دوسرا کوئی روزگار نہیں ہے۔ غریب عوام کو دو وقت کی روٹی کمانے کا موقع دے کر ان کے منہ کا نوالہ ان سے نہ چھینا جائے۔
غربت اور پسماندگی کے شکار ان علاقوں کے نوجوان پہلے ہی زیادہ تر نشے کے عادی ہو رہے ہیں۔ جس کی مثال حال ہی میں مکران میں جاری منشیات فروشوں کے خلاف تحریک ہے۔ یہ تحریک منشیات کے فروخت کے خلاف جاری ہے۔ جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ منشیات کے عادی ہوچکے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ جب کسی معاشرے میں بے روزگاری عام ہو وہاں لوگ مختلف ذہنی و نفسیاتی پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔قوم پرست جماعتوں نے تیل کے کاروبار پر پابندی کو ایک سازش قراردے کر۔
الزام لگایا کہ حکومت ایک منصوبے کے تحت علاقے میں جرائم اور منشیات فروشی میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ ان حلقوں نے منشیات کی بھرمار کو ایک حکومتی سازش قرار دیاہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت ایک منصوبے کے تحت بلوچ نسل کو منشیات کے ذریعے تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے تاکہ بلوچ معاشرے میں سیاسی کلچر کو تباہ کیا جائے۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک ایران بارڈر پر جاری تیل کے کاروبار کو بارڈر ٹریڈ کا حصہ بنایا جائے اور اس کو قانونی اور آئینی شکل دی جائے ۔ یہ آئینی پیکج بلوچستان میں موجود معاشی و سماجی پسماندگی کی راہ میں کسی حد تک دیوار بن سکے گا وگرنہ حالات مزید خراب ہونگے۔