|

وقتِ اشاعت :   January 19 – 2021

ولی محمد زہری
سوشل میڈیا کی بدولت معلومات کی فراہمی اور پیغام رسانی انتہائی آسان ہوتی جا رہی ہے۔ موجودہ جدید اور ترقی یافتہ دور میں فور جی اور فائیو جی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کو لوگ اپنا رہے ہیں ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو جس طرح سوشل میڈیا نے کراس کیا ہے یا عوامی مقبولیت حاصل کی ہے اس کا آپ سوشل میڈیا دیکھنے والوں سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جس طرح سوشل میڈیا کے فوائد بے شمار ہیں اتنے ہی خطرات اور نقصانات بھی ہیں ۔ موجودہ حالات اورتیز رفتار دور میں ففتھ وار جنریشن کا دور دورہ ہے۔

دشمن قوتیں بھی سوشل میڈیا کا تواتر سے استعمال کرکے پروپیگنڈا اور سازش میں مصروف عمل ہیں وہاں اپنے بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ ملکی اداروں پر نشتر کے تیر چلا رہے ہیں جہاں تمام شعبوں اور اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے ملکی ساکھ کو متاثر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سوشل میڈیا اب تک بے مہار ہے ۔سوشل میڈیا پر جو چاہے کرے اس کے سزا وجزا کا کوئی خاص میکنزم یا ریگولیٹری اتھارٹی اب تک نہیں بنایا گیا ہے پاکستان سمیت بالخصوص بلوچستان میں ففتھ وار مہم کے تحت سوشل میڈیا بے مہار ہو چکی ہے۔

سوشل میڈیا میں فیک آئی ڈیز کے ذریعے شرفاء، منتخب نمائندوں، قبائلی معتبرین، صحافیوں، آفیسران سمیت ہر ایک کی پگڑیاں اچھالنے کا مہم باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت جاری ہے۔ بلوچستان قبائلی صوبہ ہے جس کے اپنے روایات اور اقدار ہیں صوبے کے روایات اور قبائلیت کے امین ہونے کے باوجود فیک آئی ڈیز سے عزت داروں کو گالیاں اور فحش القابات سے نوازا جا رہا ہے، ایک باقاعدہ مہم کے تحت ہر ضلع میں علاقائی عمائدین کی موثر منصوبے کے تحت تضحیک کرکے عوام کو حکومتی کوتاہیوں کے بجائے جعلی آئی ڈی پر لگا دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ایف آئی اے و دیگر ریاستی ادارے ان فیک آئی ڈیز کے خلاف ایکشن لینے سے اب تک قاصر ہیں۔

گزشتہ دنوں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے خلاف بھی فیک آئی ڈیز سے کمنٹس دیئے گئے جو صوبے کے وزیر اعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ والئی لسبیلہ بھی ہیں۔ ان جعلی اور فیک اکاونٹس سے نہ تو ایم پی ایز نہ ہی ایم این ایز اور نہ ہی صحافی محفوظ ہیں، آئے روز گالیاں اور غیر مہذب کمنٹس سے جہاں علاقے اور معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہاں اس کے نقصانات کا بھی خدشہ ہے۔ سوشل میڈیا کی بے مہار یلغار اور پروپگنڈہ سے ملکی ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب سوشل میڈیا کے قوائد وضوابط نہ ہونے کے باعث سوشل میڈیا پر فیک آئی ڈیز کی بھر مار ہو چکی ہے ایسے سینکڑوں فیک اور جعلی اکاونٹس ہیں جن کی شکایت اور رپورٹ کرنے کے باوجود ان کے خلاف کاروائی نہیں ہو رہی ہے۔

فیک آئی ڈیز تواتر سے شرفاء کے عزت نفس مجروح کرنے میں مصروف عمل ہیں اور تواتر سے شرفاء کو گالیاں دے کر اپنے مقصد کو کامیاب بنانے میں مگن ہیں لیکن ایف آئی اے ایسے جعلی اور فیک اکاونٹس کے خلاف کوئی خاص کاروائی سے تاحال قاصر ہے۔ کیا فیک آئی ڈیز ، ایف آئی اے کی پہنچ سے دور ہیں یا پھر سائبر کرائم ایکٹ ایسے جعلی آئی ڈیز کو پکڑنے میں ناکام ہے یا پھر ان جعلی آئی ڈیز کی سرپرستی طاقتور کر رہے ہیں جہاں ایف آئی اے کے بھی پر جلتے ہیں اسی وجہ سے ایسے فیک آئی ڈیز تواتر سے ففتھ وار مہم جاری رکھ کر عوام کی عزت نفس مجروح کر رہے ہیں۔جبکہ ہماری ریاست کے مضبوط اور باخبر ادارے بھی سوشل میڈیا کے ان جعلی آئی ڈیز کیخلاف تاحال موثر کریک ڈاون کرنے سے قاصر ہیں۔


اس قسم کے سوشل میڈیا اور ان کے محرکین کے خلاف سخت قوانین لاگو ہونا وقت اور حالات کی ضرورت ہے جیسے آج کل چین آسٹریلیا جیسے دیگر ممالک میں نافذ ہیں۔ سوشل میڈیا کو آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق ریگولیٹ کرنا چاہیے۔سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا خالصتاً عوامی اور ملکی مفاد میں ہے‘ مگر ہمارے ملک میں جب بھی سوشل میڈیا کی ریگولیشن کی بات آتی ہے تو بعض مخصوص مقاصد رکھنے والے گروہ متحرک ہو جاتے ہیں‘ لیکن انہوں نے کبھی امریکا اور برطانیہ کے سوشل میڈیا ریگولیشن پر تنقید نہیں کی حالانکہ وہ زیادہ سخت ہیں‘ لیکن پاکستان کے لیے یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ضوابط ہی نہ ہوں۔پاکستان میں سوشل میڈیا کے حوالے سے قواعد و ضوابط کو فی الفور نافذ کرنے کی ضرورت ہے اورسوشل میڈیا پر بدزبانی‘ بدتہذیبی ‘ ڈس انفارمیشن اور پروپیگنڈا کے کلچر کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور سوشل میڈیا کو ملکی قانون کے تحت چلایا جانا چاہیے۔