کس قدر حیرت اور ناقابلِ یقین بات ہے کہ “کراچی” کے ایک کروڑ سے زائد افراد “مسنگ ” ہیں اور ان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو تلاش ہے۔ شہر کی اہم شاہراہوں اور گلی کوچوں پر بینرز کے ذریعے پیغام آویزاں ہیں کہ” ہمیں درست شمار کرو”۔پاکستان پیپلز پارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، پاکستان تحریک انصاف ، پاک سر زمین پارٹی اور جماعتِ اسلامی کو 2017 کی مردم شماری کے نتائج پر کراچی کی آبادی ” ڈیڑھ کروڑ ” پر شدید اعتراضات ہیں اور ان کے مطابق شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ نہیں بلکہ “ڈھائی کروڑ ” سے زائد ہے۔
اس طرح ملک کے سب سے بڑے شہر سے ایک کروڑ سے زائد افراد “مسنگ” ہیں !آخر انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نے نگل لیا ؟ یہ معمہ ہے کیا اور حل کیوں نہیں ہورہا ؟تقریباً نصف آبادی کو شمار نہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب ڈھونڈنے سے قبل مردم شماری کی اہمیت پر طائرانہ نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔ ہر فرد کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔آبادی کی مناسبت سے منصوبہ بندی کے لئے”مردم شماری ” بنیادی تخمینہ ہے اس کے ذریعہ ضروریات زندگی کی سمت کا درست تعین اور معاشی منصوبہ بندی ممکن ہوتی ہے۔
اور یہ عمل دنیا کے مہذب ممالک میں ہر دس سال کے وقفہ سے کی جاتی ہے اور آئین پاکستان کے تحت بھی ہر دس سال میں مردم شماری ہونی چاہیے لیکن اس پر دو دہائیاں گزرنے کے باوجود عمل نہیں ہوا تو اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت پر 2017 میں مردم شماری کی گئی۔ مردم شماری کی بنیاد پر آبادی کی مناسبت سے خوراک رہائش، صحت ، تعلیم ، روزگار ، معاشی ترقی اور طویل مدتی منصوبہ بندی، قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کا تعین، حلقہ بندیاں اور این ایف سی ایوارڈ کا تعین کیا جاتا ہے۔شماریات کے ماہرین کے مطابق آبادی کے نتائج کی متنازعہ ہونے کی اصل وجہ مردم شماری کے بلاک کی باقاعدہ تعریف کا نہ ہونا ہے۔
جس کے تحت ایک بلاک 175 سے 250 گھروں پر مشتمل تھا مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ مذکورہ تعداد پلاٹ اور بنیادی ڈھانچوں کی ہے یا گھرانوں کی ہے؟ اس تنازعہ پر بحث بہت ہورہی ہے اور اکثریت کی یہی رائے ہے کہ 2017 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو درست شمار نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کابینہ نے 2017 کی مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے دی ہے جسے سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور متعدد سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مسترد کردیا ہے۔قیام سے اب تک پاکستان کی سیاست وسائل اور اس کی تقسیم کے گرد گھوم رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے مرکز اور صوبوں کے درمیان تناؤ رہتا ہے۔پاکستان کے سیاسی اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان بھی یہی معاملہ نمایاں رہا اگر کہا جائے کہ اس طرح کی رسہ کشی کا نتیجہ “سقوطِ ڈھاکہ “کی صورت اختیار کرگیا تو غلط نہیں ہوگا۔ آبادی کے پھیلاؤ سے کراچی کی سیاسی و سماجی، نسلی و لسانی اور مذہبی اکائیوں میں عدم توازن کے منفی اثرات بھی شہر کی معیشت پر واضح ہیں۔ انتہائی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ اور وسائل کے درمیان عدم توازن سمیت دیگر بہت سے خوفناک مسائل کو جنم دے رہا ہے۔
پاکستان کے معاشی حب کی آبادی کتنی ہے کوئی نہیں جانتا، اس سنگین مسئلہ پر اقتدارِ اعلیٰ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کوئی پیش رفت ہونے کی امید نظر نہیں آرہی اور کراچی کی غیر فطری آبادی میں اضافے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے تمام صوبوں بلکہ افغانستان سے بھی شب و روز نقل مکانی کا بے قابو جن شہر کے وسائل نگل رہا ہے اور اس کے بدلے مقامی لوگوں پر زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔ پینے کا صاف پانی، طبی سہولیات کی کمی، تعلیم ، روزگار ، رہائش کا دسترس سے دور ہونا، صفائی و ستھرائی، غربت میں اضافہ، ناخواندگی ، پبلک ٹرانسپورٹ ، انفراسٹرکچر کی زبوں حالی۔
ماحولیاتی آلودگی سمیت تمام مسائل کی بنیادی وجہ غیر فطری انسانی آبادی کا دباؤ ہے جس کا خمیازہ شہر کے مستقل باشندے بھگت رہے ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ اور موجودہ حالات پر نظر ڈالیں تو بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کراچی کی مردم شماری کے پس پردہ اصل تنازعہ کی بنیادی وجہ وسائل اور اس کی تقسیم ہے اور یہ آسانی سے حل ہونا ممکن نہیں۔شہر کے روشن مستقبل کا انحصار یہاں کی انسانی آبادی کے درست تعین سے وابستہ ہے۔ وسائل محدود ہیں ۔ موجودہ حالات شہر کے مستقل باشندوں کے لئے اقتصادی و معاشی تحفظ کے لیے ایک سنگین چیلنج ہیں۔
آبادی میں بے پناہ اضافے کے منفی نتائج پر چشم پوشی اختیار کرنا سنگین جرم سے کم نہیں۔ اس کی تمام تر ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے جو اس شہر پر پوری قوت کے ساتھ براجمان ہیں اور انہیں اقتدار کی سیاست کے لئے جنگ سے نکل کر دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اس اہم مسئلے کو قومی سطح پر بھرپور قوت سے آئین و قانون کے تحت لڑنا ہوگا اور اقتدار اعلی بھی حقائق سے چشم پوشی اختیار کرنے کے بجائے کراچی سے ” لاپتہ آبادی ” کے چسپاں لیبل کے پیچھے چھپے دردر کو محسوس کریں وگرنہ نصف صدی پہلے کا سقوط ڈھاکہ کسی اور رنگ میں خاکم بدہن ہمارے سامنے نہ آجائے۔