اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو ثقافت،مذہب اور قدرتی وسائل وہ تین چیزیں ہیں جو مل کر ہمارا ماحول اور پہچان بناتے ہیں،یہ ایک ایسے علاقے کا ذکر ہے جو بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے معاشرے میں گدر کے نام سے جانی جاتی ہے،گدر ایک تاریخی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگ باہمت اور دلیر شخصیت کے مالک ہے ہمشیہ سے حق اور سچ کو اپنا کر اپنوں کی مدد کے لئے فرنٹ لائن میں ہوا کرتے ہیں اور گدر کے تاریخی روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ یہ علاقہ ابتداء ہی سے ایک پر امن علاقہ رہا ہے۔
یہاں بسنے والے لوگوں کے رہن سہن بودوباش ایک بہتر طریقے سے چلتی چلی آ رہی ہے جو یہ بتاتی ہیں کہ گدر میں بسنے والے تمام اقوام کا گدر مشترکہ گھر ہیں. لیکن پسماندگی میں بلوچستان کے دیگر علاقوں سے زیادہ پسماندہ ہے جو سوراب شہر سے تقریباً 7 کلو میٹر دوری سے شروع ہو کر 30 کلو میٹر کے فاصلے پر گدر کے مرکزی علاقے آباد ہیں،علاقہ گدر کئی سالوں سے صحت و تعلیم جیسے اہم بنیادی سہولتوں سے محرومی کے شکار ہے،صحت و تعلیم کا ذکر میں اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ یہ بسنے والے لوگوں کے بنیاد حقوق ہیں لیکن موجودہ دور میں گدر کے رہائش پزیر لوگوں کو دونوں سہولیات میسر ہی نہیں ہیں۔
علاقے میں صحت کے بہت سے مراکز ہیں لیکن سب صرف اور صرف نام کے ہیں بہت سے شہریوں کو صحت کے مراکز سے کوئی ریلیف نہیں مل رہا جبکہ نیشنل پچاسی روڈ یعنی سی پیک روٹ پر آئے روز حادثات رونما ہو رہے ہیں ان حادثات میں زخمی ہونے والوں کو جب ابتدائی طبی امداد دینے کے لیے گدر کے صحت کے مراکز آر ایچ سی ہتھیاری لایا جاتا ہے تو وہاں روڈ ایکسیڈنٹ کے انجیکشن سمیت اکثر سہولیات کے فقدان ہونے کے باعث کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتے ہیں، زرائع کے مطابق کئی عرصوں سے آر ایچ سی ہتھیاری میں روڈ ایکسیڈنٹ کے انجیکشن اے ٹی ایس دستیاب ہی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ایکسرے مشین کا نام نشان تک نہیں ہے کچھ عرصہ قبل اس وقت کے سیکرٹری صحت دوستین جمالدینی نے آر ایچ سی کا دورہ کیا تمام تر بنیادی سہولیات کو پورا کروانے کی یقین دہانی کروائی اور ایکسرے مشین،لیب کے تمام تر سامان اور دس نئے بیڈز کا اعلان بھی کیا لیکن وہ اعلان بھی پہلے جیسے ادوار کے اعلان کی طرح ہوگئے آج تک ان کے اعلانات پر کوئی پیش و رفت نہیں ہوئی اور اب تک کچھ نظر نہیں آ رہی. اب آپ لوگوں کو اندازہ ہوگا کہ گدر کے دیہی علاقوں میں واقع صحت کے مراکز کا کیا حال ہوگا. اور دوسری جانب تعلیم کی بات کی جائے۔
تو گدر میں تعلیمی نظام کا اللہ ہی حافظ ہے اس وقت ڈسٹرکٹ سوراب میں کل سکولوں کی تعداد 224 ہیں جن میں گدر کے گرلز اور بوائز سکولز شامل ہیں ان سکولوں میں اکثر سکولز صرف اور صرف سرکاری کھاتے میں چل رہے ہیں لیکن یہاں آکر اگر دیکھا جائے تو حقائق اس کے برعکس ہیں،ڈی ڈی او میل اور فیمیل تعلیمی نظام کو بہتر بنانے سے قاصر ہیں،اس سارے نظام کو لاگو کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ محکمہ تعلیم کے غفلت اور لاپروائی ہی کے وجہ سے لاگو ہے،جب عالمی وباء کرونا وائرس کی وجہ سے ملک بھر میں بند سکولوں کو کھولنے کا اعلان کردیا گیا۔
تو اس وقت ڈویڑنل ڈائریکٹر آف ایجوکیشن قلات نے گدر کے گورنمنٹ بوائز اینڈ گرلز ہائی سکولوں کا دورہ کیا اور کرونا وائرس سے بچاؤ کے تدابیر کا جائزہ لے لیا لیکن اس کے بعد دوسرے آفیسراں نے بہت کم سکولوں کے وزٹ کیے ہیں اور جبکہ گدر کیتحصیل ہونے کی بات کی جائے تو تحصیلی لیول پر گدر بھی کئی اہم اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں علاقے میں نہ لیویز تھانہ ہے نہ کہ پولیس تھانہ اگر خدانخواستہ کوئی مسئلہ ہو جائے تو سوراب سے فورس طلب کی جاتی ہے اس وجہ سے اب علاقہ امن کی طرف نہیں جا رہا یعنی چوری،ڈکیتی کے وارداتوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اور گدر شہر میں نہ سرکاری بینک ہے نہ نجی بینک ملازمین،زمیندار،کاروباری حضرات،طلباء سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں کو دوسرے علاقوں کی طرف جانے سے کئی مشکلات درپیش ہیں اور وقت بھی اجازت نہیں دیتا کہ بڑی رقوم دوسرے علاقے لے جائے اور اگر گدر بازار کی طرف دیکھا جائے تو بازار کو کوئی سہولت میسر نہیں،نہ پانی نہ کہ اسٹریٹ لائٹ اور سرکاری چوکیدار بھی. نہیں ہے چور تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی دوکانوں میں ڈکیتی کی ہے، کسی سیاسی،سماجی،و قبائلی شخصیات نے گدرکے بنیادی سہولیات کے حوالے سے آواز بلند نہیں کی ہے..
اب آپ مجھے بتائیں کہ اس سارے نظام کے ذمہ دار کون ہے…؟
گدر کے شہری یاکہ متعلقہ اداروں کے آفیسراں کسی کو پروا ہی نہیں کہ وہ اپنا فرض نبائے لوگوں کے حقوق کا ان کو پتا ہی نہیں ہے.اور اب امر اس بات کی ہے کہ
کون ایکشن لے گا…؟
کون اس پسماندگی کو دور کرنے میں مسیحا بن کر گدر کے رہائشیوں کا مشعل راہ بنے گا یا پھر لوگوں کی کامیابی کے لیے جدوجہد کا پہلا اینٹ رکھے گا…… ؟
کون اس نظام کو بہتر بنانے میں صف اول پر اپنا کردار ادا کرے گا……؟
کسی سے سنا ہوگا کہ وہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی جس میں خود کو بدلنے کی اہلیت نہ ہو. لہٰذا اب کہنا بجا نہ ہوگا کہ موجودہ نظام کو بہتر بنانے کے لیے خود کو ایک ذمہ دار فرد سمجھ کر قومی فرض نبھانا ہوگا، یہاں کہ آفیشلز،ڈاکٹرز،سیاست دان،سماجی ورکرز،قبائلی معتبرین،طلباء ،علماء اور معاشرے میں اہم کردار ادا کرنے والے قابلِ احترام طبقہ ٹیچرز اپنے مستقبل کے نسل نوع اور غریب. نادار عوام کی خدمت کے لئے کمر باندھ کر پیٹ پر پتھر رکھ کر نکلیں اور ایک بہتر مستقبل اپنا کر ہی سکھ کا سانس لیں، یہ بہت مشکل کام ہی کیوں نہ ہو لیکن ناممکن نہیں ہے اللّہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و دانش کی وجہ سے تمام مخلوقات سے اشرف المخلوقات اسے لیے بنایا تاکہ وہ اپنی زندگی آسان بنانے میں خود اہم کردار ادا کر سکیں۔۔