|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2021

(Balochi: Towards a Biography of the Language )
By Brain Spoone: Universty of Pennsylvania.ٍ
تعارف : ( Introduction ) :۔
ایلفن بین کے مطابق بلو چستان (ایران ،افغانستان اورپاکستان )میں جہاں جہاں تحقیق ہوئی ادیب اور ماہر ین لسا نیات کے مطابق بلوچی زبان بولیوں کی ایک زنجیر(series of dialects ) ہے۔بلوچ آپس میں ان بولیوں کو سمجھتے ہیں ۔فرق صرف الفاظ(vocabulary ) اور بلوچی پر ہمسایہ زبانوں خاص کر فارسی کے اثرات تک محدود ہے۔بلوچی 3 سے5 ملین بلوچوں کی زبان ہے، جو پاکستان ،افغا نستان ، ایران، خلیج فارس کے ممالک،ترکما نستان ،مشرقی افریقہ اور دنیا کئی ممالک میں آباد ہیں ۔بلوچوں کے کئی گروہ جو اس تقسیم کے سر حدوں پر تھے۔

بلوچی بولنے والوں سے جدا (isolated ) ہوکر سندھ، پنجاب ،انڈیا اور دوسرے علاقوں میں آباد ہو گئے اور بلوچی بولنا ترک کردیا۔بلوچ پر جدید تحقیق کرنے والوں میں سب سے اہم حصہ دار (contributor )جوزف ایلفن بین اور کا رینا جہانی ہیںجنہو ںنے ہر ملک میں بلوچی کی سرکاری حیثیت کا لب لباب (summarise) پیش کی،جو 1989 کے وقت بلوچی کو معیاری(standardise ) بنانے اور تعلیم دلانے میں ایک فائدہ مند مواد ثابت ہوا۔‘‘اگر چہ 1638 میں قلات( جو اب پاکستان میں ہے ) میں ایک بلوچ ریاست مورثی خان ( Dynastic Khan)کی سر پرستی میں وجود میں آئی۔

لیکن یہ مر کزیت نوآبادیا تی دور میں قائم نہ رہ سکی اور بلوچی کی معیاری ہونے کا موجب نہ بن سکی۔یہ ریاست جسے بعد میں ریاست قلات (Khanate of Kalat ) کہا جانے لگا کی سرکاری زبان فارسی تھی۔فارسی انیسویں صدی تک مر کزی اور جنوبی ایشیا اورارد گرد ہر کہیں رائج تھی۔احمد شاہ درانی نے قلات پر قبضہ کرکے اسے 1740 کی دہائی کے آ خر میں وجود میں آنے والی نئی افغان ریاست میں شامل کر لیا،لیکن جلد قلات 1750 کی دہائی کے وسط میں پھر آزاد ہوگیا، اور یہ آزادی برطا نوی قبضہ 1839تک قائم رہی۔

معیاری بلوچی زبان کی تحریر کی کوششیں بلوچ قومی بیداری یعنی برطانوی قبضہ(Suzerainity 1839-1947 ) سے شروع ہوئیں۔جب قلات اور اسکی ما تحت ریاستیں 1948 میں پاکستان میں شامل ہو ئیں تو بلوچی کو پا کستان کی قومی زبانوں میں سے ایک زبان تسلیم کیا گیا۔بلوچی میں اشاعت( جسے حکومت گرانٹ دیتی ہے )میںگو کہ کچھ بو لیوں کو دوسری بولیوں پر فوقیت دی جاتی رہی ، اس کے باوجود کسی لہجہ کو معیار کی عام قبولیت حا صل نہ ہو سکی۔سوکولوا (Sokolova-1953 )نے ا س وقت تک بلوچی اشاعت (Publication ) پر ایک فائدہ مندتحقیق مہیا کی۔

افغانستان میں 1978 کی کمیو نسٹ بغاوت کے بعد ریاست نے بلوچی کو پا کستان کی طرح قومی زبان تسلیم کیا۔لیکن یہ کوشش بھی پاکستان کی طرح بے اثر ثابت ہوئی۔اس طرح کی قبولیت ایران میں بلوچی کو نہ مل سکی اور نہ کسی اور ملک میں جہاں بلوچ اقلیت میں ہیں ،ماسوائے ترکمانستان کے۔اگرچہ گزشتہ جنریشن سے خطہ میں شرح خواندگی کافی حد تک بڑھی لیکن بلوچی میں خواندگی کافی سست رہی،تقریباً نہ ہونے کے برابر۔اکثر بلوچ بچوں کو تعلیم بلوچی میں نہیںدی جا تی۔بلوچ بچے افغانستان اور ایران میں فارسی اور پاکستان میں اردو میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

اب بھی بہت کم بلوچ ان ملکوں میںبلوچی پڑھ سکتے ہیں۔اگر چہ حروف تہجی جن میں بلوچی کی چھپائی ہو تی ہے ہو بہو اردو یا فارسی کی طرح ہیں۔کو ششوں کے باوجود کہ بلوچی تحریری اور پرنٹ کے ذریعے رابطے کی زبان نہ بن سکی۔ وہ بلوچ جو اردو اور فارسی روانی سے پڑھ سکتے ہیں انہیں آسانی سے ایک صفحہ پر پرنٹ بلوچی بھی پڑھنی چاہیئے لیکن کہتے ہیں وہ اسے نہیں پڑھ سکتے اگر چہ ایک غیر مقامی سپیکر کے لیئے کوئی مشکل نہیں ۔(Baloch who read Urdu and Persia comfortably and could easly make out Balochi on a printed page,.claim to find it illegible, though there is no difficulty for a non-native speaker. )۔

یہ ایک ایسی صورتحال ہے جسکی وضاحت دونوں لحاظ سے یعنی لوگ کیسے پڑھتے ہیں اور تینوں زبانوں کی تا ریخی حیثیت (Historical Status )بیان کر نا ضروری ہے۔عام طور پر لوگ لفظ کے حروف کی آوازوں کی بجائے حروف کے اشکال کوغیر ارادی طور پر پہچان کرلفظ پڑھتے ہیں۔یہ ان زبانوں کے لیے بالکل صحیح ہے جنہیں عربی رسم ا لخط میں لکھا جاتا ہے۔کیو نکہ لکھنا لکھائی (خط) کی ایک مسلمہ اصول کے تحت کام کرتی ہے،اور اس میں حروف کو ایک خاص ترتیب سے ملایا جاتا ہے، نہ کہ ایک لفظ کے لیئے مطلوبہ حروف کی سادہ ملاپ کافی ہے۔

(Because writing works in term of established pen-strokes including particular serial combinations of letters rather than by the simple connection of whatever letters are required to form any particular word. ) ۔اردو میں اکثر مسلمہ لکھائی (Establish pen strokes )فارسی کی لکھائی (Pen strokes ) سے مختلف ہیں اور بلوچی میں لکھا ئی (Pen strokes ) فارسی اور اردو دونوں سے مختلف ہیں ۔

جو لوگ فارسی یا اردو کے عادی (Accustomed )ہیں ان کے لیئے بلوچی لکھائی انجانی ہے اس لیئے ان کے لیئے بلوچی پڑھنا بھی مشکل ہے۔عام طور پر اب بھی ایک تاریخی توقع کی جا تی ہے کہ بلوچی زبان کی لکھائی بلوچی کی بجائے فارسی یا اردو میں ہو نی چا ہیئے۔لیکن بلوچی میں شرح خواندگی یا الیکٹرانک میڈیا (non oral )میں اضافہ کے بغیربلوچی کا معیاری زبان کی حیثیت اختیارکرنا یا قومی اہمیت کا حامل ہونا مشکل ہے۔موجودہ وقت میں بلوچ اکثریتی علاقوں میں بلوچی کا استعمال مقامی سیاست اور ثقافتی پہچان کے حوالے سے کلیدی ہے۔

اس کی وجہ تاریخی حوالے سے بلوچی زبان کی عوام میں میڈیا کے طور پر استعمال ہے۔اس کے علاوہ دوسرے گروہ جو اپنے آپ کو بلوچ کہتے ہیں لیکن ایک اور زبان کا استعمال بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ان کے اور بلوچی بولنے والوں کے ما بین بلوچی رابطے کی زبان ہے۔ہم امید کر تے ہیں اگر بلوچوں میں گزشتہ نسل ( genrration )کی طرح سماجی سیاسی یکجہتی ( identity )بڑھتی رہی پھربلوچی کا استعمال الیکٹرانک میڈیا میں بڑھے گااور ایک معیاری زبان سا منے آئے گی۔افغا نستان ایران اور پاکستان میں بلوچ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں۔

جو وسائل کے لحاظ سے غریب ہیں اور تاریخی لحاظ سے قومی حکو متوں نے ان پر توجہ نہیں دی۔مو جودہ عالمگیریت (Globalisation )کے انداز سے لگتا ہے موجودہ حالت تبدیل ہوگی بلوچ اور بلوچی کے لیئے مواقع پیدا ہوں گے اگر چہ انکی پیشین گوئی اس وقت نہیں کی جا سکتی۔بلوچ اور انکی زبان کی گزشتہ چار صدی کی تاریخ نے بلوچی زبان کو جدید لسانی پالیسی کے مطالع (Modern language policy studies )کے لیئے ایک دلچسپ مقدمہ (Case )بنا دیا ہے، جس میں لسا نیات،بشریات کے ماہرین ،تاریخ دان اور سائنسی سوچ کے حامل سیاستدان ،تمام کی دلچسپی (All have a stake )ہے۔

زبان کی تبدیلی کے دوران کئی قسم کی قدرتی اعمال (Processes )کی کیفیت تفصیل سے بیان کر نے کے علاوہ اس قسم کے مطالع کی اہمیت یہ ہے کہ یہ عالمگیریت اختیار کر نے والی دنیا میں بین ا لملکی شناخت (Transnational identity ) کو اجا گرکرتی ہے۔میرا مقصد اس چیپٹر میں یہی ہے کہ اس بیا نیہ کو درست ثابت کروں ۔میں اسکی ابتدا بلوچ تاریخ کا جا ئزہ (Reviewing )لینے سے کرونگا: وہ کیسے موجودہ وطن میں پہنچے اور انکے جدید گروپوں کی ترتیب کی اہمیت کیا ہے۔اس کے ساتھ میں بلوچی زبان کی سلجھتی ہوئی حیثیت کے مضمرات کی جانب توجہ دلاؤنگا۔

آ خر میںان ملکوں کی بلوچی کے بارے موجودہ پالیسی کا خلا صہ بیان کرونگا جن کا ہم نے دورہ(Visited ) کیا ہے۔بلوچی زبان بلوچ تاریخ کے تناظر میں:۔( Balochi in the Light of Baloch History )۔خانہ بدوش اور سکونت پذیرزراعت پیشہ لوگوں کے ما بین تاریخی تعلق کے بارے ابن خلدون کا خاکہ (Model )صحیح ہے۔قلات خا نیت، کے علاوہ بلوچوں نے زراعت پیشہ لوگوں پر قابو پا نے کی کئی کوششیں کی ہونگی لیکن ان میں سے کوئی اتنا تاریخی طور مشہور نہ ہوا ۔سب سے مشہور تالپور بلوچ ہیں جنہوں نے سندھ پر انگریز قبضہ 1843؁ تک حکومت کی ۔

دوسری مثال لسبیلہ کی ہے جسکی بنیاد ایک بلوچ جسکا تخلص جام تھا نے 1742؁ میںرکھی۔ان دونوں حالات میں مقامی آبادی سندھی تھے،اس کے باوجود سندھی زبان سولھویں صدی سے تقریباً تحریری زبان ہو گئی تھی شرح خواندگی بہت کم تھی اور حکمران خاندان کی زبان بلوچی تھی۔بلوچی زبان میں لکھی سب سے پہلی عبارت(The earliest extant text )جو 1820؁ کے لگ بھگ لکھی گئی ایک پیغام(ms ) ہے جو برطانوی میوزیم میں محفوظ ہے اور ایلفن بین نے اسے 1983؁ میں شائع کیا۔یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب خطہ میں کئی تحریری زبانوں نے فارسی کے ساتھ دوڑ میں شامل ہو نے کی ابتدا کی تھی۔

بلو چستان کا وہ حصہ جو برطا نوی زیر تسلط تھا، اس نو آبادیاتی دور میں بلوچی مواد کا کتابی صورت میں اشاعت آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔اس وقت پہلی بارقلات پھر لسبیلہ جوسمندر کے ساحل پرہے اور قلات کی مغربی ماتحت ریاستیں خاران اور مکران کو برطا نوی حکومت نے پرنسلی سٹیٹ (Princly States ) تسلیم کیا۔ایک صدی بعد اگست 1947؁میں برطانوی ہند کی تقسیم کے سات ماہ بعد آزادی کے لیئے جس مدد کی ضرورت تھی وہ نہ ملنے کی بنا بلو چستان پا کستان میں شمولیت پر راضی ہو گیا۔اب بلوچی مغربی پاکستان کی چار میں سے ایک صوبے کی زبان بن گئی۔

پھر 1952؁ میں چاروں بلوچ پرنسلی ریاستیں ،قلات، مکران ،لسبیلہ اور خاران کو ملا کر مغربی پا کستان میں ’’بلو چستان سٹیٹس یو نین‘‘ کی تشکیل کی گئی۔اور خان قلات کو خان اعظم کہا گیا۔یہ انتظام 1955؁ تک چلتا رہا۔پھر اس سٹیٹس یو نین کو مغربی پا کستان کے ون یو نٹ صوبہ میں ضم (Absorbed )کیا گیا۔اس کے ساتھ برطا نوی بلو چستان جسکی سر حد افغا نستان سے ملتی ہے جسے پہلے کلکتہ اور پھر دہلی سے کنٹرول کیا جاتا تھا بھی شامل تھا۔موجودہ پاکستانی صوبہ بلو چستان جس میں سابقہ تمام حصے شامل ہیں1971 ؁ میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعدبنا یا گیا۔

اس وقت سے بلو چوں میں کئی تحریکیں اٹھیں۔( جن کے لیڈر وہ لوگ تھے جو پاکستان میں انضمام سے مکمل اتفاق نہیں کرتے تھے)۔جو پاکستان سے آزادی چاہتے تھے یا کم از کم مر کزی حکومت (پہلے کراچی اب اسلام آباد ) سے تعلقات پر دوبارہ بات چیت چاہتے تھے۔طارق رحمان (1966 ) نے بلوچی کی درجہ بندی پاکستان کے 65 زبانوں میں سے ایک کی حیثیت سے کی۔انکے مطابق بلوچی 6 سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔لیکن یہ وہ زبان نہیں جو قومی لحاظ سے تسلیم شدہ ہو یا فائدہ مند قا بلیت (But not one that can be used for any form of nationally recognised or useful qualification. )کے لیئے استعمال ہو تا ہو۔

طارق رحمان کے مطابق بلوچی3.57% بلوچوں کی زبان ہے۔اس کے مطابق بلوچی ایک مضبوط شناخت کی علامت (Strong identity symbol ) ہے۔اگر چہ بلوچستان صوبہ ملک کے 43% رقبہ پر مشتمل ہے اور بلوچی اس صوبہ کی بڑی (Primary ) زبان ہے لیکن اس زبان کی معاشی اور سیاسی فوائدکے حوالے سے کوئی اہمیت نہیں (But of no value for either economic or political advantage ) ہے۔ بلوچوں اور خاص کر مری اور بگٹی قبائل کی جو بلوچستان کے شمال مشرق میں ہیں ۔

اسلام آباد کی مرکزی حکومت سے عداوت بڑھی۔1973 میں عراقی سفارت خانہ سے ہتھیاروں کی برآمدگی جنہیں مبینہ طور پر مری علاقہ پہنچانا تھا کی وجہ سے بلوچ شورش کو دبانے کے لیئے حکو متی کو ششیں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچیں ۔اس کے نتیجہ میں بلوچ سیاسی شناخت کی سوچ میںاضافہ ہوا۔1974 میں مریوں نے مکمل بغاوت کی کچھ نے جنوبی افغا نستان میں ہجرت کی جہاں وہ دس سال سے زیادہ عرصہ تک رہے لیکن مسئلہ حل نہ ہوا۔نام کی حد تک بلوچوں کو جدید پا کستان میں کافی صوبائی خود مختاری حاصل ہے جس کے تحت انتخابات ہو تے ہیں۔

اور صوبائی حکومت بنتی ہے۔بہر حال بلوچ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے میں مکمل ناکام رہے ۔اسکی ایک وجہ برطانوی دور میں پرنسلی سٹیٹس کی بنیاد پر لوگوں کی تقسیم ہے اور دوسری وجہ افغا نستان کے ساتھ برٹش بلو چستان کی بڑی پشتون آبادی کا بلو چستان میںشامل ہونا ہے۔بلوچ اور پشتون تعلقات پیچیدہ ہیں کیو نکہ دونوںمیں سیا سی مر کزیت نہیں ۔تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے وہ آپس میںنزدیک ہیں۔بلو چی اورپشتو دونوں ایرانی زبا نیں ہیں۔ لیکن انکا آپسی تعلق دور کا ہے۔آپس میں با لکل سمجھ نہیں پا تے۔اگرپہلے نہیں تو اٹھارھویں صدی کے نصف میں جب بلوچ افغان سلطنت میں ضم کیے گئے ۔

شمالی بلوچستان میں افغانستان بارڈر کے دونوں جانب ایک عبوری زون (Tramsitional Zone ) ہے جہاں دونوں شناخت کے لوگ آباد ہیں ۔شواہد ہیں کہ پچھلے دو سو سال کچھ پشتون بلوچ شناخت میں جذب(Assimilated ) ہو گئے۔بارتھ(Barth ) نے 1966 میں اس عمل(Process ) کی ایک دلچسپ توضیح (Explanation ) بیان کی کہ گزشتہ صدی کے نصف میں پشتونستان کی تحریک جسکی سر پرستی کابل کر رہی تھی نے تمام بلو چستان کو پشتو نستان کا حصہ قرار دیا۔
ایران میں بلو چوں کی سیاسی تحریک مختلف ہے لیکن باہم جڑی (Interrelated )ہے۔

یہ فرق کسی حد تک قلات سے دوری اور خان کے پہنچ سے باہر ہونا ہے، لیکن اہم وجہ بڑی حکو متوں کابل ،دہلی اور تہران کی اس خطہ میں مفادات میں اختلافات تھے۔سیا سی تحریکیں تہران کے مرکزی حکومت کے خلاف اس طرح کی ہیں جیسے پا کستانی بلوچوں کے اسلام آباد کے خلاف ہیں، لیکن انیسویں صدی کے شروع میں ایک نیا عنصر سامنے آیا۔بارکزئی نسل کی شاخ جو شاید افغا نستان کے پشتون حکمران قبیلہ درانی سے ہے ساراوان کے بلوچوں میں ظاہر ہوا۔(ساراوان اب ایرانی صوبہ بلو چستان سیستان ہے)۔

کیونکہ یہ ہرات میں درانی قبیلے کے دو بڑی شاخوں کی آپسی لڑائی(1817-1819 ) کے بعد جلد سامنے آیا ممکن ہے ہجرت اس لڑائی سے ہواہو،لیکن اسکا کوئی تحریر ی ثبوت نہیں اور نہ کوئی یاداشت میسر ہے۔آہستہ آہستہ ان بارکزیوں نے سارا وان ، بمبور اور مغربی مکران میں مقامی لیڈرشپ کی جگہ لے لی اور بلوچ شناخت میں ضم ہو گئے۔اس لیڈرشپ کی حیثیت مکران اور خاران کی طرح تھی جو برطا نیہ کے وقت پرنسلی سٹیٹ بن گئے لیکن ریاست کی ایرانی تصور(Concept )کسی قسم کی خود مختاری کو تسلیم نہیں کرتی۔ایرانی بلو چستان میں کئی اور زرعی آبادیاں ہیں جن کے نام بلوچی نہیں۔ یہ اسلام اور بلوچوں کی یہاں آمد سے پہلے آباد چلے آرہے ہیں۔ان میں سے کئی کے بارکزئیوں کی طرح مقامی حکمران تھے جو غیر بلوچ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔(جاری ہے)