|

وقتِ اشاعت :   January 26 – 2021

آج کل کا زمانہ ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔ہر گوشئہ زندگی میں نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں ان جدید اکتشافات کے سامنے عقل و خرد محو حیرت ہو جاتی ہے۔انسان ترقی کے نام پر ایسی جگہ پہنچ چکا ہے جس کا اس نے کبھی وہم و گمان بھی نہیں کیا تھا۔خدا باری تعالیٰ سے اشرف المخلوقات کا درجہ پانے والا انسان اپنی جوانمردی،مستقل مزاجی، محنت سے،تجرباتی،تجزیاتی اور تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر فلک کے ستاروں پر قدم رکھ چکا ہے۔جہاں ہم اور آپ رہتے ہیں،طرح طرح کی نت نئی جدید ترین ایجادات کو دیکھتے ہوئے ہمیں وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں۔

اور دماغ کے دریچوں میں عجیب خیالات جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں کہ یہ سب کیسے ہوا؟ دنیا کو اس جدید ترین کامیابیوں سے ہمکنار کرنے والے کامیاب و کامران ترین انسانوں نے تاریخ کے اوراق میں اپنا مقام و مرتبہ لکھوا کر دنیا کو نئی جدت اور سمت دی۔دنیا کے کامیاب ترین ان لوگوں نے کسی بھی آزمائش میں ناکام ہونے پر نہ تو اپنے آپ کو کوسا اور نہ حالات کی مجبوریاں پر نوحہ کناں ہوئے اور نہ ہی یہ جملے کسے کہ قسمت اور تقدیر میں یہی لکھا تھا۔انہوں نے ناکامی کو ہی پہلی کامیابی سمجھ کر مسلسل محنت کا سہارا لیا،تگ ودو اور جدوجہد کی، تب جا کر انہیں ایسا مقام ملا جن کی مثالیں آج لوگ دیتے ہیں۔

لکھتے ہیں،پڑھتے ہیں اور سناتے ہیں۔ یاد رکھیے کامیابی ہمیشہ ان کو ہی ملتی ہے جو اپنے ارادوں پر یقین کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں اور مسلسل محنت کرتے ہیں۔دنیا میں کامیابیوں کی بلندیوں کو چھونے والے کامیاب لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی گزرے ہیں۔جنہوں نے زندگی میں کچھ بڑا اور نیا کرنے کا سوچا تھا تو لوگوں نے ان کا مذاق بنانا شروع کر دیا تھا۔ان کے اردوں کو لوگ محض خیالی پلاؤ جیسے لفظوں سے نوازتے تھے۔ان کی سوچ پر ان کے مخالف قہقہے لگاتے تھے،یہ ایک تلخ حقیقت ہے کامیابی تک لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور کامیابی کے بعد فین بن جاتے ہیں۔

نیوٹن جو سکول میں ہر بار ریاضی میں فیل ہو جاتا تھا،بہت بڑا سائنسدان اور ماہر ریاضی بنا اس نے دنیا کو “قانون حرکت”جیسے سائنسی اصول عطا کیے۔سقراط جسے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی فلسفے کی دنیا کا گرو مانا جاتا ہے جس کے اقوال ساری دنیا گوگل پر سرچ کرکے پڑھتی ہے۔اسے شروع میں لوگوں کی طرف سے “فحش کرپٹر” کا خطاب دیا گیا تھا کہ یہ نئی نسل کو تباہ کر رہا ہے۔اس نے جو محسوس کیا وہ آخری وقت تک لکھتا رہا اور اپنے فلسفے میں بدنام ہوتا رہا،یہاں تک کہ اس نے آخر کار زہر کھا کر خودکشی کر لی۔

وہی سقراط آج کے ترقی یافتہ دور میں فلسفے کے گنے چنے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ مانا جاتا ہے اور اس کی سنہری باتیں آج بھی لوگوں کو روشنی دیکھاتی ہیں۔دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان آئن اسٹائن جس نے ہوائی جہاز بنا کر دنیا کو دیا،جب پیدا ہوا تو چار سال کی عمر تک کوئی لفظ نہیں بول سکتا تھا۔سات سال تک پڑھائی نہ کر سکا۔سکول والوں نے اس کو یہ کہہ کر سکول سے نکال دیا کہ تم خوابوں کی دنیا میں رہتے ہو۔اب اس کے پاس دو راستے تھے یا تو زندگی سے مایوس ہو جاتا اور گمنامی کی زندگی گزارتا لیکن اس نے کوشش کی،جدوجہد کی،محنت کی اور دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان بن کر دکھایا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آئن اسٹائن ہوائی جہاز بنانے میں 700 بار ناکام ہوا تھا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور آخر کار اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ہوائی جہاز بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔تھامس ایڈسن ایسے لوگوں میں سے تھا جس نے بلب کی موجودہ شکل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک ہزار مرتبہ کوشش کی تھی۔اگر وہ اس قانون کو جان کر کہ بغیر محنت اور کوشش کے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی پر اعتقاد رکھنے والا نہ ہوتا تو شاید دس بار ناکامیوں کا منہ دیکھنے کے بعد اپنے نظریے کو سمٹ لیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے نظریے پر صبر و تحمل اور ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹا رہا۔

آخر کار اپنی کوششوں میں کامیاب ہوا اور دنیا کو بلب کی صورت میں روشنی عطا کی۔زندگی میں کوئی بھی کامیاب انسان پہلی دفعہ ہی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا ہوتا۔ہر کامیاب انسان کے پیچھے کئی ناکامیاں،غلطیاں اور کہانیاں ہوتی ہیں۔منزل تک پہنچنے کیلیے کھٹن اور مشکل راستوں سے صبر اور حوصلے کے ساتھ گزرنا پڑتا ہے۔ہار کا خوف دل سے نکال کر مثبت اور بڑی سوچ کے ساتھ میدان میں کودنا پڑتا ہے۔ہارتے وہ ہیں جو ہار مان لیتے ہیں،جیتنے والوں کیلیے تو ہار بھی کامیابی کا حصہ ہوتی ہے۔کامیاب ہونے کے لیے زمانے کے لوگوں کی باتوں کو دل و دماغ سے نکال کر خود اعتمادی اور ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔کیونکہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے آپ کو اکیلے ہی چلنا پڑتا ہے۔

لوگ آپ کے ساتھ تب آتے ہیں جب آپ کامیاب ہو جاتے ہیں۔کٹھن،تکلیف دہ اور دشوار راستوں سے گزرنے کے بعد کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔لوگوں کے کسے ہوئے جملوں پر غور کرو گے تو دلبرداشتہ ہو کر پیچھے رہ جاؤ گے۔اپنی منزل کو نہیں پا سکو گے۔لوگ تو ہمیشہ تمہاری راہ پر پتھر پھینک کر روڑے اٹکائیں گے اب یہ تم پر ہے کہ تم ان پتھروں سے خود کے لیے مشکلات کی دیوار بناتے ہو یا کامیابی کا پْل۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں بھی یہی فرماتے ہیں کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یاد رکھنا کامیابی مسلسل کوشش کرنے سے ملتی ہے،رسک لینے سے ملتی ہے،خود کو بدلنے سے ملتی ہے۔ان سب باتوں پر عمل پیرا ہو کر آپ بھی دنیا میں کامیاب و کامران ہو سکتے ہیں اور تاریخ میں اپنا نام سنہرے الفاظ میں لکھوا سکتے ہیں۔