آج دنیا ترقی کے منازل طے کرتی جارہی ہے اس سے لوگ ذیادہ سے ذیادہ مستعفید ہورہے ہیں یہ ترقی زندگی کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ علمی حصول میں بھی لائی گئی ہے لوگ انٹر نیٹ کے ذریعے تعلیم کے حصول کو یقینی بنارہے ہیں اور اس انٹر نیٹ کی دنیا سے استعفادہ حاصل کررہے ہیں مگر انٹر نیٹ کی جتنی سہولیات فراہم کی گئی ہیں اس سے ہٹ کر لا علمی میں بعض نقصانات بھی وقوع پزیرہورہے ہیں انٹر نیٹ نے لوگوں کو کتب بینی سے کافی دورکردیا ہے کیونکہ دورجدید سے پہلے علم پرمہارت رکھنے والے لوگوں نے اپنی تمام ترصلاحتیں کتابوں میں پوشیدہ کرکے محفوظ کروادیںہیں۔
تھیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے ہمارے شعراء ادیب مصنف اپنے لفظوںکے سمندر کو اپنی تحریر کردہ کتابوں میں محفوظ کررہے ہیں تاکہ کتابوں سے سیکھنے کا عمل دیرپا ثابت ہوسکے اگر بات کی جائے توہمارے یہ لکھاری ہمارے اثاثہ ہیں جنہوںنے اپنی زندگیوں میںآنے والی اونچ نیچ دیکھنے کے بعدآنے والی نسلوں کو ایسے واقعات سے محظوظ رکھنے کیلئے اپنی ساری زندگی میں پیش آنے والے لمحات کو کتابوں میں محفوظ کرلیا ہے تاکہ نئی نسل کو کسی قسم بھی قسم کے مشکلات سے دوچار نہ ہونا پڑے اس لئے ضروری ہے کہ کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔
اور یہ تمام علم کتابوں میں محفوظ ہے جوتاحال یہ تمام علمی ذخیرہ انٹر نیٹ میں شامل نہیں ہے جس کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ لوگ انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ کتب بینی کی جانب بھی توجہ مرکوز رکھیں جب معاشرہ کتب بینی کی جانب آئے گا اور کتاب کو سمجھنے کے بعد اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کرے تووہ کتب بینی کے شوق سے وسیع پیمانے پر فوائد حاصل کرئے گا گزشتہ دنوں لٹریری فورم نصیرآباد کی جانب سے لوگوں کو ایک بہترین کتاب دوست ماحول فراہم کرنے کے لئے اس میلے کا انعقاد کیا گیا کتاب میلے کا افتتاح کمشنر نصیرآباد عابد سلیم قریشی نے کیا ڈپٹی کمشنر نصیر آباد حافظ محمد قاسم کاکڑ ایڈیشنل کمشنر نصیرآباد شیخ اعجاز احمد جعفر تحصیلدار بہادر خان ۔
کھوسہ مقامی ادیب و شعراء پروفیسر عبدالقیوم جوہر بنگلزئی شمس ندیم،محمد پناہ بلوچ ،شاہ فیصل محمد حسنی بہادر علی تنیو ، عبدالسلام بلوچ،اعجاز بلوچ ،صحافی براداری سمیت و دیگر افسران اور کتب بینی کا شوق رکھنے والے لوگوں کی ایک کثیرتعدادشریک تھی جو کہ مختلف اسٹالوں پر رکھی گئی کتابوں میں دلچسپی رکھنے کے علاوہ نے خریداری میں دلچسپی لی۔ کتب میلے میں صوبے کے مختلف علاقوں کے بک ہاؤسز کے مالکان نے اپنے مختلف اسٹالز لگا رکھے تھے جو کم قیمت میں کتابیں فروخت کررہے تھے تاکہ لوگوں میں کتب بینی کا شوق پیداہو لوگوں کی کتابوں میں دلچسپی قابل دید تھی کمشنر نصیرآباد اور دیگر افسران نے مختلف اسٹالز پر رکھی گئی۔
کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان میں گہری دلچسپی لی نصیر آباد میں کتب میلے میں آئے ہوئے بڑی تعداد میں لوگوں نے یہ ثابت کر دیا ۔کہ آج بھی لوگ کتب سے شوق رکھتے ہیں یہی شوق انہیں اپنی اور معاشرے سے روشناس کرائے گا اپنی تہذیب و تمدن سے لوگ قریب ہوں گے کیونکہ ہماری تہذیب اور ثقافت انھیں کتابوں کے سینوں میں سمائی ہوئی ہے جب تک ہم ان کتابوں کو کھول کر صحیح معنوں میں دلجوئی کے ساتھ نہیں پڑھتے تب تک ہم اپنی تہذیب کو نہیں سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ان کی کتابوں ہی کی بدولت ہمیں معاشرے کو دیکھنے سمجھنے اور پرکھنے کا درس ملے گا۔
اور جب ہمیں یہی سمجھ بوجھ ان کتابوں سے حاصل ہوگی تو ہم اپنے وسائل کے استعمال اور اپنے مسائل کے حل کی لیے اس جانب راغب ہونگے اسی لیے کتابوں کو انسان کی تیسری آنکھ بھی کہا گیا ہے کیونکہ اسی آنکھ کی بدولت وہ دنیا کو صحیح معنوں میں دیکھ اور سمجھ سکیں گے کتابوں کاشوق ہی لوگوں کو اس طرف لے جا سکتا ہے جس طرف ترقی یافتہ بنانا جا رہی ہے آج جہاں دنیا میں افراتفری اور دیگر مسائل لوگوں کے سامنے ہیں تو اس موقع پر نصیر آباد میں کتب میلے کا انعقاد تبدیلی کا محرک بنے گا یہاں پر سماجی تبدیلی کے لئے انقلابی حیثیت رکھے گا یہ تبدیلی کی ایک امید اور نئی کرن ہے ۔
کیونکہ یہاں کئی لوگوں کا میلے میں آنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہاں کے لوگ کتب بینی کاشوق رکھتے ہیں لوگ کتاب کی جانب آ رہے ہیںنصیر آباد میں کتب میلے کے انعقاد ایک نیک شگون ہے کیونکہ اس طرح کے میلوں میں ہمیں پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہی ملتے ہیں مگر انٹرنیٹ کی وجہ سے کتب بینی شوق میں کمی دیکھی گئی ہے ہمیں کتب بینی کے شوق میں مزید پروان چڑھانے کے لئے مزید کام کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے اگر ہم نوجوانوں کو کتاب کے قریب لائیں گے اور وہ کتاب کلچر کی جانب زیادہ گامزن ہوں گے تو اس کے بہت زیادہ دور رس نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ کتاب ہمیں اپنی تہذیب علم دوستی اور برداشت سکھاتی ہیں۔
یہ سب چیزیں ہمیں ان کتابوں کی بدولت حاصل ہوںگی کتب میلے میں خواتین کے لیے بھی الگ انتظام کیا گیا تھا تاکہ وہ خواتین جو اپنے گھروں میں کتب پڑھتی ہیں انہیں بھی اس سرگرمی میں حصہ لینے کا مکمل موقع دیا گیا ہے کیوں کہ ذہنی پسماندگی کے خاتمے کے لیے اس طرح کی سرگرمیاں تبدیلی کا موجد ثابت ہوسکتی ہیں اورایسی سرگرمیوں کا انعقادہونا وقت کی عین ضرورت بن چکی ہے کیونکہ لوگ کتابوں کے ساتھ منسلک ہوجائیں گے تو وہ اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے صحیح راستوں کا چناؤ کر سکیں گے اور مختلف فورم پر جا کر اپنا اور اپنے علاقے کا نام روشن کر سکیں گے۔
اور تبدیلی کے محرک بنیں گے ان کے علاواہ لائبریریاں علم کا خزانہ ہوتی ہیں اور ان خزانو ںسے طلباء و طالبات کو چاہیے کہ اپنے اپنے حصے کا علم حاصل کریں اور علمی خزانے کیلئے لائبریریوںکا رخ کریں جو نوجوان نسل کی ذہن سازی کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے فراہم کردہ سہولت سے بھر پور استعفادہ حاصل کریں بلوچستان حکومت کتب بینی کے عمل کو مزید فروغ دینے کے لیے بلوچستان کے مختلف اضلاع اور ڈویژنل ہیڈکوآرٹرز میں لائبریریوں کا قیام عمل میں لا رہی ہے۔
تاکہ علم کی شمع کو مزید روشن کرنے والے افراد کو کسی پریشانی سے دوچار نہ ہونا پڑے کمشنر نصیرآباد ڈویژن عابد سلیم قریشی نے کتب میلے کی اہمیت اور افادیت کو سمجھتے ہوئے کتب میلہ کا انعقاد کرنے والوں سے ہر ممکن تعاون کرنے کا اعلان کیا اورکتب بینی کا شوق پیداکرنے کیلئے بڑی لائبریری کا قیام عمل میں لانے کیلئے بھی صوبائی حکومت سے سفارشات کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی کمشنر کے اس اعلان کو شہریوں اور عوام نے بے حد سراہااور امید ظاہر کی ہے کہ نصیر آباد ڈویژن کی لائبریری میں مزید بہترین کتب فراہم کی جائیں گی ۔
جس سے طالب علموں کوعلم کے حصول میں درپیش مسائل کا ازالہ ممکن ہوگاضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کرام اسکولوں میں بچوں کی تربیت کیلئے انہیں کتب بینی کی جانب راغب کریں تاکہ وہ ان کتابوں کے خزانوں سے اپنے ذہنوں میں لفظوں کا ذخیرہ بنا سکیں اور وہ اپنی تہذیب و تمدن کو صحیح معنوں میں سمجھ سکیں بچپن سے ہی اگر بچوں کا رجحان انٹرنیٹ کی جانب موڑ دیا گیا تو وہ ان کتابوں میں چھپے ہوئے علم کے خزانوں کو کسی بھی صورت حاصل نہیں کرسکیں گے۔اسی لئے ہمیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ کتب بینی کی جانب بھی بالخصوص توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔
کیوں کہ رائٹر اپنے الفاظوں کو ذخیرہ کرکے کتابوں کے اوراق میں محفوظ کر لیتا ہے تاکہ آنے والی نسلیں کتابوں کا مطالعہ کرکے اپنی زندگی میں بہتری لا سکیں کتاب انسان دوست ہوتے ہیں جس سے معاشرے میں علم اور ادب کے شعبے میں بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے کتابوں کے ذریعے ہم ملکی و دیگر حالات سے باخبر رہنے کے لئے کتابیں بہترین معاون ثابت ہوتی ہے کتابوں کے ذریعے انسان کو علمی خزانہ حاصل ہوتا ہے آج کے جدید دور میں مزید معلومات کی رسائی کو ممکن بنانے کے لیے کتابوں سے ہی سیکھنا اور معلومات حاصل کرنا مثبت اقدام ہے ۔
یہ کتابیں ہم سب کے لئے کسی بھی قیمتی خزانے سے کم نہیں ہیںموجودہ جدید دور میں کتابوں و انٹرنیٹ کے ذریعے علم کے حصول کو یقینی بنا یا جارہا ہے لیکن کتابوں سے مفید کوئی چیز نہیںہے طالب علموںکو کتابوں سے معاشرے کے تمام حالات و علوم سے باخبر رکھا جا سکتا ہے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ کتابوں پر خصوصی توجہ مبذول کریں تاکہ ان کے علم میں مزید اضافہ ہو سکے۔