|

وقتِ اشاعت :   January 31 – 2021

سیاسی، سماجی اور طالبہ تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ کی ادائیگی سمیت دیگر تعزیتی اجلاس منعقد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔اجلاسوں میں خواتین کی کثیر تعداد بھی شریک ہورہی ہے۔تعزیتی اجلاس اورغائبانہ نماز جنازہ سے قبل کریمہ بلوچ کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ تمپ، بلیدہ، تربت، پنجگور، خضدار، چاغی، خاران، قلات، کوئٹہ، کراچی سمیت دیگر تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں یہ خراج تحسین کا سلسلہ جاری ہے۔

بانک کریمہ بلوچ کی جسد خاکی کی واپسی سے لے کر ان کی تدفین تک خواتین اور طالبات نے کثیرتعداد میں شرکت کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے بلوچ سیاست میں خواتین اور طالبات کی بھر پور شرکت اتنی زیادہ کیوں سامنے آئی۔یہ ایک غور طلب بات ہے۔ آج بلوچ معاشرے میں بلوچ خواتین سیاسی، سماجی اور معاشرتی امور میں مردوں کے شانہ بشانہ سرگرم ہیں۔ وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہوگئیں ہیں۔ سیاسی حلقوں نے بلوچ خواتین کی سیاست میں شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بلوچ سماج میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور ان کی ملنے والی مسخ شدہ لاشیںاس کے بنیادی عوامل ہیں۔

یہاںہر دوسرے گھر میں ایک لاپتہ سیاسی کارکن ملے گا اور ہر دسویں گھر میں ایک مسخ شدہ لاش ملے گی۔ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکن روپوش ہیں۔ ان کے وارنٹ گرفتاریاں جاری ہوچکی ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر معاشرے میں سیاسی سرگرمیاں مردوں کی جگہ خواتین اور طالبات میں منتقل ہوگئیں۔ سیاسی سرگرمیوں میں خواتین اور طالبات نے جگہ لے لی جس کی مثال حال میں بانک کریمہ بلوچ کی شہادت ہے۔ حال میں بے شمار بلوچ خواتین اور طالبات مختلف سیاسی جماعتوں میں متحرک ہوچکی ہیں۔

جن میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ماہ گنج بلوچ، سمی بلوچ، حانی بلوچ، حوران بلوچ، خدیجہ بلوچ، گل بی بی بلوچ سمیت دیگر شامل ہیں۔سماجی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں موجودہ حالات کی وجہ سے خواتین کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ آئے روز چھاپے اور گرفتاریوں نے خواتین اور بچوں کو ذہنی طور پر متاثر کیاہے۔ دنیامیں جنگوں سے متاثرہ ممالک سے متعلق عالمی انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں تنازعات اور مسلح تصادم کے واقعات کی وجہ سے چھ سو تیس ملین خواتین اور بچوں کی صحت متاثر ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا کے تنازعات میں گھرے ہوئے علاقوں میں خواتین اور بچوں کی صحت کو کوئی ترجیح نہیں دی گئی اور یہ کہ عالمی برادری اس محاذ پر ناکام ہوئی ہے۔ جدید دور کی جنگ نے بنیادی سہولیات کو تباہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے صحت کے مسائل مزید پیچیدہ ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیاہے، آج دنیا کی نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ایسے علاقوں میں رہ رہے ہیں جو تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی برادری ان کی مشکلات کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔پاکستان میڈیکل ایسویشن کے ایک سینئر رہنما کے مطابق پاکستان میں گزشتہ بیس برسوں میں ذہنی اور نفسیاتی امراض بڑھے ہیں۔

جب کہ عمومی طور پر خواتین اور بچوں کی صحت بھی متاثر ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ظاہر ہے ہمارے ہاں جو حالات رہے ہیں جن میں بلوچستان سرفہرست ہے اس کی وجہ سے کسی کا بھائی اور کسی کا باپ مارا گیا۔ جس کی وجہ سے ایک طرف نفسیاتی اور سیاسی مسائل میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف کمانے والے افراد کی موت کی وجہ سے لوگوں کے مالی وسائل بھی محدود ہو گئے۔اس سے سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوئے۔ ان کی بیماریوں میں وسائل کی کمی کی وجہ سے شدت آئی اور اس کا کسی نہ کسی طرح تعلق ان مسلح تنازعات سے بھی ہے۔

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ماؤں کی شرح اموات پہلے سے ہی بہت زیادہ ہے۔ اس میں موجودہ حالات کی وجہ سے شدت آئی ہے کیونکہ ہسپتال تو دور کی بات، کئی اور سرکاری عمارتیں بھی کشیدگی کے شکار علاقوں میں بند پڑی ہیں،یاغیرفعال ہیں۔ خاران، پنجگور، گوادر کے نواحی علاقے، تربت کے دیہی علاقے، ڈیرہ بگٹی اور کوہلو سمیت کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سرکاری عمارتیں خالی پڑی ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خواتین اور بچوں کی صحت متاثر ہوئی ہے۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے ایک عرصے سے یہ خطہ جنگ کی زد ہے۔

جس کی وجہ سے صحت کا نظام عمومی طور پر بہت متاثر ہوا ہے اور اس کا اثر بچوں اور خواتین پر زیادہ پڑا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ماں اور بچے کی شرح اموات بعض معاملات میں افریقہ کے ممالک سے بھی بد تر ہے۔ امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے کئی ہسپتال اور بنیادی صحت یونٹس تباہ و برباد ہو گئے۔ اس وجہ سے علاج کی سہولیات میسرنہیں ہیں۔بڑے پیمانے پر تشدد کی وجہ سے نفسیاتی مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بعض تعلیمی ادارے اور صحت کے مراکز چیک پوسٹوں میں تبدیل ہوگئے۔

ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں صحت کی سہولیات میسر نہ ہونے کے سبب سالانہ کافی اموات واقع ہوتی ہیں جس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جس کو اگر عالمی اداروں کے ایک رپورٹ کے تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا بھر میں زچگی کے دوران موت کے شکار ہونے والی خواتین میں بلوچستان پہلے نمبر پرہے۔ یعنی صحت کی سہولیات کی فقدان کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر بھی عورت ہو رہی ہے۔بلوچستان میں تعلیمی نظام تباہی کے دہانے پر ہے اسی نظام تعلیم میں خواتین کی خواندگی کی شرح پچیس فیصد سے بھی کم ہے۔

تو اسکی وجہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کا فقدان ہے.بلوچستان میں پدرشاہی نظام عورتوں کی تعلیمی حصول میں رکاوٹ نہیں بلکہ میلوں دور چند ایک اسکولوں کا قیام اور اعلیٰ تعلیم محض بڑے شہروں تک محدود ہونا خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے کا سبب بنا ہوا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی حراسگی کا واقعہ, یا کہ بولان میڈیکل کالج کے خواتین کو رات گئے ہاسٹل سے باہر نکال دیا جانا یہ تمام واقعات خواتین کو تعلیم سے مزید دور کرنے کے لیے ہونے والی سازشوں کی کڑی ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں خواتین مردوں کے مقابلے میں کیوںزیادہ سے زیادہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔

یہ دراصل مندرجہ بالا حالات ہیں۔ ویسے بھی بلوچستان میں ایک سیاسی ڈھانچہ موجود ہے۔ اس سیاسی کلچر نے خواتین کو مزید فعال کردیا ہے۔ یہاں کی سیاسی تنظیموں نے ہمیشہ جمہوری تحریک، مظلوم اقوام، محکوم طبقات کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑا ہے ترقی پسند جمہوری طلباء تنظیموں کی تشکیل و اتحاد میں بنیادی کردار ادا کرتا رہا ہے۔اس وقت بلوچستان میں طالبہ تنظیموں کی سیاست عروج پر ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنے قیام سے لے کر ہنوز بلوچ تحریک کا ہراول دستہ ہے ، بلوچ سیاست کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ واحد انقلابی ریڈیکل تنظیم ہے۔

انقلابی سیاست کا معمار ہے۔ جب بانک کریمہ بلوچ نے بی ایس او کی چیئرمین شپ سنبھالی تو انہوں نے بلوچ طالبات کو سیاسی کی طرف راغب کیا اور وہ اس مقصد میں کامیابی بھی ہوگئیں۔ آج بلوچ طلبہ سے بلوچ طالبات زیادہ سیاسی طورپر باشعور اور سرگرم ہیں جس کا سہرا باننک کریمہ کا سر جاتا ہے۔