سب سے پہلے میں سوشل میڈیا پر کچھ پوائنٹس رکھنا چاہتی ہوں جو کہ میری نظر میں بہت ضروری ہیں اور وہ یہ کہ سوشل میڈیا سے ہم کیا سیکھ رہے ہیں یا ہمارے بچے کیا سیکھ رہے ہیں ۔سوشل میڈیا پر روز نیوز ہوں یا ڈرامہ ہوں کیا دکھایا جا رہا ہے اور کیا دیکھ کر ہم سیکھ رہے ہیں اور ہمارے بچوں پر سب سے زیادہ اثر کیا ہو رہا ہے جب ہم چھوٹے تھے مجھے یاد ہے اس وقت دو چینل آتے تھے پی ٹی وی اور ایس ٹی این تب کے سوشل میڈیا میں اور آج کے سوشل میڈیا میں بہت زیادہ فرق ہے ہمارے وقت میں جو ڈرامے دیکھے جاتے تھے وہ پوری فیملی ساتھ بیٹھ کر دیکھتی تھی اور آج جو دکھا جا رہا ہے۔
وہ فیملی کے ساتھ تو دیکھنے کے قابل نہیں ہے اور اس میں کیا دکھایا جا رہا ہے سب جانتے ہیں کہ کس طرح کے ڈرامے کارٹون فلم یہاں تک کہ اشتہار تک فیملی کے ساتھ ہوں تو دیکھ کر شرم آ جاتی ہے اور کسی کو کوئی پرواہ نہیں ۔سب سے پہلے نیوز میں دیکھ لیں کہ روز قتل و غارت ،چوری چکاری، جنسی تشدد اور جنسی زیادتی اور روز کوئی نہ کوئی ایسی خبر سامنے آ جاتی ہے جس سے انسان ذہنی امراض میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ ٹی وی چلتے ہی کوئی خوشی کی خبر سننے کو نہیں ملتی سب کے سامنے ہے کہ روز نیوز میں بس یہی بتایا جاتا ہے کہ آج اتنے ہلاک ہو گئے آج راہ چلتے ہوئے کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔
آج اتنی مہنگائی بڑھ گئی آج اتنے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد یا جنسی زیادتی کے کیس سامنے آ ئے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک ڈاکٹر نے اپنی ہی بیٹی کو قتل کر کے خود کشی کر لی اسکے بعد پھر ایک ڈاکٹر کو قتل کر دیا گیا کیا ۔نیوز چینلز بس ایسی ہی خبروں کے لئے رہ گئے ہیں کیا کبھی ہمیں سکون اور خوشی کی خبریں نہیں مل سکتیں ؟اب بات کرتے ہیں ہمارے ڈراموں کی، کیا دکھایا جا رہا ہے اور ان سے کیا سیکھا جا رہا ہے جب ہم چھوٹے تھے تو ایسے ڈرامے ہوتے تھے جن کو دیکھ کر خوشی بھی ہوتی تھی اور مزہ بھی آتا تھا اور اچھا سیکھنے کو ملتا تھا اور آج کتنے انٹرٹینمنٹ کے چینلز بن چکے ہیں۔
اور ان میں کیا دکھایا جا رہا ہے اور ان سے ہم یا ہمارے بچے کیا سیکھ رہے ہیں۔ جو بھی چینل لگا لو اس میں جو بھی ڈرامہ ہو گا اس میں یا تو گھر تباہ کرنے کا سبق دیا جا رہا ہے یا پھر بچوں کو وحشی بننا سکھایا جا رہا ہے اور اسلام کی بات تو بھول ہی جائیں کیوں کہ اب نہ تو ہمیں پرواہ ہے کہ صبح تلاوت قرآن سننا ہے یا اپنے بچوں کو سناتے ہوئے ان کو اسلام کی جانب راغب کرنا ہے بلکہ صبح اٹھتے ہی کارٹون لگانے ہیں جس میں فحاشی دکھائی جاتی ہے بچوں کو یہ دکھایا جاتا ہے کہ کس طرح اپنا کام دوسروں سے کروانا ہے اور خود والدین سے باتیں چھپانی ہیں اور ڈراموں میں بھی تو یہی سکھایا جا رہا ہے۔
کیسے چوری کرنی ہے بڑوں کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کے لئے جھوٹ بول کر فساد کروانا ہے اتنا ہی نہیں جنسی تشدد سکھایا جاتا ہے اور اب جنسی زیادتی تک سکھائی جاتی ہے۔ ڈراموں یا فلموں کے ذریعے سوشل میڈیا باقاعدہ اکیڈمی بن چکا ہے فحاشی پھیلانے کا اور اس میں ان کا ساتھ والدین بھی پورا پورا دے رہے ہیں۔ موبائل فون دے کر خود آزاد ہو جاتے ہیں اور یہ دیکھنا مناسب نہیں سمجھتے جو آزادی بچوں کو دی گئی ہے اسکا کیا اثر پڑ رہا ہے یا انکی یہ لا پرواہی کس قدر خطرناک موڑ پر جا رہی ہے ۔یہ والدین کی لا پرواہی اور سوشل میڈیا کی مہربانی ہے۔
جو ہم اسلام سے بہت دور ہو گئے ہیں اور گھروں کے گھر تباہ ہو رہے ہیں ،دن بہ دن طلاقوں میں اضافہ ہو رہا ہے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیس بڑھتے جا رہے ہیں کیوں کہ جو دکھایا جائے گا وہی کیا جائے گا۔ ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جہاں پر ایک 12 سال کے بچے نے اپنی ہی بہن کو جنسی زیادتی کا شکار بنایا اور گھر سے نکل جانے پر اور بچی کی بری حالت دیکھ کر پورے گھر میں طوفان آ گیا گھر میں ماتم کا سماں بن گیا اور جب اس بچے کو پکڑاگیا تو اس نے ڈرتے ہوئے خود سب کچھ بتا دیا کہ اس نے ایک فلم میں دیکھا تھا اور بہن کے ساتھ کیا جو سننے کے بعد والدین سکتے میں آ گئے۔
اور پورے گھر کو سر پہ اٹھا لیا اور کیوں نہ ہوتا بیٹی کی عزت انکے اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہو گئی اور وہ کچھ نہیں کر سکے۔ یہ سب سوشل میڈیا کی ہی مہربانی ہے جہاں نہ بچے محفوظ ہیں اور نا بنت حوا اور اس میں والدین کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا سوشل میڈیا کا۔ آج جس طرح کے اشتہار دکھائے جا رہے ہیں اس میں پوری طرح سے عورتوں کی عزتوں کو پامال کیا جا رہا ہے اتنا ہی نہیں باقاعدہ چھوٹی چھوٹی فلمیں بن رہی ہیں جس عورت کو پردے میں رکھنے کا حکم ہے اسکی عزتوں کو اشتہارات فلموں اور کارٹون وغیرہ کے ذریعے پوری دنیا میں فخر سے پامال کیا جاتا ہے۔ بات تلخ ہے پر حقیقت ہے۔