بلوچستان میں شہری آبادی میں روز بروزاضافہ ہوتا جا رہا ہے شہروں میں آبادی کا سب سے بڑا سورس ذرائع آمدن کی سہولیات، روزگار کے وسیع مواقع اور حصول ذرائع معاش ہے۔ جہاں لوگ مختلف اقسام کے کاروبار سمیت محنت و مزدوری کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں وہاں ان شہروں میں کاروبار تجارت روزگار کے ساتھ ساتھ مسائل کے بھی انبار لگتے جا رہے ہیں۔ بلوچستان ملک کا بلکہ پورے ایشیاء کا غریب ترین علاقہ ہے جہاں غربت کی شرح پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔
غربت پسماندگی عدم ترقی اور بنیادی سہولیات کے فقدان کے باوجود بلوچستانی دیہاتوں کے بجائے شہروں کی جانب ہجرت کرتے جا رہے ہیں جس کے باعث بلوچستان کے شہروں پر اب زیادہ رش اور آبادی میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں شہروں کی آباد کاری کرتے وقت کوئی پلاننگ نہیں کی جاتی۔ میونسپل کمییٹیز کی نااہلی یا پھر غفلت کے باعث شہر ناقص پلاننگ کی بدولت شہر کم بلکہ دیہات زیادہ محسوس ہو تے ہیں۔ کوئٹہ کے بعد خضدار تربت چمن آپ کو شہر اور شہری علاقے محسوس ہونگے۔
جہاں بہترین پلاننگ اور حقیقی معنوں میں شہر نظر آتے ہیں۔ لیکن صوبے کی وسیع اور تیزی سے بڑھنے والے گنجان اور سرسبز و شاداب علاقے نصیرآباد کا اکلوتا اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر شہر کم بلکہ گندگی کچرے اور دیہات سے بھی گئی گزری شہر محسوس ہوتا ہے یا یوں کہیئے کہ یہ شہر تو کجا دیہات بھی محسوس نہیں ہوتا۔ پنجاب سندھ اور خیبر پختون خوا کے دیہات بھی ہمارے ڈیرہ مراد جمالی سے بڑے خوبصورت اور صاف ستھرے نظر آتے ہیں جہاں نہ تو کروڑوں کے فنڈز اور نہ ہی میونسپل کمیٹی اور ڈسٹرکٹ کونسلز ہیں ہمارے صوبے کے میونسپلز کمیٹی اور ڈسٹرکٹ کونسلز کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کے باوجود شہری ترقی اور نہ ہی شہر کی بہتری کیلئے پلاننگ کرتے ہوئے کبھی نظر آئیں گے۔ بلاشبہ یہی ادارے اور محکمے ہی کرپشن کی نرسریاں ہیں۔
جہاں آج تک کسی میونسپل کمیٹی یا ڈسٹرکٹ کونسل کے ترقیاتی فنڈز اور اسکیمات کی نہ تو مانیٹرنگ کی گئی ہے اور نہ ہی اب تک اس طرح کی کسی منصوبہ بندی کا باقاعدہ آغاز کیا گیا ہے اور نہ ہی ان ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اور تو اور اینٹی کرپشن نیب یا دوسرے تحقیقاتی اداروں کی نظریں بھی اس طرف نہیں جاتیں۔ نصیرآباد ڈسٹرکٹ اس حوالے سے شاید خوش نصیب ہے یا پھر بد نصیب پورے ضلع میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ڈیرہ مراد جمالی شہر جبکہ منجھو شوری نیم شہر ہی کہلاتے ہیں لیکن ان دونوں شہروں میں آپ کو حکومتی یا انتظامیہ کی جانب سے اربن ایریاز میں پلاننگ کہیں بھی نظر نہیں آئے گی۔
ان دونوں شہروں کی بدحالی پسماندگی عدم ترقی ہمارے میونسل کمیٹی ڈسٹرکٹ کونسل ضلعی انتظامیہ محکمہ اربن پلاننگ اور حکومتی ارباب اختیار کی عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ان مذکورہ شہروں کی تباہ حالی کا سب سے زیادہ ذمہ دار میونسپل کمیٹی ڈسٹرکٹ کونسل اور ضلعی انتظامیہ ہے ۔ڈیرہ مراد جمالی کی عدم ترقی تواپنی جگہ اب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دو لاکھ کی آبادی کے حامل شہر کو قبرستان تک میسر نہیں۔ سات آٹھ قبرستان پہلے ہی مکمل طور پر بھر چکے ہیں شہر کے کسی بھی قبرستان میں مردے دفنانے کیلئے جگہ نہیں، لوگ اپنے پیاروں کو شہری آبادی سے تیس چالیس کلومیٹر دور دفنانے پر مجبور ہیں۔
ظلم کی انتہاء ہے کہ میونسپل کمیٹی کے ایریا میں سرکار کی پانچ ہزار پانچ سو ایکڑ زمین موجود ہے ان سرکاری زمینوں پر بااثر لوگ قبضہ کر رہے ہیں اور ضلعی انتظامیہ کی مہربانی اور تعاون سے اسی فیصد سرکاری زمینوں پر بااثر افراد نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اگر اس طرح کہا جائے کہ سرکاری زمینوں کو پراپرٹی ڈیلرز کی طرح انتظامیہ کچھ دو اور کچھ لو کی طرز پر لوگوں میں تقسیم کر رہی ہے تو بیجا نہیں ہوگا۔ لیکن شہریوں کے لئے ضلعی انتظامیہ میونسپل کمیٹی یا ڈسٹرکٹ کونسل نے اب تک کوئی زمین قبرستان کیلئے وقف تک نہیں کیا ہے کیونکہ ان تمام اداروں میں شاید آفیسران باہر کے ہیں ۔
یا پھر ان کو یہان دفن ہونے کی ضرورت نہیں یا پھر انہیں شاید موت نہیں آئے گی یا فرشتہ اجل انہیں مہلت دیگی یا انہوں نے اپنے لئے کسی مخصوص قبرستان میں اپنے آپ کو دفنانے کا اہتمام یا بندوبست کئے ہو نگے۔ لیکن شہری اور مزدور طبقہ سمیت مڈل کلاس قبرستان کیلئے زیادہ مشکلات اور پریشانی سے دوچار ہیں ۔ڈیرہ مراد جمالی میں اس طرح کے کوئی مخیر حضرات بھی نہیں کہ وہ قبرستان کیلئے زمین خرید کر ثواب دارین حاصل کر سکیں اور نہ ہی میونسپل کمیٹی اور ڈسٹرکٹ کونسل نے شہریوں کیلئے اپنے بجٹ سے قبرستان کیلئے کوئی زمین خریدی ہے۔
قبرستان ان کی ترجیحات میں شامل نہیں اسی لئے وہ شہر کی بنیادی اور اہم ایشو پر توجہ ہی نہیں دے رہے۔ کیا صوبائی حکومت اراکین بلوچستان اسمبلی اس اہم ایشو کے حل کیلئے اپنی توانائیاں صرف کر سکتے ہیں؟ کیا نصیرآباد کی سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز اور شہریوں کو قبرستان کی فراہمی کے لئے متحرک کردار یا تحریک چلا سکتے ہیں؟ کیا سوشل میڈیا ایکٹوسٹ یا سول سوسائٹی شہر میں قبرستان کی عدم موجودگی کیلئے متحرک کردارادا کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں اس اہم ایشو پر کوئی بھی طبقہ فعال تحریک چلانے کے موڈ میں نہیں، قبرستان کی کمی کا احساس کسی کے مرنے کے موقع پر ہی ہوتا ہے۔
بعد ازاں پھر لوگ دوبارہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ ڈیرہ مراد جمالی جیسے بڑے شہر اور تیزی سے شہری آبادی میں اضافہ ہونے والے شہر کیلئے ہم سب کو سوچنا ہوگا۔ صوبائی حکومت، منتخب نمائندے، ضلعی انتظامیہ، میونسپل کمیٹی و ڈسٹرکٹ کونسل، سیاسی پارٹیوں سماجی اور سوشل میڈیا، سول سوسائٹی، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا، قبائلی و بلدیاتی نمائندوں سمیت ہر فرد کو ذمہ دار کردار ادا کرنا ہوگا اور شہریوں کو دفنانے کیلئے پہلی ترجیح میں قبرستان کے لئے جگہ وقف کرانا ہوگا بصورت دیگر یہ بہت بڑا مسئلہ ہوگا اور آئندہ انتخابات میں عوام کا پھر یہ مطالبہ ہوگا کہ پہلے قبرستان کیلئے جگہ دیا جائے تو پھر ہم ووٹ دیں گے۔
جبکہ اب حالات کا تقاضا ہے کہ قبرستان کی فراہمی کیلئے عوام کو بھی بیدار ہونا پڑے گا تاکہ انتظامیہ عوامی پریشر سے پہلے ہی قبرستان کیلئے جگہ مختص کرے۔ اب وقت ثابت کریگا کہ ڈیرہ مراد جمالی کے عوامی غلامی سے نکل کر اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کریں گے یا پھر حسب سابق انتظامیہ اراکین اسمبلی کی جی حضوری کرکے اپنے سابقہ تنخواہ پر ہی گزاراہ کریگی یہ وقت اور حالات پر ہی منحصر ہوگا۔