|

وقتِ اشاعت :   February 5 – 2021

 

یار ابھی اس سے کوئی بحث مت کرنا، خان صاحب کیفیت میں ہیں، سردار جی کے بارہ بج گئے کیا؟ لاہوریوں سے راستہ پوچھنے کی غلطی مت کرنا،گوشت کھانا کیوں چھوڑ دیا، ہندو ہوگئے ہو کیا؟ ہر بات پر عورتوں کی طرح ٹسوے نہ بہایا کرو، چوڑے، مچھر، کھٹمل، میراثی، کرانچی والے،را جا جی، الغرض ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جو کسی ایک طبقے، فرقے،ذات یا علاقے کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ ایسے کئی جملے ہم سب بچپن سے سنتے اور ان پر ہنستے آئے ہیں اور اپنی گفتگو میں بے محابا انکا استعمال بھی کرتے ہیں۔ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے آج تک کسی دوسری قوم، طبقے یا فرقے کے بارے میں اس قسم کے ٹیگ اور لیبل استعمال نہیں کئے ہیں۔
کوئی بھی ایسا شخص یا کمیونٹی جو ہم سے مختلف ہواور ہم اسکے طور طریقے، عادات یا اندازِ زندگی سے بے اطمینانی یاالجھن محسوس کرتے ہوں یا اسے ناپسند کرتے ہوں اکثر تفننِ طبع کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔طنز و مزاح کے لبادے میں تفریح کا عنصر تو اپنی جگہ ہے ہی لیکن دنیا بھر کے ادب میں کئی مشّاق لکھاریوں نے اس ہتھیار کو معاشرتی اور سیاسی اصلاح کی غرض سے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ جارج اورول کی شہرہ آفاق ”اینیمل فارم“ اور جوناتھن سوئفٹ کی ہر دلعزیز ”گلیورز ٹریولز“ اور ان میں پوشیدہ تشبیہات سے کون واقف نہیں۔ ہمارے یہاں ابنِ انشا کی سدابہار تحریروں میں کی جانے والی معاشرے کی پرلطف عکاسی آج بھی باذوق افراد میں بے حد مقبول ہے۔ان باکمال لکھاریوں کی تحاریر کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ ان میں کسی مخصوص طبقے کو نشانہ بنائے بغیرعلامتی کرداروں کی مدد سے انسانی فطرت کے لطیف یا پھر تاریک رخ کو پیش کیا گیا تھا لیکن آج کے دور میں صورتحال بہت بدل چکی ہے۔دنیا ایک پیچیدہ روپ دھار چکی ہے اور اسی حساب سے اسکے چیلنجز بھی بےشمار ہیں۔ دنیا بھر میں پیش آنے والے حالات اور واقعات کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر بے ضررنظر آنے والے مزاحیہ لیبل اور تبصرے کسی نہ کسی طورہمارے معاشرے کے مختلف طبقوں، فرقوں اورگروہوں کے بیچ پائے جانے والے تعصبات کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔عام طور پر دوسروں کےساتھ ہمارا رویہ انکے رنگ، نسل، زبان، مذہب، مسلک، صنف، عمر، اور مالی حیثیت وغیرہ کے مطابق ہوتا ہے۔ ہمارے یہی رویے اور اندازِ گفتگوہمارے بچے دیکھتے اور سیکھتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔جن گھروں میں نفرت یا انتہا پسندانہ نوعیت کی گفتگو عام ہواور غیر مصدقہ اطلاعات پر بآسانی یقین کرلیا جاتا ہو، وہاں کے بچے عموماًاسی طرزِ فکر اور ذہنیت کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رجحان میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔ نتیجتاً انتہاپسند رویوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے طرزِ زندگی ، عقائد اور عبادات وغیرہ کو قبول نہیں کرپاتے۔سرسری انداز میں کئے جانے والے تبصرے جب اخلاقی اور حدود پار کرنے لگیں تو نفرت کو پنپنے کا رستہ مل جاتا ہے اوررفتہ رفتہ معاشرے کے مختلف گروہوں کے بیچ تنازعات بڑھنے اور شدت پکڑنے لگتے ہیں۔
عدم برداشت، احساسِ برتری اور عدم مساوات وہ رویے ہیں جوانسان کی فطرت سے زیادہ اس کی پرورش اور ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ اشتعال، بے بنیاداختلافات اور تشدد پسندی کی پہلی درسگاہ انسان کا اپنا گھر اور خاندان ہوتا ہے کیونکہ انسان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں خاندان کا کردارسب سے اہم ہے۔یہ انسانی زندگی کی وہ فطری اکائی ہے جوآگے چل کر اسکی شخصیت اور اقدار کا تعین کرتی ہے۔دوسرا نمبر درسگاہوں کا ہے جہاں کا ماحول اور اساتذہ اسکی عادات و اطوار کی مزید تراش خراش کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ بچے بہت اچھے نقال ہوتے ہیں اور وہ اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے تاثرات، آواز کا اتار چڑھاو¿، یہاں تک کہ خفیف جسمانی کیفیات کو بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لاشعوری طور پر وہ اپنے بڑوں کے رویے ، رجحانات اور تعصبات اختیارکرلیتے ہیں اوریوں عدم برداشت، شدت پسندی اور تعصب جیسی برائیاں نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ان برائیوں کا جڑ سے خاتمہ کرنے کے لئے بچپن سے ہی ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے تعصبات اور عدم برداشت کے رویوں میں تبدیلی لانا ممکن نہیں کیونکہ یہ ہماری فطرت کا حصہ ہوتے ہیں لیکن نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ان رویوں میں اتنی لچک موجود ہوتی ہے کہ انہیں بدلا جاسکے یا ان پر قابو پایا جاسکے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہماری ذہنیت اور سوچ ہماری تہذیب، ثقافت اور معاشرتی اقدار سے مل کر بنتی ہے اور چونکہ یہ عوامل بدلتے رہتے ہیں اس لئے ہماری سوچ میں بھی تبدیلی کی گنجائش رہتی ہے۔ لیکن اس میں وقت اور محنت دونوں درکار ہوتے ہیں کیونکہ دقیانوسی تصورات کو بدلنے کے لئے چند افراد کی نیک نیتی سے زیادہ اجتماعی سطح پر سماجی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اختلاف کے باوجوددوسروں کی رائے اور ترجیحات کا احترام کرنا اور اپنی سوچ مسلط کرنے سے گریز کرنا ایک مثالی معاشرے کی علامت ہے۔ مضبوط قوتِ برداشت رکھنے والے لوگ اختلافات سے بہتر طریقے سے نمٹ سکتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں کے نقطہ نظر کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی کشادہ دلی اور وسیع النظری انہیں ہر حلقے میں پسندیدہ شخصیت کا اعزاز بخشتی ہے۔ جبکہ جن بچوں پر شروع سے ہی ایک مخصوص رائے ٹھونس دی جائے انکی ذہنی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں اور وہ آزادانہ اور تخلیقی انداز سے سوچنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اسکے برعکس محبت اور رواداری کی فضا میں پلنے بڑھنے والے بچے خوش اور پرامن رہنا سیکھتے ہیں اور آگے چل کر یہی خوبیاں معاشرے میں پھیلاتے ہیں۔ معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور افراد کا ایک ساتھ مشترکہ مقاصد کے لئے کام کرناہی کسی معاشرے کی ترقی اور بقا کی ضمانت ہے۔ جبکہ انتشار، اشتعال اور شدت پسندی سے قوموں پر آگے بڑھنے کے اور پھلنے پھولنے کے راستے بند ہونے لگتے ہیں۔اپنے ارد گرد موجود افراد کے ساتھ مل کر رہنا چاہے وہ ہم جیسے ہوں یا ہم سے مختلف، پرامن اور محفوظ زندگی کو یقینی بناتا ہے۔
unkown of fearانگریزی کی ایک عام اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے کہ ہم ان چیزوں سے دور رہتے ہیں یا ڈرتے ہیں جن سے ہم ناواقف ہوں۔ نامعلوم کا یہ خوف ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیتا اور ہم دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں، نظریوں اور سوچوں سے دور رہ کر خود کو ایک محدود دائرے میں قید کرلیتے ہیں۔ جب کو ئی انسان کھلے ذہن کے ساتھ مختلف ثقافتوں اور قوموں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا یہ خوف ختم ہوجاتا ہے اور دوسروں کو سمجھنے کے انداز میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ اسکا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ ہم اپنے اصولوں اور قدروں کو خیرباد کہہ دیں لیکن اگر ہماری سوچ یا اعمال سے دوسروں پر منفی اثرات پڑ رہے ہوں تو پھر تہذیب اور شعور کا تقاضا یہی ہے کہ ان پر نظر ثانی کی جائے۔
ہماری قوم نے انتہا پسند سوچ کے ہاتھوں بہت نقصانات اٹھائے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اسکے تدارک کے لئے اجتماعی کاوشیں اپنی جگہ لیکن انفرادی اور ادارے کی سطح پر ایسی سوچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جس سے اس برائی کا رستہ روکا جاسکے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو اپنے بچوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ کم از کم ہمارا مستقبل اس لعنت سے محفوظ رہ سکے۔ لہٰذا اپنے بچوں کے لئے ایک عملی مثال بنیں۔ انکے سامنے دوسرے عقیدوں کا احترام کریں اور کسی بھی قسم کے منفی ریمارکس دینے سے گریز کریں۔ انکے سوالوں کے جواب دیتے وقت صرف مصدقہ معلومات فراہم کریں اور سنی سنائی یا روایتی باتوں کا سہارا نہ لیں۔ اسکے علاوہ اپنے بچوں کے انٹرنیٹ اور دوستوں کے ساتھ سرگرمیوں پر بھرپور نظر رکھیں اور اس بارے میں انہیں اعتماد دیں کہ وہ کھل کر آپ سے اپنی باتیں کر سکےں۔ اسی طرح دوسرے فرقوں، مذاہب، یا قوموں کے متعلق بات کرتے وقت ان باتوں پر زور دیں جو ان میں اور آپ میں مشترک ہوں کیونکہ اگر تمام تر توجہ اختلافات پر مرکوز رکھی جائے تو دوسروں کے مثبت پہلو بھی دکھائی نہیں دیتے۔ انسان فطرتاً خود کو حق اور دوسروں کو ناحق سمجھتا ہے۔ ایسے میں مشترکہ اطوار پر دھیان دینادوسروں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
روادار ی ان چیزوں کو تسلیم کرنے کا نام ہے جن سے آپ کو اختلاف ہو اور عدم برداشت انہی چیزوں کو قبول کرنے سے انکار ہے۔ اپنے اندر یہ صفت پیدا کرنا بلاشبہ کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ہم قدرتی طور پر اپنے مانوس ماحول سے جڑے ہوتے ہیں۔ اور اگرہمارے معاشرے میں برداشت کا عنصر بھی کم ہو تو ایسے میں بحیثیت فرد اس رواج کے خلاف چلنا مشکل کام ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ہم نئے نئے لوگوں سے واقفیت پیدا کریں اور اپنے خول سے باہر نکل کر دنیا کو دیکھیں۔ اس بات کا اہتمام کریں کہ ہمارے حلقہ احباب میں مثبت فکر کے مالک افراد کی تعداد زیادہ ہو۔ رضاکارانہ سرگرمیوں میں حصہ لیں تاکہ ہر قسم کی تفریق سے بالاتر ہوکر صرف انسانیت کے لئے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور اپنے مخصوص حلقے سے ہٹ کر اور لوگوں کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملے۔کسی کی بات سے اختلاف ہو تو فوری ردعمل دینے کے بجائے پہلے خود سے یہ سوال کریں کہ اس کے ایسا کرنے یا کہنے کی کیا وجہ تھی۔ایسا کرنے سے جذبات کے بجائے منطقی انداز میں چیزوں کو دیکھنے کی عادت پڑے گی۔ اسکے بعد بھی کوئی شدید ردعمل دینے کے بجائے وضاحت طلب کی جاسکتی ہے تاکہ اگلے کا موقف بھی سمجھ میں آسکے۔مہذب گفتگو اور مذاکرات کی مدد سے بڑے بڑے طوفانوں کو ٹالا جاسکتا ہے۔
اپنے اور دوسروں کے اعمال، عقائد اور سرگرمیوں کو متوازن رکھنا بے حد مشکل کام ہے۔لیکن ایک پرامن آج اور مستحکم کل کی خاطر ایسا کرنا ضروری ہے۔ کوشش جاری رکھنا ہم سب کا فرض ہے جس کے لئے میں تو تیار ہوں اور آپ؟