کراچی: بلوچستان کے نامور صحافی ڈیلی بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کے مدیر لالاصدیق بلوچ کی تیسری برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کراچی پریس کلب کے زیراہتمام ” آزاد اظہار رائے ” کے عنوان سے کے پی سی پریس کانفرنس ہال میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
تقریب سے فاضل جمیلی، انور ساجدی، پروفیسر توصیف احمد، وسعت اللہ خان، مقصود یوسفی، ڈاکٹر جبار خٹک اور مظہر عباس نے صدیق بلوچ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔تقریب میں سابق نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب غوث بخش باروزئی سینئیر سیاستدان یوسف مستی خان، ڈاکٹر سلیم کرد، ماما قدیر اور صحافی، سیاسی و سماجی سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے روزنامہ انتخاب کے مدیر سینئیر صحافی انور ساجد نے صدیق بلوچ کی پیشہ وارانہ زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کھبی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے اور یہ امر قابل ستائش ہے کہ صدیق بلوچ کے مشن کو ان کے بچوں نے سنبھالا ہوا ہے اور ہماری بھی یہی کوشش ہے کہ ان کے افکار پر چلے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اس وقت ایک کھلی کیمپ ہے ،اور جب نواب اکبر خان بگٹی نے ساحل وسائل کا نعرہ لگایا تو انہیں شہید کیا گیا آج بھی ہم کہتے ہیں کہ ہمیں زندہ رہنے کا حق دو۔انور ساجدی کا کہنا تھاکہ بحرالبلوچ کا اصطلا ح سب سے پہلے خان عبدالولی خان نے استعمال کیا کہ بندرعباس ایران سے کراچی تک ساحل بلوچوں کی ہے۔
اس بناء پر میں نے ایک بار خبر شائع کی کہ رواں سال کا آخری سورج بحرالبلوچ پر غروب ہوگیا تو اس پر مجھے فون آنا شروع ہوگئے ان کا کہنا تھا کہ خان عبدالولی خان نے افراسیاب خٹک کو سندھ میں سروے کے لئے بھیجا اور سندھیوں کو پارٹی پالیسیوں پر قائل کریں اور جب افراسیاب خٹک واپس آئے تو انہوں نے کہا سندھ میں تو سندھی کم اور مگسی، لاشاری، جمالی، شر اور اس طرح کے دیگر بلوچ قبائل زیادہ ہیں جبکہ پنجاب کی 20 فیصد آبادی بھی بلوچ ہیں۔نامور صحافی وسعت اللہ خان نے صدیق بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کہ آزادی اظہار رائے آج کے دور کی بنسبت ماضی میں صحافیوں کے لئے زیادہ چیلنجز رہا اور موجودہ دور میں صحافیوں نے خود پر بہت سے معاملات پر سیلف سنسر شپ بھی عائد کردی ہے، صدیق بلوچ کے دور میں احتجاجی بینرز کراچی پریس کلب کے باہر آویزاں ہوتے تھے ۔
مگر آج اس طرح کے احتجاجی بینرز کراچی پریس کلب کی چار دیواری کے اندر آویزاں کئے جاتے ہیں اور ان کا رخ بھی دیوار کی سمت کردیا جاتا ہے یہ بھی ایک طرح سے سیلف سینسر شپ ہے کیونکہ بینر کو باہر آویزاں کرنے سے کسی نے منع نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ صدیق بلوچ ایک شخصیت کا نام نہیں تھا بلکہ ایک ادارہ تھاان سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ سی پی این کے سکیرٹر ی جنرل ڈاکٹر جبار خٹک نے کہا کہ صدیق بلوچ نے پیشہ وارانہ زندگی میں سادگی کو ترجیع دی شلوار قمیض میں سائیکل پر دفتر جایا کرتے دوستوں نے ضد کی کہ وہ اب موٹرسائیکل استعمال کریں مگر وہ نہیں مانے تو ان کی سائیکل کو چھپایا گیا۔
تو انہوں نے مجبوراً موٹرسائیکل خریدی بعدازاں دوستوں نے سائیکل انہیں واپس کی۔انہوں نے کہا آزادی اظہار رائے بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے آزادی صحافت کو منفی صحافت کے ذریعے بگاڑا گیا۔سینئیر صحافی سابق سکیرٹر ی جنرل کراچی پریس کلب مقصود یوسفی نے کہا کہ میں نے صدیق بلوچ سے صحافت کا درس لیا انہوں نے علم کو اپنے حد تک محدود نہیں رکھا پیشہ وارانہ صحافت میں میرے لئے مددگار رہی صدیق بلوچ نے زیادتیوں اور جبر کے خلاف آواز بلند کی۔ لیکن اب جمہوری حکومتوں کو آلہ کار بنا دیا گیا ہے جو وہ سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے،ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کو کنٹرول کرکے قدغن لگائی جاتی ہے الیکٹرانک میڈیا پر پابندیاں زیادہ ہیں جب و طاقت کو ریشمی پردوں کے پیچھے سے استعمال کیا جارہا ہے ۔صحافت پر پابندیاں تو پاکستان میں شروع سے لگی ہیں مگر اب شکلیں تبدیل ہوچکی ہیں۔
سینئیر صحافی مظہر عباس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لیاری نے ہمیشہ سیاسی طورپر متحرک کردار ادا کیا اور سازش کے تحت اس علاقے کو گینگ وار کے حوالے کیا گیا کہ سیاسی لوگ سامنے نہ آسکے۔ سیمنا ر کے آخر میں کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی نے مقررین اور مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے صدیق بلوچ کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ آئندہ بھی اس طرح کے تقریبات اور سیمنار منعقد کئیے جائیں گے۔