تاریخ میں ایسی ہستیاں بھی ملتی ہیں جو اپنی زندگی کے اچھے ایام اپنے لوگوں کی اجتماعی ترقی، فلاح و بہبود ،خوشحالی، اور اپنے آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لیے اپنی سرزمین اور قوم کے نام وقف کرتے ہوئے کٹھن راہوں پر چلنے کا مشکل ترین فیصلہ کرتے ہیں،اور اپنے گروہی، ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سماج اور معاشرے کی بہتری کے لیے فکر مند رہتے ہوئے سماجی برائیوں کے خاتمے اور شعوری فکر و فلسفے کے عملی کردار کی خاطر ایک رول ماڈل انسان کا روپ دھارلیتے ہیں، جن کے خیالات وافکار ،کردار، رفتاراور گفتار پوری قوم کے حالات کو بدلنے اور معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کا پیشہ خیمہ ثابت ہوتے ہیں ۔
ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں ہزاروں میںہرگز نہیں ہوتی بلکہ وہ محدودتعداد میںہوتے ہیں جو اپنے خطے میں رونما ہونے والے حالات و واقعات اور اپنے لوگوں کی درد و تکلیف ،پریشانیوں کو محسوس کرتے ہوئے اور انھیں دور کرنے کی خاطر تمام بوجھ اور تکالیف اپنے کندھوںپر ا ٹھاتے ہیں۔ وہ دن رات ایک کرکے اپنے ذاتی خواہشات، مفادات اور مقاصد کو رد کرتے ہوئے صرف اور صرف تاریخ اور اپنے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا کر عزت و احترام اور شرف حاصل کرتے ہیں اور اُن ہستیوں کو تاریخ میں اس لئے عظیم انسان تصورکیا جاتا ہے۔
جو اپنا نہیں بلکہ دیگر انسانوں کا مستقبل بدلنے کی جستجو میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔بلوچستان دنیا کا وہ امیر ترین خطہ ہے جواپنے جیو پولیٹکل اہمیت کے حامل قدرتی دولت سے مالا مال طویل ساحلی پٹی ،ڈیپ سی پورٹ ،کم آبادی اور 3.50لاکھ مربع کلومیٹر پرمشتمل رقبہ کی بناء پر اُن طاقت ورقوتوں کی نگاہوں کا مرکز ہے جو اپنے معاشی ،دفاعی ،اقتصادی ،سماجی مفادات کی تکمیل کیلئے بلوچستان کو اپنے دسترس اور کنٹرول میں لانا چاہتی ہیں۔ایسے حالات میں اس وطن نے اپنے بطن سے ایسے فرزندوں کو جنم دیا جو بلوچستان کے پورے حالات کو بدلنے اور واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
اور ان کی سوچ و فکر، اپنے وطن اور قوم سے سچی دوستی اور وفاداری کی علامت کے طور پر جدوجہد میں گزارتے ہیں ۔ان میں سے ایک نام لالہ صدیق بلوچ کا بھی ہے جن کا تعلق شعبہ صحافت سے تھا اور انہوں نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنے قلم کی نوک پر بلوچستان کے حالات اور واقعات ،ساحل وسائل ،قومی خودمختاری اور یہاں کی معاشی تنگ دستیوں ،استحصال کے خلاف سینکڑوں مضامین اوراداریے تحریر کیے۔ وہ بلوچستان کے روشن مستقبل کے لیے ایک چمکتے ستارے کی مانند اپنے علم کے ذریعے بلوچستان کے جملہ مسائل اور یہاں کے لوگوں کے حقوق کیلئے لکھتااور بولتا رہا۔
انہوں نے آزادی صحافت‘ پارلیمنٹ کی بالادستی ‘ جمہوریت کے فروغ، آئین اور قانون کی حکمرانی ‘ قوموں کو برابری کی بنیاد پران کے حقوق تسلیم کرانے ‘ مکمل صوبائی خودمختاری ‘ عدلیہ کی آزادی ‘ انسانی حقوق کی پامالی کی روک تھام اور ساحل وسائل پر محکوم قوموں کے واک و اختیار،کچلے ہوئے طبقات ،خواتین ،طلباء ،مزدوروں، مذہبی اقلیتوں ،نوجوانوں کی جدوجہد اور تحریکوں میں لالہ صدیق بلوچ نے صفحہ اول کا کردارادا کیا۔لالہ صدیق بلوچ 10فروری 1940کو کراچی کے قدیم ترین بلوچ علاقہ لیاری میں پیدا ہوئے۔
نیشنل عوامی پارٹی (نیپ)کے قائدین خان عبدالولی خان ،نواب خیر بخش مری، میر غوث بخش بزنجو ، سردار عطاء اللہ خان مینگل ، میر گل خان نصیر، ارباب سکندر اور دیگر کے ساتھ مل کر ون یونٹ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔1972 ء کو جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت برسراقتدار آئی تو وہ اس وقت کے گورنر میر غوث بخش بزنجو کے پریس سیکرٹری رہے۔ اور صحافت کے حوالے سے نیپ حکومت کی رہنمائی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نیپ تحریک کے قائدین کی گرفتاریوں کے ساتھ ایم آر ڈی تحریک میں لالہ صدیق بلوچ بھی قید و بند سے دوچار ہوکر طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے ۔
انہوں نے اپنے صحافتی جدوجہد کے دوران صوبے کے حقوق کے حوالے سے دو کتابیں تصنیف کیں جو آج بھی یہاں کے نوجوانوں کیلئے رہنمائی اور معلومات کا ذریعہ ہیں۔ مشہور انگریزی اخبار ڈان نیوز سے بھی منسلک رہے اورملکی سطح کے صحافیوں کے تنظیم ( پی ایف یو جے)کے ممبر رہے اوراس کو تنظیم کو بلوچستان اور بلوچ وسائل، حقوق کے حوالے سے آگاہی دلانے میں متحرک اور فعال کردار ادا کرتے رہے۔انہوں نے 1990میں اپنا انگریزی اخبار بلوچستان ایکسپریس اور بعد ازاں اردو اخبار روزنامہ آزادی کے نام سے نکالا ۔
ان اخبارات میں آج بھی بلوچستان اور ملکی سطح کے حالات واقعات پر مشتمل اصل حقائق کے تجزیے اور تحریریںشائع ہوتی ہیں جوکہ تمام سیاسی حلقوں کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں ۔ لالہ صدیق بلوچ کو میں نے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے 1993ء میں بہت قریب سے دیکھا ، وہ ایک نہایت ہی سلجھے ہوئے سنجیدہ دور اندیش شخصیت کے مالک تھے۔ اور وہ ہرسطح پر ڈنکے کی چوٹ پراپنے اصولی تجربات پر مبنی تجزیوں اور موقف کو دلائل اور ثبوت کے ساتھ پیش کرتے رہے۔جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں لالہ صدیق بلوچ کی تحریوں پر قدغن لگانے کی بارہاکوشش کی گئی۔
کیونکہ نیپ پر پابندی کے بعد بلوچستان میں ایسا کوئی بہترین رسالہ ، میگزین ، اخباریا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ 12اکتوبر 1999 کوپرویز مشرف کے مارشل لاء کے دور میں بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر مظالم کا سلسلہ شروع ہوا اور بلوچستان کی تاریخ میں یہ پانچواں آپریشن تھا جہاںانسانی حقوق کی پامالی زورں سے جاری تھی۔ دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حقیقی اخبارات و جرائد کا گھیرا تنگ کرنے اور ان کے اشتہارات بند کرانے اور ان کا گلہ دبانے کی کوشش کی گئی جن میں سر فہرست بلوچستان سے نکلنے والے صوبے کی حقیقی آواز لالہ صدیق بلوچ کے اخبارات روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس تھے ۔
ان اخبارات کے ساتھ ساتھ بلوچستا ن کے دیگر مقامی اخبارات روزنامہ آساپ، انتخاب اور دیگر کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے محاصرے میں چھاپا جاتا رہا۔ اس دوران سریاب روڈ پر آساپ اخبار کے دفتر کے سامنے اس کے چیف ایڈیٹر ممتاز دانشور،بلوچی زبان کے نامور ادیب واجہ جان محمد دشتی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا لیکن وہ معجزانہ طور پر بچ گئے مگر ا نتہائی زخمی ہوئے ۔ لیکن اس دوران لالہ صدیق بلوچ چلتن مہردرپہاڑ کی مانند سربلند رہ کر مستقل مزاجی ،ثابت قدمی اور تمام تر دبائو ،دھونس دھمکیوں، اشتہارات کی بندش کے باوجود اپنی خدائیداد صلاحیتوں ،تجربات اور عملی معنوں میں بلوچستان کے حقیقی مسائل۔
صوبائی خودمختاری ،سیاسی جمہوری بنیادی حقوق کیلئے لکھتا رہا۔ ان کے چہرے پر کہیں بھی خوف وہراس دکھائی نہیں دیا ۔لالہ صدیق بلوچ کی صحافت کے حوالے سے بلوچ قوم اور بلوچستان کے لئے ناقابل فراموش خدمات اور جدوجہد مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور انھیں کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ لالہ صدیق بلوچ ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارے کا نام ہے جس میں بلوچستان کے تمام حالات و واقعات کا مقابلہ کرنا اور ان کے تدارک اور مسائل کا حل پنہاںہیں۔لالہ صدیق بلوچ کا یہ وژن اور موقف تھا کہ صوبوں کو اپنے وسائل پر اختیار دیئے بغیر یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا ۔
این ایف سی ایوارڈ، اٹھارویں ترمیم ،آغاز حقوق بلوچستان جیسے پیکجز پر لالہ صدیق بلوچ کے تجزیوں اور تحریوں کی صورت میںگہرا نکتہ موجود ہے جس پر وہ حکمرانوں کو عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے ۔لالہ صدیق بلوچ کی جدائی سے بلوچستان کا وہ تحقیقی، صحافتی ادارہ جو ان کے دم سے آباد تھا، اب ویران نظر آتا ہے، ان کے جانے سے بلوچستان اور بلوچ قوم ایک ایماندار مخلص سچے انسان سے محروم ہوگیا ہے، اس خلاء کو پر کرنا ناممکن ہے۔بلوچ قوم اور بلوچستان لالہ صدیق بلوچ کے مقروض ہیں اور اس قرض کو کسی بھی صورت ادا نہیں کیا جاسکتا ۔آج بلوچستان جس آتش فشاںزون پر واقع ہے۔
یہاں کسی بھی وقت عالمی اور علاقائی طاقتوں کے معاشی اور دفاعی مفادات کے ٹکرائو کے نتیجے میں بلوچستان کا خطہ میدان جنگ بن سکتا ہے۔ایسے حالات میں لالہ صدیق بلوچ جیسے کہنہ مشق صحافی، دانشور، سیاسی رہنماء کی عدم موجودگی میں بلوچ قوم اور بلوچستان کوبڑے نقصان کا خدشہ ہے ۔06فروری 2018 کولالہ صدیق بلوچ کی وفات سے بلوچستان ایک مخلص اور بہادر صحافی اور رہنماء سے محروم ہوا۔
نوٹ: یہ کالم صدیق بلوچ کی دوسری برسی کے موقع پر بھی شائع ہوچکی ہے۔