انتہائی کٹھن حالات ، وسائل کی کمی ، مشکل صورتحال میں کس طرح پرسکوں رہ کر کام کرنا ، فرائض انجام دینا اور جرات و بیباکی سے سچ عوام تک پہنچانا ہے یہ فن اگر کسی نوجوان صحافی یا مستقبل میں صحافت کے میدان کا انتخاب کرنے والے کسی نوجوان نے سیکھنا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ لالہ صدیق بلوچ کی زندگی کا بغور مطالعہ کرے ، مشکلات اور ناموافق حالات کی باتیں کرنے والے صحافی اگر اپنی زندگی میں ہی صحافت کے شعبے میں لیجنڈ کا درجہ رکھنے والے لالہ صدیق بلوچ کی جدوجہد سے آگاہی حاصل کرلیں تو پھر شاید ان کے لئے اپنے فرائض کی تکمیل کے لئے کسی بھی مشکل کی پراوا نہ کرتے ہوئے آگئے بڑھنا ہی مقصد ہوگا۔
ملک کے معروف انگریزی روزنامہ ڈان میں طویل عرصہ تک خدمات انجام دینے اور کراچی سے سندھ ایکسپریس اور آخر میں کوئٹہ سے انگریزی روزنامہ بلوچستان ایکسپریس اور اردو روزنامہ آزادی کا نہ صرف اجراء کیا بلکہ ان کے دونوں اخبارات نے صوبے میں میڈیا اکیڈیمی کے خلا ء کو پر کیا۔ یوں تو دنیا میں ہر دور میں مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کی ایک تاریخ رہی ہے ، اپنی بے پناہ خدمات کے باعث تاریخ میں امر ہونے والوں کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے لیکن اپنی زندگی میں ہی لیجنڈ کا درجہ پانے والے انسان بہت ہی کم ہوتے ہیں۔
صحافت ، سیاست اور معاشی امور پر یکساں عبور رکھنے کے ساتھ مسائل کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ ان کے حل کے لئے حکومتوں کو بہترین تجاویز دینے والے لالہ صدیق بلوچ کا شمار ایسے ہی بڑے لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہمیشہ خوبصورت مغربی لباس زیب تن کیے رہتے ، لالہ صدیق بلوچ نہ صرف ایک بہت بڑئے صحافی تھے بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن بلکہ ایک انسٹی ٹیوٹ کا درجہ رکھتے تھے ، ان کے بالواسطہ اور بلاواسطہ شاگردوں کی تعداد شاید ہی گنی جاسکے ، کراچی میں جنم لینے والے لالہ صدیق بلوچ کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت رہی ۔
کڑی محنت اور اپنے بل بوتے پر انہوں نے زندگی میں پیش آنے والے تمام مشکلات اور تکالیف کو کبھی آڑے نہ آنے دیا بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر اپنی جدوجہد سے مشکلات اور تکالیف کو آسانیوں میں تبدیل کرتے رہے ،نہ صرف یہ بلکہ دوسروں کے لئے بھی آسانیاں پیدا کرتے رہے۔ لالہ صدیق بلوچ طالب علمی کے ایام میں طلباء سیاست میں بھی نہایت سرگرم رہے تاہم عملی سیاست میں آنے سے قبل انہوں نے صحافت کا شعبہ اختیار کیا ، 1970 کی دہائی کے آغاز میں ون یونٹ کے ٹوٹنے اور بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے کے بعد میر غوث بخش بزنجو جب بلوچستان کے پہلے گورنر مقرر ہوئے تو لالہ صدیق بلوچ ان کے پریس سیکرٹری مقرر ہوئے۔
اور میر غوث بخش بزنجو کے گورنر کے عہدے پر رہنے تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے ، میر غوث بخش بزنجو کے عہدے سے ہٹنے کے بعد ایک بار پھر انہوں نے کراچی سے صحافت کا سلسلہ شروع کردیا ، تاہم گورنر بلوچستان کے پریس سیکرٹری کا عہدہ ختم اور صحافت کا شعبہ دوبارہ اختیار کرنے کے درمیان کا عرصہ انہوں نے ایک بار پھر بڑی مشکل میں گزارا تاہم نہ تو ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش آئی اور نہ ہی حالات سے گھبرائے ۔ اپنی سوچ ،نظریات اور اصولوں پر زندگی کی آخری سانس تک کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
ملک کے معروف انگلش معاصر روزنامہ ڈان میں قریب تین دہائی تک بھرپور انداز میں خدمات انجام دیئے اور مختلف بیٹ میں صحافتی خدمات نہایت موثر انداز میں انجام دیئے ، روزنامہ ڈان کے ساتھ طویل رفاقت کے بعد پہلے کراچی سے انگریزی روزنامہ سندھ ایکسپریس کا اجراء کیا جس کے بعد 1990 میں کوئٹہ آگئے اور یہاں سے انگریزی روزنامہ بلوچستان ایکسپریس کا اجرا ء کیا جو آج ان کی دن رات کی محنت کی بدولت بلوچستان میں صحافت کی دنیا کا اہم نام ہے ، بلوچستان ایکسپریس کو اعلیٰ مقام دلانے کے ساتھ انہوں نے کوئٹہ سے اردو روزنامہ آزادی کا اجرا ء کیا۔
اور مختصر عرصے میں اپنی دن رات کی محنت سے صوبے کے اردو اخبارات میں اعلیٰ مقام دلانے میں کامیاب رہے ، ساتھ ہی انگریزی روزنامہ بلوچستان ایکسپریس سے بھی بلوچستان کو صحافت کے شعبے میں کئی ایک اچھے صحافی دیئے ، دونوں اخبارات کیذریعے بلوچستان کے مسائل کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کے اداریوں اور اپنے دیگر مضامین کے ذریعے بلوچستان کے مسائل اعلیٰ حکومتی حلقوں تک پہنچانے اور انہیں ان کے حل کے لئے مفید تجاویز بھی دیتے رہے۔
ان کے ادارے سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کرنے والوں سمیت مذکورہ اخبارات میں فرائض انجام دینے والوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی ملک اور صوبے کے اہم تعلیمی اداروں میں رہ کر صحافت کے شعبے میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔ محنت ، ایمانداری اور جہد مسلسل سے عبارت اپنی زندگی اور خاص طور پر صحافت کی دنیا میں وہ نوجوانوں کے لئے آئیڈیل رہے ہیں ، نوجوان صحافیوں کی رہنمائی کے ساتھ انہوں نے اپنے اداریوں کیذریعے بلوچستان کے شاید ہی کسی مسئلے کو اجاگر نہ کیا ہو ، بلوچستان کے حقوق ہوں یا عوامی مسائل ان کے قلم کا جادو ہر جگہ سرچڑھ کربولتا رہا ۔
بلوچستان اور بلوچستان کے عوام کے حقوق کے لئے ہر فورم پر ان کی بیباک آواز سنائی دیتی رہی۔ بلوچستان کی آواز ان کے اخبارت کے پہلے صفحے پر جگہ بناتی رہی ، انہوں نے جہاں اپنے قلم سے حق و سچ کی جنگ جاری رکھی وہاں ان کے قلم سے بلوچستان کا ہر پہلو روشن ہوا ۔بلوچستان کی سیاست کے ساتھ ان کی معیشت پر جتنی گہری نظر تھی شاید بہت کم لوگوں کی ہوگی جس کا ثبوت ان کی تحریر کردہ کتاب ہے جو صحافیوں سمیت بلوچستان کی معیشت کو سمجھنے والے ہر ایک انسان کے لئے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔
جیسے کہ پہلے بھی اس بات کا ذکر کیا جاچکا ہے کہ لالہ صدیق بلوچ کی یوں تو صحافت کی ہر بیٹ میں استاد کی حیثیت رہی ہے تاہم سیاسی اور معاشی شعبوں پر ان کی نظر انتہائی گہری تھی ، بجٹ کی خبروں کی تیاری کے حوالے سے راقم سمیت کئی ایک صحافی ان کی رہنمائی سے مستفید ہوتے رہے ، ایک بہت بڑے صحافی ہونے کے ناطے ان کا رشتہ عوام سے ہمیشہ مضبوط رہا ، عوامی مسائل پر ان کی تحریریں اور اداریے اب تاریخ کا حصہ ہیں ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کئی سال قبل جب صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ۔
ٹریفک سمیت عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے موضوع جب پہلی بار زیر بحث آئے تو جہاں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی تجاویز دیں وہاں لالہ صدیق بلوچ نے دیگر تجاویز کے ساتھ بلوچستان کے لئے ایک نئے دارالحکومت بسانے کی تجویز بھی دی تھی جس پر ان سے کئی نشستوں میں تفصیلی بات چیت ہوتی رہی ۔ان کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ وہ ایک انتہائی منجھے اور تجربہ کار صحافی ہونے کے باوجود نہ صرف ہر ایک کی بات سنتے تھے بلکہ ساتھ ساتھ تصیح بھی کرتے ،اگرچہ کبھی کوئی بات انہیں اچھی نہ لگتی تو ڈانٹ بھی ضرور دیتے تھے۔
لیکن ان کی اس ڈانٹ میں بھی ان کی رہنمائی شامل ہوتی تھی اس لئے کوئی بھی صحافی دوست ان سے بات کرنے ،سوال پوچھنے بلکہ موقع ملنے پر مجھ سمیت دوسرے دوست ان سے بحث کرنے سے بھی گریز نہ کرتے۔اپنی کئی دہائیوں پر مشتمل صحافتی زندگی میں وہ صحافت کے میدان میں آنے والوں کے لئے بلاشبہ ایک ٹرینڈ کا تعین کرگئے ہیں ، گو آج ان کو ہم سے بچھڑئے دو سال ہونے کو آیا ہے لیکن پہلے دن ان کو نہ تو مرحوم کہہ اور لکھ سکا اور نہ آج بھی انہیں مرحوم لکھنے یا کہنے کی ہمت ہورہی ہے ، دعا ہے کہ دنیا میں اپنی جدوجہد سے اہم مقام حاصل کرنے اس عظیم انسان کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں جگہ دے۔
نوٹ: یہ کالم صدیق بلوچ کی دوسری برسی کے موقع پر بھی شائع ہوچکی ہے۔