مجلس فکر و دانش کے زیراہتمام مکالمہ طلبہ یونین کی بحالی اور ان کا آئینی کردار
ملک کے اندر بڑے شہروں میں جیسے کراچی ،لاہور وغیرہ میں فکری اور علمی موضوعات پر مکالمہ اور بحث و مباحثہ جا بجا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن کوئٹہ میں ایسے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ بارش کا پہلا قطرہ بن کر سامنے آئے ہیں۔ کافی عرصے سے کوئٹہ شہر میں فکری اور علمی مکالمے کی نئی روایت قائم کردی ہے۔ وہ اپنی کوشش اور کاوش میں کافی حد تک کامیاب نظر آرہے ہیں۔حال ہی میں شہید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چلنے والی لائبریری کے چھوٹے حال میں اہم موضوع پر’’ طلبہ یونین کی بحالی اور ان کا آئینی کردار‘‘ کے موضوع کا چناؤ کیا گیا تھا۔
جس میں ملکی اور صوبائی سطح پر ماہرین تعلیم ، سیاستدان ،مذہبی تنظیموں کے سربراہان ،مختلف طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے صدور ،سرکاری انتظامیہ کے افسران خواتین اور دانشوروں کو مدعو کیا گیا تھا۔کانفرنس میں موجود اور آن لائن شرکت کرنے والے مہمانوں اور دانشوروں نے اپنی علمی اور فکری استعداد اور تجربوں کی بنیاد پر پر تقریر اور تجزیے پیش کیے۔وہاں موجود حاضرین اور میڈیا کے توسط سے دیکھنے والے سامعین نے سیر اصل مکالمہ سے استفادہ کیا۔کانفرنس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام الٰہی سے کیا گیا۔جس کے بعد عبدالمتین اخونزادہ نے اپنے خطاب میں کہا۔
کہ طلبہ تنظیموں پر پابندی کا مقصد مڈل کلاس قیادت کو اقتدار سے روکنا ہے 1971 سے 1977 تک جب طلبہ یونین بحال اور اپنے آب و تابِ سے جاری و ساری تھی۔ اس زمانے میں طلبہ یونین نے سیاست میں اعلیٰ پائے کی قیادت فراہم کی ۔ اس زمانے کی قیادت کو دیکھ کر فیصلہ کرنے والے حضرات نے یونین سے خوفزدہ ہو کر ان پر جناب ضیاء الحق کے دور میں پابندی عائد کردی ۔ان کا کہنا تھا کہ طلباء تنظیمیں اپنی فریم ورک سے نکل کر جدید زمانے کے مطابق تبدیلی لائے۔فرید بگٹی نے کہا کہ حکومت طلبہ یونین سے خوفزدہ کیوں ہے۔
بی آر ایس پی یوتھ کے منیجر غلام محمد محمدی صاحب نے کہا کہ اس وقت ملک کے اندر ہ 15 سے 29 سال تک جوانوں کی تعداد انیس اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ان جوانوں کے روزگار کا بندوبست کرے اور ملکی اور بین الاقوامی سطح کے دورے کروائیتاکہ وہ اپنے ماحول کے خول سے نکل کر دوسرے ماحول کا بغور مشاہدہ کرسکیں اور ایک دوسرے سے سیکھ سکیں۔مسز حبیب شاہدہ صاحبہ نے یونین کے دو پہلوؤں پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔انہوں نے یونین کی منفی اور مثبت کاموں پر سیر حاصل گفتگو کی۔ اور آخر میں کہا۔ کہ چور اور منشیات فروش سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔
ڈاکٹر ندیم ملک صاحب نے کہا۔کہ لیڈر شپ کی ذمہ داری ہے۔کہ وہ لوگوں کو اپنے حقوق سے آگاہ کرے۔ عوام کو ووٹ کے تقدس سے آگاہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے وہ لیڈرشپ کی وجہ سے ہے۔ ان کے مطابق طلباء کو مواقع فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی سوچ کو درست کریں۔روشان خورشید جس کے یتیموں کے حوالے سے بڑی خدمات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ کی عزت میں کمی آ چکی ہے۔ اساتذہ ریکروٹمنٹ میں میرٹ کا خیال نہیں رکھا جا رہا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا رہے۔
انہوں نے کہا کہ طلبہ یونین کے متعلق کہ وہ اپنے ڈومین کے اندر کام کریں۔تعلیمی اداروں میں اپنے حقوق تک محدود رہیں۔توڑ پھوڑ اورہڑتال کا حصہ نہ بنیں۔
نیشنل پارٹی کے رہنما علی احمد لانگو نے کہاکہ ملک کے اندر سیاسی عمل کو برداشت نہیں کیا جا رہا۔یونین اور سیاسی عمل کو پروان نہیں چڑھنے دیا جارہا ۔عبدالقیوم بیدار نے اپنے تجزیے میں کہاکہ طلبہ یونین کی وجہ سے دنیا میں انقلاب برپا ہوئے ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ ہمسایہ ملک میں انقلاب ان طلباء کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ طلبہ یونین اور سیاست کو علاقے ،زبان اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کیا جارہا ہے۔آخر میں انہوں نے کہا کہ سیاستدان اپنے مفادات کے لئے طلبہ یونین کو استعمال کرنے سے گریز کریں۔
ڈپٹی سیکرٹری جناب فاروق کاکڑ نے کہا کہ طلبہ یونین کی وجہ سے ہی فن تحریر ،تقریر، سیاست اور سوشل انٹریکشن سے طلبہ سیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں یونین کا ہونا ضروری ہے کہ وہ اپنے حقوق حاصل کرسکیں۔تعلیمی انتظامیہ پر طلبہ یونین کا پریشر ہونا ضروری ہے۔ تاکہ درست فیصلے کیے جا سکیں۔جب سے تعلیمی اداروں میں یونین پر پابندی لگی ہے اس وقت سے بدامنی بڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ استحکام کی زیادتی جبر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اور آزادی کی زیادتی انارکی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔یونینز اعتدال کا راستہ اپنائیں۔ان کے مطابق طلبا کو اپنے اداروں کی سیاست اور مسائل تک محدود ہونا چاہئے۔
فکری طور پر ملکی سیاست پر مکالمہ ضرور کریں لیکن عملی طور پر سیاست میں حصہ لینے سے گریز کریں اور اپنی تعلیمی کیریئر پر نظر مرکوز رکھیں۔بی ایس او تعلیمی ادارے کے صدر عالمگیر نے سوال اٹھایاکہ اگر بڑی سیاسی جماعتیں حکومت میں رہ کر طلبہ یونین سے پابندی نہیں اٹھا سکتیں تو اس راہ میں رکاوٹ کون ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ تعلیمی اداروں میں انتظامیہ اور اساتذہ طلبہ کا استحصال کر رہے ہیںجس کی مثال بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسمنٹ سکینڈل کا کیس ہے۔جے آ ئی یوتھ بلوچستان کے صدر نور الدین غلزئی نے اپنے تجزیہ میں کہا کہ جب ہم بین الاقوامی سطح پر ترقی کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔
توپتہ چلتا ہے کہ اس میں طلبہ یونین کا کردار سب سے زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ منصوبہ بندی کے تحت سیاستدانوںکے خلاف منفی پروپیگنڈہ کر کے سیاست کو گالی بنا دی گئی ہے۔ماہر تعلیم زاہد مندوخیل نے کہا کہ طلبہ کو اپنے حقوق کے بارے میں تو آ گاہ کیا جاتا ہے لیکن انہیں اپنے فرائض کے متعلق درس نہیں دیا جاتا۔ان کے مطابق بین الاقوامی سطح پر اشرافیہ کی وجہ سے ہم ذہنی سطح پر آزاد نہیں ہیں۔جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری نے کہا کہ تمام یونینز کو بحال ہونا چاہیے ۔یونینز کے اندر کے انتخابات ہونے چاہییں۔
انہوں نے کہا اگرچہ پاکستان میں اصل جمہوریت نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت کا فقدان ہے۔ پارٹیوں کے اندر وراثت کا سلسلہ فروغ پا رہا ہے۔انہوں نے کہا تعلیم دینا حکومت کا کام ہے۔یہاں تو پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے گورنمنٹ باقاعدہ ٹیکس وصول کررہی ہے۔تعلیم تو ایلیٹ کلاس کے لئے رہ گئی ہے۔کانفرنس کے مہمان خصوصی جناب نوابزادہ لشکری رئیسانی صاحب نے کہا کہ آدھا سچ بولنا سچ نہیں ہوتاہمیں پورا سچ بولنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ارتقاء کو زبردستی روکا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں جمہوری اسٹیٹ کی طرف جدوجہد کرنا چاہیے۔ان کے مطابق سٹوڈنٹ یونینز بحال نہ کرنا آرٹیکیل 17 کی خلاف ورزی ہے۔ یونین کی ماڈلٹی پر بحث ہونا چاہیے۔یونین کے اندر رہ کر ووٹ کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ ووٹ کیوں دیا جاتا ہے، ووٹ کی اہمیت کو بغیر سمجھے ووٹ کاسٹ کرنے کے نقصانات کا سامنا ہم کر رہے ہیں۔طلبہ یونین ہی دراصل سیاسی قیادت کی پیداوار کی نرسریاں ہیں۔ یونین سیاست کے علاوہ فن تحریر ، تقریر ، ثقافت اور ملکی اور بین الاقوامی حالات سے آگاہ ہونے کا پلیٹ فارم ہے۔طلبہ یونین کے فوائد اور نقصانات پر بحث کیا جا سکتا ہے لیکن اس پر مکمل پابندی جبر کا تسلسل شمار ہوگا۔
یہ چمن یونہی کانٹوں سے الجھ کر رہے گا
ہم اپنی اپنی بولیاں بول کر اٹھ جائیںگے