|

وقتِ اشاعت :   February 11 – 2021

وزیر اعلی بلوچستان جام کمال سے اپیل ہے کہ کینسر کے مریضوں کو زندگی کی طرف لانے والے سینار ہسپتال کے مسائل حل
کروائے جائیں اور سینار کے ساتھ مل کر کینسر کے مرض کو بڑھنے سے روکنے کی حکمت عملی تیار کی جائے،صائمہ جاوید

کینسر لاعلاج نہیں بلکہ قابل علاج مرض ہے تاہم کینسرکی علامات کو نظر انداز کرنے سے مرض بڑھنا شروع ہوجاتا ہے ،
حکومت کے شانہ بشانہ غیر سرکاری سماجی تنظیموں کو چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی مہمات چلانے کی ضرورت ہے، فوزیہ شہزاد

گزشتہ سال انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2018 میں دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ 81 لاکھ کینسر کے نئے کیسز سامنے آئے ۔اموات کی شرح میں اضافے کی وجہ آبادی کا بڑھنا اور بوڑھا ہونا قرار دیا گیا ہے، ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کا صحت مند نہ ہونا اور بڑی معیشتوں کے ساتھ منسلک افراد کا خطرناک روایتی رہن سہن ہونا ہے۔تاہم اگر اس مرض کی تشخیص ابتدائی مرحلے پر ہوجائے تو علاج آسان اور اس سے مکمل چھٹکارا کافی حد تک ممکن ہوتا ہے۔

4 فروری کا دن کینسر کی آگاہی کے طور پر دنیابھر کی طرح بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں بھی منایا گیا، مختلف غیر سرکاری تنظیموں نے اگاہی کے فروغ کے لیے سیمنار اور ریلوں کا انعقاد کیا، سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اس موذی مرض کے مفت علاج معالجے اور ادویات کی فراہمی کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا ، عدم آگاہی علاج مہنگا اور علاج کے کم مواقع کی وجہ سے بلوچستان کے 66 فیصد غربت کے مارے لوگ زیادہ متاثر ہورہے ہیں کینسر نے بلوچستان کے سیکڑوں ہنستے مسکراتے چہروں کو موت کی چادر پہنا کر منوںمٹی تلے دبا دیا ہے۔

موت باٹنے کا یہ سلسلہ تھمنے کی بجائے روز بروز تیز ہوتا جارہا ہے انگریزی روزنامہ ٹائم کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں 1998 سے 2009 تک 10 ہزار924 کینسر کے مریض رپورٹ ہوئے تھے۔ 2014 سے 2017 تک شہر میں مزید10ہزار کیسز رپورٹ ہوئے اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے ، بلوچستان دھرتی کے نوجوان تنقید نگار شاعردنیال طریر(، مرحوم )۔ انسان دوستی کو اپنی نثر نگاری سے عوام تک پہنچانے والی شاعرہ امرت مراد سمیت لاتعدا لوگ کینسر جیسی بیماری کی تاخیر سے تشخیص کی وجہ سے موت کی وادی میں چلے گئے ہیں ۔

اور اپنے پیارو ں کو نہ بھرنے والے زخم دے گئے ہیں ۔ ہماری آج کی رپورٹ صوبے میں کینسرکی روک تھام اور علاج کو آسان بنانے کے لیے کیے جانے والے عملی اقدامات اور حائل رکاوٹوں کا جائزہ لینے کی کوشش ہے ۔ بلوچستان کے لوگوں خصوصاً خواتین کی سماجی معاشی طور پر خود انحصاری کے لیے کام کرنے کے لیے زندگی کو وقف کرنے والی معروف سماجی شخصیت جنہیں ان کی خدمات کے عتراف کے طور پر ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔

چیرپرسن ادارہ بحالی مستحقین محترمہ بیگم ثریا اللہ دین نے چھاتی کے کینسر کی روک تھام اور علاج کی سہولیات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چھاتی کے کینسر کے مرض کے پھیلاو کو اگاہی کو فروغ دینے اور بروقت علاج کروانے سے روکا جاسکتا ہے الحمداللہ بلوچستان میں سینار جیسا بہترین مشینری اور سہولیات سے آراستہ ہسپتال گزشتہ 27برسوں سے صوبے اور پڑوسی ملک افغانستان کے کینسر کے مریضوں کے علاج کی خدمات سرانجام دے رہا ہے ، ہسپتال انتظامیہ کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے میں اور میری سا تھی خواتین ہمہ وقت تیار رہتی ہیں ،اس وقت ہسپتال کو بجلی کی 24گھنٹے فراہمی کے لیے اسپیشل لائن کی ضرورت ہے ۔

صدر کی بیگم کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر میں نے بجلی کی اسپیشل لائن کی فراہمی کا کہا انہوں نے گورنر بلوچستان کی بیوی کو یہ کام کرانے کی زمہ دار سونپی ہے اس وقت بولان میڈیکل ہسپتال کو بجلی کی اسپیشل لائن دی گئی ہے ، سینار ہسپتال میں پینے کے پانی کی بھی قلت ہے ۔ اسی طرح بلوچستان کے غریب مریضوں کے علاج کے لیے صوبائی حکومت کے تعاون کو مزید بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ۔ ہسپتال جو وفاقی حکومت کے ادارے اٹامینک انرجی کمیشن کی نگرانی میں کام کررہا ہے اس کے مسائل کو حل کرنا صوبائی حکومت کی زمہ داری ہے ، ہسپتال میں دنیا کی جدید ترین مشینری وفاقی حکومت کے فنڈز سے ہی لگائی گئی ہے۔

ٹیسٹوں اور ادویات کے اخراجات کے وجابات کی ادیگی کے لیے مریضوں کو محکمہ زکواۃ اور سماجی بہبود کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے ، وزیر اعلی بلوچستان سے میری پرزور اپیل ہے کہ سینار ہسپتال کو بجلی کی ایکسپریس لائن لگانے سمیت دیگر مسائل کو حل کرانے کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کریں تاکہ صوبے کے کینسر کے مریضوں کے علاج میں انے والی مشکلات کم ہو سکیں ، کینسر کے مہلک مرض سے مقابلے کے لیے صوبائی حکومت سینار ہسپتال انتظامیہ کو ان بورڈ میں ، سینار ہسپتال سے محکمہ صحت کا تعصب پر مبنی رویہ کینسر کے مریضوں کے علاج میں رکاوٹ کا سبب بن رہا ہے۔

آنے والے مریضوں کی اکثریت زکواۃ فنڈ سے مستفید ہوتی ہے ، کینسر کے بارے میں اگاہی کے لیے محکمہ صحت ، اور محکمہ تعلیم مل کر صوبائی سطح پر آگاہی مہم شروع کرے تمام ضلاعی ہسپتالوں میں کینسر کی سکینگ کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ مرض کی علامات ظاہر ہوتے ہی بروق علاج شروع ہو سکے ، ادارہ بحالی مستحقین ۔خواتین پردہ کلب، چلتن لائن کلب سینار ہسپتال کے ساتھ مل کراگاہی کو فروغ دینے کے ساتھ غریب مریضوں کی مالی معاونت بھی کر رہے ہیں، ہمارے ادارے محکمہ صحت کے ساتھ تعاون کے لیے بھی تیار ہیں ، میں اور میری ساتھی خواتین عزیزو اقارب چھاتی کے کینسر کی آگاہی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہیں ہیں ۔

آگاہی ہی واحد زریعہ ہے جس کے بعدخواتین پہلے خود اپنا معانہ کرنے اور کسی قسم کی گٹھلی محسوس ہونے پر فورا ڈاکٹر سے رجوع کر سکتی ہیں ، سول سوسائٹی اور حکومتی ادارؤں کو کینسر کے مریضوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی اشد ضرورت ہے ، امیدہے صوبائی حکومت سینار ہسپتال کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے ہماری گزارشات پر عمل کرائے گی۔بلوچستان میں کینسر کے علاج کے قدیم ترین ہسپتال سینار کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حافظ خوش نصیب نے تفصیلات بتاتے ہوے کہا کہ (سنیٹر فار نیوکلیر میڈیسن اینڈریڈیو تھراپی) کی تعمیر مکمل ہوتے ہی 2اپریل 1990 کے دن سے کینسر کے مریضوں کا علاج شروع کردیا گیا.الحمداللہ اب تک ہزاروں مریض صحت یاب ہوکر نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔

پاکستان میں سینار کے 18ہسپتال کینسر کے مریضوں کا معمولی فیسوں کے عیوض علاج کر رہے ہیں۔ہمارے پاس دس ماہر ڈاکٹرز ہیں جن میں سے 6خواتین ڈاکٹرز ہیں یہاں کینسر کے علاج کے لیے جدید ترین مشینری انسٹال کی گئی ہے چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے ء مہنگی ترین مشین انسٹال ہوچکی ہے.ہمارے پاس چالیس بستر پر مشتمل دو وارڈز موجود ہیں ,جدید ترین لیباٹریز .اور بازار سے 85فیصد کم قیمت ادویات کی سہولت موجود ہے.ریڈیشن .بلاک کی تعمیر بھی مکمل ہوچکی ہے جس میں مذید مشینری لگائی گی ہے۔

مریضوں کو میعاری کھانا کم ترین نرخوں پر فراہم کیا جاتا ہے. مختلف کینسر کے ٹیسٹوں کے لیے لگائی گی مشینری کی دیکھ بھال اور آپریٹرز کی ٹرینگ مشینری فراہم کرنے والی کمپنی کی زمہ داری ہے.تمام مشینیں کمپوٹرایز ہیں جو ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ ہیں .علاج کے ساتھ معاشرے میں اگاہی کے فروغ کے لیے پڑھی لکھی خواتین کو ماسٹر ٹرینر کی تربیت دے کر مختلف تعلمی اداروں میں آگاہی سیمنار منعقد کراے جاتے ہیں،بلوچ آبادی والے علاقوں کے مریض کراچی قریب ہونے کی وجہ سے کراچی جاتے ہیںِِ، ہسپتال کے مسائل کا ذکرکرتے ہوے ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہمیں 400 کے وی کا جرنیٹر چلنا پڑتا ہے ۔

جس سے ماہانہ 2.لاکھ سے زیادہ کا اضا فی خرچہ برداشت کرنا پرتا ہے مشینری جب سٹارٹ ہوتی ہے تو اسے بند نہیں کیا جاسکتا. بجلی کی اسپیشل لاین کی اشد ضرورت ہے.پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے.میں اور ہسپتال کا تمام سٹاف بلوچستان کی معروف سماجی شخصیت محترمہ ثریا اللہ دین کا ممنون و احسان مند ہے ان کی سرپرستی اور تعاون سے ہمارے بے شمار مسا ئل حل ہوجاتے ہیں ,ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال کے ماحول کو ایسا بنایا گیا ہے کہ یہاں انے والے کینسر کے مریضوں کا زہنی دباو اور بیماری کے نفسیاتی اثرات کو کم کیا جاسکے، ہسپتال میں مور سمیت مختلف اقسام کے پرندے رکھے گئے ہیں، جن کو دیکھ کر مریضوں کی تکلیف میں کمی اتی ہے ۔

سینار ہسپتال کی پرنسپل میڈیکل افیسر ڈاکٹر شہلا افتخارنے بتایا کہ بلوچستان کی ابادی کی اکثریت انتہائی غریب ہے جن کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی مشکل ہوتا ہے جن کے شب روز گھر کا چولہ جلانے کی تگ ودو میں گزر رہے ہوتے ہیں ان کو اپنی صحت کے معاملات کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہوتا اور اگر کسی کی تکلیف ناقابل برداشت ہوجائے تو اسے مشکل سے ہی کسی قریبی ہسپتال لے جایا جاتا ہے افزان صحت کے اصلوں کے مطابق خوراک پھل کا استعمال نہ ہونا۔غربت کی وجہ سے علاج کی طرف توجہ نہ دینا۔علاج کا انتہائی مہنگا ہونا۔

خاندان میں سے کسی کو مرض کا لاحق ہونا۔اسی صوتحال سے بچنے کے لیے سکینگ انتہائی ضروری ہے۔کسی قسم کی علامات ظاہر ہوتے ہی سکینگ کروا لی جاے تو مریض کا علاج جلد اور کم تکلیف دے ہوتا ہے۔خاندان میں شادی کا رواج بھی ایک وجہ ہے۔سگریٹ پینے والے مردوں میں کینسر کامرض زیادہ دیکھنے میں ارہاہے۔ہیلتھ سیکٹر اور سول سوسائٹی کو مل کر کینسر سے متعلق شعور آگاہی کو پروان چڑہانے کی ضرورت ہے،لوگوں کو اس بات پر قائل کرنیکی ضرورت ہے کہ ابتدائی طور پر اسٹیج میں علاج با اسانی ہوسکتا ہے اس علاج کی سہولت سینار اور بی ایم سی میں دستیاب ہے۔

سینار میں اس وقت کس اسٹیج کے مریض آرہے ہیں کے سوال کا جواب دیتے ہوے ڈاکٹر شہلا کا کہنا تھا کہ تین سال قبل تک اسٹیج تھری اور فور کے زیادہ مریض آتے تھے لیکن الحمداللہ ہماری تعلیمی اداروں میں جاری اگاہی مہمات کے اثرات سامنے آناشروع ہوگے ہیں گزشتہ سال سے اب پہلے اور دوسرے سٹیج کے مریض علاج کیلئے آرہے ہیںخواتین مریض سینار باخوشی آرہی ہیں کیوں کہ یہاں چھاتی کے کینسر کی جدید پہلی مشین موجود ہے۔صوبائی حکومت کی سپورٹ نہ ہونے کے برابرہے ہمارے ہسپتال کو انر نہیں کیا جاتا محکمہ صحت کسی قسم کے تعاون کے لیے تیار نہیں ہے۔

اس کے باوجود ہم اپنے محدود وسائل میں بلوچستان اور افغانستان کے مریضوں کو علاج کی بہترین سہولیا ت فراہم کررہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محکمہ صحت بلوچستان سینار سے عناد رکھتا ہے ۔حالاکہ سینار میں آنے والے مریضوں کی اکثرہت بلوچستان کے مخلف علاقوں سے آتی ہے۔مجھے یہ رویہ سمجھ نہیں آتا، کینسر کے حوالے سے ہونے والے پروگرامز اور پالیسی سازی میں ہمارے ادارے کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ محکمہ زکواۃاور بیت المال کا تعاون بہت اچھا ہے انہی اداروں کے مالی تعاون سے ہمارے 80فیصد مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

سینار کی انتظامیہ کی جانے سے محکمہ صحت اور حکومت بلوچستان کو بے شمار مرتبہ ساتھ مل کر کینسر کا مقابلہ کرنے کی تجویز دی گی ہے مگر کبھی بھی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔محکمہ صحت بلو چستان اور سینار مل کر صوبے میں بڑھتے ہوے کینسر کے مرض پر قابو پا سکتے ہیں۔سبی کے دوردراز گاوں جس میں ابھی تک بچیوں کا پرائمبری سکول تک نہیں ہے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ماہ جبین مری نے بتایا کہ میں 2007 میں گریجوایشن کے بعد بچوں کے علاج کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کی معلومات کے لیے سینار آئی تو مجھے کہا گیا کہ پوسٹیں آئی ہیں۔

تعناتی کے آڈر ا ٓنے کے دن سے میرے شب روز کینسر کے مریضوں کے علاج.معلجے میں گزر رہے ہیں کینسر جیسے مرض کے شکار مریضوں کا علاج کرتے ہوئے عرصہ گزر گیا ہے لیکن دکھ کا مقام ہے کہ مرض سے متعلق آگاہی نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے ہسپتال تاخیر سے آنے والے 80. فیصدمریضوں کا علاج انتہائی تکلیف دے ہوتا ہے اور کینسر جسم میں پھیل جانے کی وجہ سے بہت کم لوگ صحت یاب ہوپاتے ہیں جس کی وجہ سے دل دکھی ہی رہتا ہے ڈاکٹر ماہ جبین نے بتایا کہ یہاں آنے والے مریضوں کی بڑی تعداد خوراک کی نالی کے کینسر , معدے اورسکین کینسر کے مریضوںکی ہوتی ہے۔

چھاتی کے کینسر کے بارے میں اگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم مریض علاج کے لیے آتی ہیں گورے رنگ اور صاف جلد والے لوگوں کوسکین کینسر کا مرض لاحق ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیںِ ان کا کہنا تھا کہ مرد مریض زیادہ آتے ہیں بلوچستان میں عورتوں کی بیماری کو اہمیت نہیں دی جاتی .کیونکہ خواتین کو اپنی زندگی صحت علاج معالجے کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہوتا اس لیے کینسر کی مریض خواتین کو موت کے منہ میں جانے کے لیے گھروں میں ہی رکھا جاتا ہے.یہاں آنے والے 80فیصد مریض اسٹیج تھری اور فورتھ کے ہوتے ہیں۔

جن کے صحت یاب ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں، بروقت علاج کے لیے آنے والے مریضوں کا علاج جلد اور کم تکلیف دے ہوتا ہے .علاج کے بعد فالو اپ کے لیے آنا چاہے جو کہ لوگ نہیں آتے.،خواتین کو شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی چھاتی کا معانہ کرنا چاہئیے کسی قسم کی گٹھلی محسوس ہونے کی صورت میں فورا ڈاکٹر کو چیک کروانا چاہے۔ بولان میڈیکل کمپلکس ہسپتال میں کینسر کے مریضوں کے علاج معلجے میںمصروف عمل پروفیسرڈاکٹر زاہد محمود کے مطابق بلوچستان میں غربت خوراک کی کمی، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی،اور بھر وقت علاج کے لیے ڈاکڑ سے رجوع نہ کرنے کی وجوہات کے باعث کینسر کے مریضوں میں سال باسال اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ،ان کا کہنا تھا کہ بی ایم سی میں قائم موجودہ کینسر وارڈ دو سال قبل بنایا گیا تھا۔

اس سے قبل ہمیں صرف چند کمرے دیے گے تھے یہاں انے والے پہلے اور دوسرے سٹیج کے مریضوں کا کامیاب علاج کیا جارہا ہے مگر مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے سب کا علاج یہاں ممکن نہیں ہے ،بلوچستان میں کینسر کے ایک جدید ترین ہسپتال کی اشد ضرورت ہے جہاں غریب مریضوں کا مفت علاج ہو سکے ،فی الحال ، بلوچستان میں کینسر کے بیشتر مریض علاج کے لئے کراچی جاتے ہیں تاہم ، کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کہ کراچی میں ہر سال بلوچستان سے کتنے لوگ کینسر کا علاج کرانے جاتے ہیں ہر آٹھ پاکستانی خواتین میں سے ایک چھاتی کے کینسر کا شکار ہوجاتی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق کینسر کے نتیجے میں 2018 میں پوری دنیا میں 10 ملین اموات ہوئیں۔۔ کینسر سے ہونے والی اموات میں اضافے کی بڑی وجہ آگاہی کی کمی بھی ہے۔ بہت سے مریض علاج کے لئے تب ہسپتال جاتے ہیں جب وہ بیماری کے تیسرے یا چوتھے مرحلے میں پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ اس وقت ، زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں،.کالج آفزیشن اینڈ سرجن پاکستان کی بلوچستان سے پہلی ایگزیگٹیو کونسل ممبرماہر امراض نسواں سربرا ہ گائینی وارڈ تھری سول ہسپتال پروفیسر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ عالمی سطح ُپر 4 فروری کو کینسر سے بچاو کا دن منانے کا مقصد مرج سے متعلق آگاہی اور علاج کی سہولیات کو بہتر اور عام کرنے کی ضرورت پر زور دینا ہوتا ہے۔

کینسر بہت زیادہ پھیل رہا ہے اس کی روک تھام انتہای ضروری ہے.اس کی روک تھام کے لیے خواتین کو اگاہی فراہم کرنا بڑا چیلنج ہے .جس میں کسی قسم کی گٹھلی محسوس ہونے پر فورا متعلقہ ڈاکٹر کو چیک کروایں اگر گٹھلی محسوس ہو رہی ہے تو کیا وہ ایک جگہ پر فیکس ہے یا اگے پیچھے حرکت کرتی ہے،: چھاتی کا کینسر خاندان در خاندان جینز کے ذریعے بھی پھیلتاہے.یعنی اگر ماں خالہ.بہن کو ہے تو خونی رشتوں سے بھی منتقل ہوتا ہے.عورتوں میں بہت زیادہ ہے.لیکن مردوں میں کم لوگوں کو ہوتا ہے.اگر کسی کو چھاتی کا کینسر ہوجاے پتہ چل جاے خدا ناخواستہ کہ گٹھلی ہے۔

تو اسی صورت میں بلا تاخیر کے ڈاکٹر کے پاس جانا چائے ڈاکٹر مکمل معانیہ کرے گا.اس کے الٹرا ساونڈ کرے گا.ایک ایکسرے ہوتا ہے جسے میموگرافی کہتے ہیں میں پتہ چل جاے گا.اس مرض کا علاج جتنا جلدی شروع ہوگا اتنا ہی علاج آسان اور مریض جلد صحت یاب ہوجاے گا.کچھ لو گ خوامخواہ میں ہی پریشان ہو جاتے ہیں وہ ماہیں جو بچوں کو دودہ پلاتی ہیں ان کی چھاتیوں میں بھی کبھی کبھی گٹھلیاں بن جاتی ہیں انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے.اگر ڈاکٹر آپریشن کا کہے تو دیر نہیں کرنی چائے آپریشن سے پیپ نکال دی جاتی ہے اور مریضہ جلد صحت یاب ہوجاتی ہے ۔

ایسی صورت میں ادویات سے علاج کرانے کی ضد نہیں کرنی چایئے: آپریشن میں تاخیر سے دوہ د کی نالیاں بند ہوجاتی ہیں اور وہ حصہ ناکارہ ہوجاتا ہے.40سال کے بعد ہر عورت کو میمو گرافی کرانی چاے.سگریٹ نوشی بند کریں .ہارمونز ٹیبلٹ لینا بند کردیں علاج مکمن ہے لیکن پہلے دوسرے اسٹئج کے بعد علاج مشکل اور تکلیف دے ہوجاتا ہے ۔ کینسر کے علاج کے لیے پہلے صرف سینار ، بی ایم سی ہسپتال ہی تھے اب کینسر کا جدید ہسپتال زیر تعمیر ہے امید ہے حکومت اس کی جلد تعمیر پر توجہ دے گی۔غیر معیاری کھانے پینے کی اشیا بھی کینسر کے پھیلاو کا سبب ہیں کینسر کے علاج کے ساتھ کینسر کے پھیلاو کو بھی روکنا ہوگا ،ادویات کی standardization بہت ضروری ہے،الحمداللہ بلوچستان میں سینر سرجن ہیں جو چھاتی کا آپریشن بھی کرتے ہیں ۔

جن میں سرجن نگہت ارباب.سرجن مینہ کریم . سرجن عالیہ ہاشمی,سرجن ماریہ ، میں نے خود سرجری کاکورس گلایسکو سے مکمل کیا اب خواتین ڈاکٹرز کامیاب آپریشن کررہی ہیں ,سینار ہسپتال میں بھیء ڈاکٹر جمیلہ شجاع ریڈیو تھراپی یعنی شعائوں سے چھاتی کے کینسر کا علاج کر رہی ہیں ,شیخ زاہد ہسپتال میں بھیء خواتین سرجن موجود ہیں .بے نظیر ہسپتال .سول ہسپتال.اور بولان میڈیکل کمپلکس ہسپتال میں بھء خواتین سرجن موحود ہیں محکمہ صحت کے چیف پلانگ افیسر غلام رسول زہری نے بتایا کہ کینسر ہسپتال شیخ زاہد 150 بستر ,12وارڈز اور22پرائیویٹ کمروں پر مشتمل ہے۔

جس کا افتتاح وزیراعلی بلوچستان جام کمال نے 4فروری 2020عالمی کینسر ڈے کے موقع پر کیا تھا ہسپتال کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے.فنڈز کی برقت ریلز جاری رہی تو ہسپتال اپنی مقررہ مدت 2سال میں مکمل ہوجاے گا. منصوبے پر 1558 ملین روپے کی لاگت آئے گی ، کینسر یونٹ کو انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مابق تعمیر کیا جارہا ہے۔ سماجی شخصیت صائمہ جاوید کا کہنا تھاکہ موجودہ طرز زندگی کو بدلنے کی ضرورت ہے ، فاسٹ فوڈ کے زیادہ استعمال اور ورزش نہ کرنے کی عادت سے لاتعداد لوگ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو رہے ہیں ۔

صحت مند رہنے کی کوشش کرنے والے لوگ ایس بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ سینار ہسپتال گزشتہ 30برسوں سے جدید مشنری اور کوالفائڈ ڈاکٹر ،سٹاف کے زریعے بلوچستان کے مریضوں کا علاج کررہا ہے لیکن صوبائی محکمہ صحت کے عدم تعاون سے انسانیت کی خدمت کرنے والے وفاقی حکومت کے ادارے کو انر شپ نہیں دی جارہی طویل عرصے سے سینار کی انتظامیہ نے بجلی لوڈشیڈ نگ سے اثتنا قراردینے اور ایکسپریس لائن کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے مگر نہ کیسکو تعاون کر رہا ہے اور نہ محکمہ صحت بلوچستان تعاون کرنے کو تیار ہے۔

وزیر اعلی بلوچستان جام کمال سے اپیل ہے کہ کینسر کے مریضوں کو زندگی کی طرف لانے والے سینار ہسپتال کے مسائل حل کروائے جائیں اور سینار کے ساتھ مل کر کینسر کے مرض کو بڑھنے سے روکنے کی حکمت عملی تیار کی جائے۔سماجی شخصیت فوزیہ شہزاد نے کہا کہ چھاتی کا سرطان خواتین میں بہت زیادہ عام ہورہا ہے، اس سے اگاہی اور علاج کی سہولیات کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے سینار ہسپتال وفاقی حکومت کا بہت بڑا تحفہ ہے وہاں بلوچستان کے مریضوں کا ہی علاج ہوتا ہے صوبائی حکومت کے محکمہ صحت کو اس بہترین ہسپتال کو اپنا ہسپتال سمجھ کر اس کی انتظامیہ سے بھرپور تعاون کرنا چائے۔

بدقسمتی سے بلوچستان میں جہاں خواتین پہلے ہی لاتعداد مشکلات کا شکار ہیں ان کو اپنی صحت اور علاج کرانے کا فیصلہ کرنے تک کا اختیار نہیںان کو اگاہی دینے کی سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے اس انتہائی اہم مسلے پر سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کرتی دکھائی نہیں دیتی ، میں نے خود چھاتی کے کینسر سے متعلق اگاہی حاصل کی ہے تربیت حاصل کی اس آگاہی کو میں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش بھی کر رہی ہوں ۔