|

وقتِ اشاعت :   February 12 – 2021

سیاست کو پہلے یعنی ریاست مدینے کے وقت عبادت کا درجہ دے کر خلق خدا اور انسانیت کی خدمت کی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ سیاست میں مکاری دھوکہ دہی اور سیاست کاروباری بننے لگا۔ اب ہم سب بلاشبہ یہ ماننے پر حق بجانب ہیں کہ سیاست آج کل یا موجودہ حالات میں منافع بخش کاروبار کی روپ دھار چکی ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے برملا کہا تھا کہ آ جائو سیاست میں لگ گیا تو وزیر نہیں تو فقیر۔ بالکل موجودہ حالات اسی بات کی مکمل عکاسی کرتے ہیں تاہم عام انتخابات ہوں یا سینٹ، امیدوار دل لٹا کر دولت خرچ کرتے ہیں پاکستانی سیاست دنیا کی نسبت منافع بخش اور طاقت کا محور سمجھا جا تا ہے اسی وجہ سے جس شعبے میں وافر مقدار میںپیسہ،اقتدار طاقت رعب و دبدبہ ہو پاکستانی قوم اس عہدے کیلئے دولت پانی کی طرح بہاتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جس طرح سینٹ میں ہارس ٹریڈنگ کا کاروبار عروج پر پہنچ جکا ہے۔ بلوچستان کو اسی سیاسی خریدو خروخت کا اکھاڑہ بنانے میں کراچی ،کے پی کے اور پنجاب کے کامیاب بزنس مینوں کا کردار رہا ہے۔بلوچستان اسی کی دھائی میں پہلا صوبہ تھا جہاں کے گورنرز اور سینٹرز بھی باہر سے امپورٹ یعنی لائے یا بنائے جاتے جاتے تھے۔ نواز شریف دور میں والی سوات میاں گل اورنگ زیب اور بینظیر بھٹو شہید کے دور میں عمران اللہ خان ،اویس احمد غنی و دیگر ان جیسی شخصیات صوبے کے گورنر کے اہم منصب پر فائز رہے یعنی صوبے میں اب تک کل 21 گورنرز میں سے صرف 13 گورنرز بلوچستان سے لئے گئے تھے۔ جبکہ سینٹ کے انتخابات میں مشہور کاروباری شخصیات اپنے کمال مہارت اور مالی اداکاری کی بدولت بلوچستان کے اراکین اسمبلی کے چہیتے بن کر سینیٹر بنتے ہیں۔

اور چھ سال تک ایوان بالا کے یخ بستہ فضائوں اور راہداریوں کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔ تاہم وہ کبھی بھی بلوچستان کی پسماندگی بدحالی اور مفلوک الحال عوام کی ترقی کیلئے کسی بھی اجلاس میں لب کشائی نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنی دولت اور تعلقات کی بدولت ہی سینٹرز منتخب ہوتے تھے ،ان کی ترجیحات بلوچستان نہیں بلکہ انہوں نے اپنے انتخاب کے وقت جو کروڑوں روپے خرچ کئے تھے وہی نقصانات کا ازالہ ان کی ترجیحات ہوتیںتھیں۔ اس طرح کا سلسلہ ملک کے کسی اور دوسرے صوبے یا علاقے میں نہیں ہوتا۔ سینٹرز کے انتخاب کی منڈی بلوچستان ہی میں لگتی تھی اور اس دوران بلوچستان اسمبلی کے اراکین بھی خوشی خوشی اسی منڈی میں اپنا بھائو رکھ کر اپنے خریدو فروخت کرنے کے کاروبار کو بخوشی اور رضا مندی سے فروغ دیتے رہتے ہیں۔

جنرل مشروف کے دور اقتدار اور میاں نواز شریف محترمہ بینظیر بھٹو کی جلا وطنی کے دوران نواب زادہ نصراللہ خان کی قیات میں مشرف مخالف سیاسی جماعتوں نے جب آے آر ڈی بنائی اور بعد ازاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت کے معاہدہ کیے تو سینٹ سمیت قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ہونے والی خرید و فروخت کو زیادہ فوکس کیا گیا ۔اراکین اسمبلی کے ہارس ٹریڈنگ پر غور کے بعد اس طرح کی خرید و فروخت کے موثر تدارک کیلئے میثاق جمہوریت کا ایک باقاعدہ اور جامع معاہدہ کیا گیا تاکہ آئندہ اس طرح کے اراکین اسمبلی کی خریدو فروخت کی حوصلہ شکنی اور ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہو سکے۔ اور اس تسلسل کو مزید پروان چڑھاتے ہوئے مسلم لیگ ن اور پی پی پی سمیت دیگر جمہوریت پسند جماعتوں نے آئین میں ترمیم کر دی۔

یقینا ہارس ٹریڈنگ کیخاتمے میں 18ویں ترمیم کا اہم کردار و اہمیت ہے۔ 18 ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد ہی سیاسی منافع بخش تجارت کے ختم ہونے کے آثار محسوس ہونے لگے اور ساتھ اسی ترمیم کے بعد پارٹیاں بدلنے والے اراکین اسمبلی لوٹا کریسی سمیت سینٹ کے انتخابات میں خرید و فروخت کا سلسلہ کسی حد تک ختم ہوا یا یوں کہا جائے کہ بلوچستان میں صوبے کے باہر سے کروڑوں روپے کے عیوض منتخب ہونے والا تسلسل کسی حد تک ختم یا پھر مکمل ختم ہوا تاہم باہر کے بجائے بلوچستان کے بااثر اور دولت مندوں نے یہ سلسلہ جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کوبنانے اور لانچ کرنے کا جب حکم صادر ہوا تو پارٹی قائدین نے اپنے منشور میں صوبے کے تمام تر فیصلے آئندہ اسلام آباد ،مری ،لاہور کے بجائے کوئٹہ میں کرنے کا اعلان اور دعویٰ کیا۔

اب وہی پارٹی خیبر پختون خواہ کی بااثر خاتون کو کس کے اشارے حکم یا پھر سابقہ روایات کی طرح کروڑوں کی چمک کے عیوض منتخب کرانے جا رہی ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ بلوچستان کی نمائندہ جماعت اور دعویدار پارٹی اب صوبے کی خواتین کے بجائے خیبر پختون خواہ کے بااثر خواتین کا انتخاب کرنا چاہ رہی ہے۔ جہاں سے اب عام و خاص کو اندازہ ہو رہا ہے کہ بی اے پی کے پارٹی فیصلے نہ تو کوئٹہ میں ہو رہے ہیں اور نہ ہی بلوچستان کی قیادت اس طرح کے آزادانہ فیصلے کر سکتی ہے۔ اب بلوچستان کی تمام سیاسی پارٹیاں بھی اپنے سینئر ورکرز کے بجائے مالدار اور امیر لوگوں کو ہی اہمیت دے رہے ہیں سینٹ کا حقدار عام جیالا کارکن نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے ہی اکھاڑے کے پہلوان بنتے ہیں۔

آج کل بلوچستان میں سینٹر بننے اور اراکین کی خروفروخت کیلئے بلوچستان اسمبلی باقاعدہ منڈی کا روپ دھار چکی ہے، ابھی سے اراکین اسمبلی کی بولیاں لگنی شروع ہو گئی ہیں آج کل 40 سے 45 کروڑ تک کی بولی سوشل میڈیا کی زینت بن چکی ہے۔ کل خود وزیر اعظم عمران خان نے ایک تقریب سے خطاب کہا کہ ایک سینٹر بننے کیلئے ستر کروڑ تک بولیاں لگائی جا رہی ہیں۔اسی وجہ سے آج تحریک انصاف اوپن بیلٹ کی حامی ہے جبکہ اس سے قبل یہی تحریک انصاف سیکرٹ بیلٹ کی حامی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پی پی پی پہلے اوپن بیلٹ اب سیکرٹ بیلٹ کی حمایت کر رہے ہیں یہ مکافات عمل ہے اس سے قبل سینٹ میں مسلم لیگ ن کوسینٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کیلئے بلوچستان اسمبلی کے چوبیس اراکین توڑ لئے گئے تھے۔

مسلم لیگ ن کے چند اراکین کے سوا تمام اراکین نے پانچ آزاد سینٹرز منتخب کرائے اب وہی سینیٹرز بی اے پی کے جھنڈے تلے جمع ہیں۔ اس بار سینٹ انتخابات میں بھی سابقہ روایات کودہراکر تماشا لگایا جارہا ہے۔ اور نام نہاد آزادانہ ماحول میں اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کا کھیل کھیلا جائے گا۔ بلوچستان کے اراکین اسمبلی اس بار سابقہ روایات کو ختم کرنے اور اسمبلی اراکین کو مویشیوں کی طرح منڈی کی زینت بنانے کے بجائے نظریات، پارٹی اصول اور صوبے کے قبائلی روایات کے تحت بلوچستان کے ہی سیاسی جماعتوں کے سیاسی ورکروں اور قائدین کا انتخاب کریں۔ بلوچستان اسمبلی کو تجارتی منڈی یا اسٹاک ایکسچینج بنانے کے بجائے سیاسی جمہوری بلوغت اور نظریاتی کارکنوں کا اکھاڑہ بنائیں۔

صوبے میں تمام سیاسی جماعتیں اراکین اسمبلی قبائلی زعماء صوبے کے مقامی سیاسی کارکنوں ورکروں کو اہمیت دے کر ایسے افراد کی مکمل حوصلہ افزائی اور خرید و فروخت کرنے والے بزنس کلاس کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ آئندہ کسی بھی انتخابات میں بلوچستان کے اراکین اسمبلی کی خرید وفروخت کے چرچے اور قصے عام نہ ہوں۔ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے جام کمال خان بھی اپنے قول اور وعدے کا پاس رکھیںاور خیبر پختون خواہ کے بجائے بلوچستانیوں کو پہلی ترجیح میں منتخب کرائیں ۔بلاشبہ جام،جمالی، ہاشمی، لہڑی، بگٹی، بلیدی، کرد، بنگلزئی، لانگو، دمڑ، کاکڑ، ہزارہ، کیھتران و دیگر اتحادی جماعتوں کے حمایتی افراد کا انتخاب کریں لیکن سینٹرز صرف اور صرف بلوچستان کے لوکل نمائندوں کو ہی بنائیں تاہم اب وقت بتائے گا کہ بلوچستان کے اراکین اسمبلی کروڑوں روپے کے حصول میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر ان کروڑوں کی رقم کو ٹھکرا کر صوبے کے پارٹی جیالوں ورکروں قربانی دینے والوں کا انتخاب کرتے ہیں۔