|

وقتِ اشاعت :   February 17 – 2021

افسوس کا مقام ہے کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ابھی تک ایک بھی شاہراہ ڈبل وے نہیں ہے جبکہ پنجاب ودیگر صوبوں کی زیادہ تر شاہراہیں ڈبل وے ہیں یہ سراسر ظلم ہے جو بلوچستان کے عوام کے ساتھ روارکھاجارہاہے۔حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ ایک سال کے دوران بلوچستان کے مختلف شاہراہوں پر حادثادث کے سبب سے 8 ہزار لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ گنوا بیٹھے جبکہ پچھلی دہائی میں دہشتگردی کی وجہ سے مارے گئے افراد کی تعدار 2238 ہے۔

اگر دیکھاجائے تو بلوچستان میں سب سے زیادہ اموات ان شاہراہوں کی وجہ سے ہورہی ہیں لیکن حکومت کو کرونا وائرس کی پڑی ہے کہ اس سے لوگ مررہے ہیں لیکن ان شاہراہوں کی وجہ سے اموات نظر ہی نہیں آ رہی ہیں۔مکران کے اکثر لوگ کراچی و دیگر شہروں میں علاج معالجہ کے لئے اور بہت کم لوگ سیرو تفریح یا تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کئی ہزار لوگ ان شاہراہوں پر سفر کرتے ہیں۔کوئٹہ ٹو کراچی شاہراہ 813 کلو میٹر (505) میل ہے اور اسے آر سی ڈی شاہراہ بھی کہا جاتاہے۔یہ سنگل شاہراہ 10 بڑے شہروں سے گزرتی ہے۔

مقامی لوگ اس شاہراہ کو قاتل روڈ کہتے ہیں کیونکہ ایک سال کے دوران یہاں 800 سے زائد حادثات رونما ہوچکے ہیں۔سال 2019 کے اپریل میں کراچی ٹو کوئٹہ شاہراہ پر مسافر وین ٹریک سے ٹکرا گئی اور بارش کی وجہ پھسل کر دوسری طرف جاکر گرگئی نتیجے میں ایک ہی خاندان کے نو افراد کی موت واقع ہوئی جو کوئٹہ میں جنازے میں شرکت کرنے کے لئے جا رہے تھے۔کچھ عرصہ قبل کراچی سے پنجگور ایک مسافر بس 27 مسافروں کے ساتھ پنجگور کی طرف روانہ ہوا، جب لسبیلہ کا مقام آیا تو ٹریک سے ٹکرا گئی جس کے نتیجہ میں بس میں آگ لگی اور سارے مسافر جل کر راکھ ہوگئے۔

جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے،اس دردناک واقعہ نے سارے بلوچستان کو سوگوار کردیا۔اسی طرح سابق کمشنر مکران شہید طارق قمر زہری اپنے ڈرائیور اور گن مین کے ہمراہ گھر جارہے تھے تو راستے میں تیل بردار گاڑی سے ٹکرا گئے،گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی یوں کمشنر اپنے ڈرائیور اور گن میں سمیت خالق حقیقی سے جاملے۔ صرف یہی نہیں اور کئی قیمتی جانیں اور اثاثے ان خونی شاہراہوں کی زد میں آچکے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی حادثہ رونما ہوا جو اوتھل کے مقام پر پیش آیاجس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ان شاہراہوں پر لاتعداد حادثات رونما ہوئے ہیں۔

شاہراہوں پر دن بدن حادثات کی تعداد میں اضافہ ہوتاجارہا ہے اور یہ بلوچستان میں معمول بن چکاہے۔ بلوچستان میں شاہراہوں پر حادثات دہشتگردی سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔سالانہ اربوں روپے سیکورٹی کے نام پر خرچ کیے جاتے ہیں لیکن ان شاہراہوں کو دو رویہ نہیں کیا جاتا،یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔جب کوئی حادثہ رونما ہوتاہے تو وقتی طور پر قانون بنائے جاتے ہیں اور کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سب کچھ بھلادیاجاتاہے۔یہ نہیں کہ سارے حادثات کا سبب سنگل وے ہے لیکن بیشتر حادثات کا سبب یہی ہے۔

اور کچھ اور اسپیڈنگ کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ ٹرانسپورٹرز کے لئے قوانین عمل میں لائے۔اب ہم میں مزید لاشیں اٹھانے کی ہمت نہیں ہے لہذا وفاقی حکومت اور حکومت بلوچستان اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ مزید قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکیں۔