|

وقتِ اشاعت :   February 19 – 2021

ایک مرتبہ پھر بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے میں شدت آگئی ہے۔ بلوچ مسنگ پرسنز کے اہلخانہ نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے ایوان صدر پاکستان، وزیراعظم ہاؤس اور عدالت عظمیٰ پاکستان سے چندگز کے فاصلے پر دھرنا دینے میں کامیابی حاصل کرلی۔ فیملیز نے تمام رکاوٹیں توڑ کر تختِ اسلام آباد تک رسائی حاصل کرلی۔ اس مقام کو ڈی چوک کہتے ہیں۔ ڈی چوک ایک بڑا عوامی چوک ہے جو اسلام آباد میں جناح ایونیو اور شارع دستور کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ چوک کئی اہم سرکاری عمارتوں کے قریب ہے۔ جن میں ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، مجلس شوریٰ پاکستان اور عدالت عظمیٰ پاکستان شامل ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بلوچ مسنگ پرسنز کے اہلخانہ نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا۔انہوں نے یہ فیصلہ کیاکہ وہ اپنی آواز وزیراعظم، صدر اور سپریم کورٹ کے پہنچائیں گے۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے تمام رکاوٹیں توڑ کرڈی چوک تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کرلی تاکہ لاپتہ افراد کی بازیابی شاید ممکن ہوسکے۔لاپتہ افراد کے لواحقین نے منان چوک کوئٹہ سے ڈی چوک اسلام آباد کا سفر طے کرلیا۔ منان چوک کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ جب نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو بزرگ سیاستدان اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل نے منان چوک پر احتجاجی جلسہ کیا۔

اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اخترمینگل کی حکومت کا خاتمہ کیاگیا،تو سردار اختر مینگل نے بھی منان چوک پر آکر خطاب کیا۔ یہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی دوسری بڑی کامیابی ہے جو ڈی چوک اسلام آباد پر دھرنا دینے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے قبل انہوں نے ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں 2013 کو کوئٹہ سے اسلام آباد کا پیدل لانگ مارچ کیا تھا۔ اس مارچ میں خواتین کے علاوہ ایک دس سالہ بچہ علی حیدر بلوچ بھی شامل تھا جواپنے والد محمد رمضان کی بازیابی کے لیے اس مارچ میں شامل تھا۔

کوئٹہ سے براستہ کراچی، اسلام آباد تک ان کو لگ بھگ چار مہینے لگے تھے۔سیاسی مبصرین نے لاپتہ افراد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو درپیش سب سے بڑا اورمشکل مسئلہ مسخ شدہ لاشوں اور لاپتہ افراد کا ہے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جاناچاہیے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ کوئی واقعہ کہیں ہوجاتا ہے تو دو آدمی چھوڑ دئیے جاتے ہیں اور دس کو اٹھالیا جاتا ہے۔لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے ملاقات کے بعد ڈی چوک پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے حکومت سے مطالبہ کیا۔

کہ وہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو آگاہ کریں کہ آیا اْن کے پیارے زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین بھی عزت دار لوگ ہیں جو اسلام آباد کی سڑکوں پر سردی کے موسم میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے ہیں مگر ان کا کوئی پْرسان حال نہیں ہے۔ ڈی چوک پردھرنا کی وجہ سے لاپتہ افراد کے لواحقین کی آواز وفاقی کابینہ کی میٹنگ میں بھی گونج اٹھی جس پر وفاقی وزیر برائے اطلاعات شبلی فراز نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ لاپتہ افراد کے قانون سے متعلق وزیر اعظم عمران خان نے وزیر قانون کو سخت ہدایات دی ہیں کہ اس حوالے سے بل کو فی الفور تیار کیا جائے اور اس کا کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ خود اظہار ہمدردی کے لیے ایسے احتجاج اور دھرنوں میں جا چکے ہیں اور اظہار یکجہتی بھی کی ہے۔جبکہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے ٹویٹ پر سیاسی و سماجی حلقوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ٹویٹ لاپتہ افراد کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ وفاقی وزیر نے اپنے ٹویٹ میں کہا: ’یہ مائیں پنجاب میں احتجاج کر سکتی ہیں یہاں کوئی ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر گولی نہیں مارے گا، لیکن پنجاب کی ان ماؤں کے دْکھ کا کیا کریں۔

جن کے بچوں کو بسوں سے نکال کر صرف پنجابی ہونے پر بلوچستان میں (گولیوں سے) چھلنی کیا جاتا ہے؟ یہ تو کہیں کہ ظلم، ظلم ہے اور خون کا رنگ پنجابیوں کا بھی لال ہی ہے۔‘اس ٹویٹ پر نیشنل پارٹی کے ترجمان نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے ازالہ کے بجائے ان کی تذلیل کی جارہی ہے جو ایک قابل مذمت عمل ہے۔ جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی تک بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے،اسٹیبلشمنٹ کو اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔

اگرطالبان سے بات چیت ترجیح ہوسکتی ہے تو لاپتہ افراد کی واپسی اور بیرون ملک مقیم بلوچوں سے کیوں نہیں ہوسکتی، لاپتہ افراد کے معاملات تو کیک کا ٹکڑا ہیں، لاپتہ افراد سے متعلق میں سپریم کورٹ میں پیش ہواہوں بلکہ پارلیمنٹ میں اس پر آواز بلند کی بلکہ تحریری طورپر مسئلے کا حل دیالیکن اب تک مسئلہ جوں کا توں ہے۔واضح رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے تحریک انصاف کی حمایت کے لیے جو چھ نکاتی معاہدہ کیاتھا ان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی شرط بھی شامل تھی جو آج تک حل نہیں ہوسکا۔ بعد میں بی این پی نے حکمران جماعت سے اپنی راہیں الگ کرلیں۔

اور آج کل وہ پی ڈی ایم کا حصہ بن چکی ہے۔دوسری جانب حکومتی مشینری متحرک ہوگئی ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشیدنے لواحقین سے ملاقات کی اور بھرپور مدد کی یقین دہانی کرائی۔شیخ رشید سے ملاقات کرنے والوں کا کہنا تھاکہ وزیرداخلہ نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی، احتجاج ختم نہیں کریں گے۔ تاہم لواحقین کا کہنا تھا کہ جب تک وزیراعظم سے ان کی ملاقات نہیں ہوتی وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے۔انسانی حقوق کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ بازیاب ہوتے ہیں تو ان سے زیادہ لاپتہ ہوتے ہیں جس کافوری طور پر تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر حکومت سمجھتی ہے کہ بعض لوگ جرائم میں ملوث ہیں تو ان کو عدالتوں میں پیش کرکے ان کو فیئر ٹرائیل کا موقع فراہم کیاجائے۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرناان کے خاندانوں اورسماج کے لیے ایک غیر انسانی عمل ہے جس سے متشدد، منقسم،غیر صحت مند اورعدم رواداری پر مبنی سماج تشکیل پارہا ہے۔