آج پاکستان سمیت دنیا بھرمیں مادری زبانوں کا دن منایا جارہاہے،،، بقول رسول حمزہ توف ” زبان وطن ہوتی ہے،، لفظ تاریخ اور جغرافیہ ہیں” ،، زبان شناخت کی سب سے بڑی اکائی ہونے کے ساتھ تہذیبی شناخت ، معاشی خوشحالی اور انسانی ترقی کا اہم ذریعہ ہے،، شعر و شاعری ہو ،، تاریخ ہو،، داستان گوئی ہو یا تہذیب و ثقافت کی قوس قزح ،،، زبان اور اس کے الفاظ پھول کی پنکھڑیوں کی طرح ہیں ،،، اسی طرح پاکستان میں بولی جانے والی زبانیں بھی ایک ہی مالا کے مختلف موتی ہیں جو الگ الگ ہونے کے باوجودبھی ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
مثلاً
سرائیکی کی مٹھاس
سندھی کی دلربائی
بلوچی کی فیاضی
پنجابی کی اثر آفرینی
پشتو کی رنگا رنگی
اور ان سب کے ساتھ اردو کا آہنگ۔
سب الگ الگ تہذیبی اثاثہ ہونے کے باوجود آپس میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے گلدان میں سجے پھول ہوں۔
آج پوری دنیا ماں بولی کے تحفظ کے لیے سرگرداں ہے کیوں کہ جس زبان میں ماں اپنے بچے کولوریاں دیتی ہے ،جس زبان کو ایک بچہ اپنے شہر، محلے ،قصبے یاگاؤں میں بولتاہو، اس کی شناخت اور تحفظ کے لیے پریشان دکھائی دے رہاہے ۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق جب کوئی زبان غائب ہو جاتی ہے تو اپنے ساتھ پوری ثقافت اور انٹیلیکچول وراثت بھی لے جاتی ہے۔عالمی سطح پر مادری زبانوں کی پذیرائی کے حوالے سے نوبل انعام کمیٹی کوسہراجاتا ہے کہ انہوں نے ماںبولی کے اعتراف میں ادب کا نوبیل انعام اب تک 25 ایسے افراد کو دیا جنھوں نے تخلیقی کام اپنی مادری زبانوں میں کیا۔
مادری زبانوں کوترقی نہ دینے سے نہ صرف ہزاروں سال کی ثقافت،تہذیب اور روایات بھی تحلیل ہوجاتی ہیں بلکہ اپنی زمین سے روحانی رشتہ بھی معدوم ہوجاتاہے۔
ہمارے پڑوس انڈیا میں 21 قومی زبانیں ہیں اسی طرح کئی ممالک میں مادری زبانوں کو قومی زبان کادرجہ دیاگیاہے۔ہم نے قومی زبانوں کے حوالے سے سنہ 1948 اور 1952 میں بڑی غلطیاں کیں جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کانام بنگلہ دیش پڑ گیا۔ماہرین لسانیات کے مطابق اس وقت پاکستان میں 74 سے 79 زبانیں بولی جاتی ہیں۔
جن میں براہوئی،دامیڑی،آیر،باگری،بلتی، ہزارگی،جدگالی،ڈومکی،ہندکوسمیت دیگربھی شامل ہیں۔ صرف چترال میں چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں،اس ضمن میں بلوچستان کی بھی اپنی خصوصیت ہے جسے ہشت زبانی صوبہ کہاجاتاہے۔ریاستی سرپرستی اور ادارے نہ ہونے کے باعث کئی زبانیں خطرات سے دوچار ہیں اور زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔اس کا آسان حل ملک میں زیادہ قومی زبانیں تسلیم کرنا ہے۔
گڑ ہے ، کِشمِش ہے ، مصری ہے
ہر بھاشا میٹھی ہوتی ہے
سب کا اپنا رس ہے لیکن
” ماں بولی ” تو ماں بولی ہے
(وحید نور)