سینیٹ پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا ہے۔اس کے انتخابات ہر تین سال بعد آدھی تعداد کی نشستوں کیلئے منعقد کیے جاتے ہیں۔ سینیٹ ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس کا چئیر مین صدر کے غیر موجودگی میں صدر کا قائم مقام ہوتا ہے۔اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ ہیں۔صادق سنجرانی 12 مارچ 2018 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔سینیٹ کے کل 104 ارکان ہیں۔چاروں صوبوں سے کل 23 ارکان ہیں۔جن میں 14 عمومی ارکان ،4 خواتین،4 ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتی رکن ہے۔
فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔دارالخلافہ سے 4 ارکان ہیں جن میں 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور ایک ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔ہر سینیٹر کی آئینی مدت 6 برس ہے۔اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پورے کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور نئے آدھے ارکان منتخب ہوکر آتے ہیں۔اس وقت بھی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جارہے ہیں۔52 نشستوں میں سندھ اور پنچاب 12 سینیٹر ،خیبرپختون خوا اور بلوچستان 11 سینیٹرز جبکہ فاٹا 4 اور اسلام آباد سے 2 ارکان کا انتخاب ہوگا۔
پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے صوبہ بلوچستان کی سینٹ یعنی ایوان بالا کے انتخابات کی ایک بڑی اہمیت ہے۔اسکی اہم وجہ پاکستان کی باقی تمام اکائیوں کی طرح بلوچستان کی نمائندگی برابر کی بنیاد پر ہے۔بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد 65 ہے۔اگر دیکھا جائے دوسرے صوبوں کی مقابلے میں یہ سب سے کم تعداد ہے۔لیکن ایوان بالا کی خصوصیت بلوچستان کے لئے اسلئے اہم ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے 65 اراکین ووٹ باقی تمام اسمبلیوں کے برابر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی سینٹ کے انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے،زیادہ تر لوگوں کی نظریں بلوچستان پر لگی ہوتی ہیں۔بلوچستان میں سینٹ کے ایک جرنل نشست کے لئے آٹھ سے نو ووٹ درکار ہوتے ہیںجب کہ پنجاب میں ایک سیٹ حاصل کرنے کے لئے چالیس ارکان اسمبلی کی ضرورت ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سینٹ کے انتخابات کی باقی اکائیوں کے مقابلے میں بلوچستان کی کتنی اہمیت ہے۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اہمیت کا اہل بلوچستان کو کتنا فائدہ ہورہا ہے۔؟اس اہم سوال کے جواب کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے بہت سارے نتائج ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔سیاست ایک عبادت کے مترادف ہے۔قد آور سیاسی لوگ عام آدمی کی مشکلات اور معاشرتی ناہمواری کے متعلق جدوجہد کرتے ہیں۔حقیقی سیاسی لوگ سیاست میں خریدو فروخت سے اجتناب برتتے ہیں۔اگر بلوچستان کی سیاسی پارٹیاں بلوچستان اسمبلی کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر سینٹ انتخابات لڑتے اور ایسے صاحب رائے لوگ منتخب کرواتے جو بلوچستان کا مقدمہ بہتر انداز میں لڑتے، اس سے بلوچستان کے مسائل اجاگر ہوسکتے تھے لیکن بلوچستان اسمبلی کی اس اہمیت کو خرید وفروخت کی بھینٹ چڑھادیا گیا ہے۔
کسی بھی شخص کو سینٹ میں جانا ہو بلوچستان اسمبلی اس کی نظروں میں ایک بہترین مواقع فراہم کرنے کی جگہ بن گئی ہے۔آپ کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہو آپ کی جیب میں پیسے ہوں اور ایسے لوگوں سے آپ کا رابطہ ہو جو سیاست کو عبادت کی بجائے تجارت سمجھتے ہوں تو پھر ااپ کامنتخب ہونا اتنا مشکل نہیں۔سیاست کی اس روپ نے بلوچستان اسمبلی کے اس اہمیت کا خاتمہ کیا ہے۔سیاست کو پیسے کے لین دین سے کوئی تعلق نہیں،لیکن جب قدآور لوگوں کی قلت ہو، اسمبلیاں مارکیٹ کا روپ دھارلیتی ہیںاور اس مارکیٹ پر پورے ملک کی نظریں جمی ہوتی ہیں۔
وفاق کے اس علامت کی تقدس جس طرح پامال ہوتی ہے،یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔جب تک ہم اسمبلی کو مارکیٹ سے بدل کر ایک ایسا ادارہ نہ بنائیں جہاں ووٹ کے تقدس کو مدنظر رکھ کر بلوچستان کے اہل لوگوں کو ایوان بالا تک نہ لے جائیں،ہماری امیدیں اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گی اور منزل کی تلاش میں ہم سر گرداں رہیں گے۔بلوچستان کے مسائل اجاگر کرنے کیلئے ایوان بالا ایک بہترین پلیٹ فارم ہیاور پاکستان کے اہم اداروں میں ایوان بالا کا شمار ہوتا ہے۔ہمیں سنجیدہ اور قدآور لوگوں کو اس ادارے میں لے جانے کی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان کے مسائل اور مشکلات بہتر انداز میں اجاگر ہوںاور ان مسائل کا صحیح معنوں حل تلاش کیا جا سکے۔