|

وقتِ اشاعت :   February 21 – 2021

ترجمہ ڈاکٹر دین محمد بزدار۔

یہ مضمون روزنامہ ڈان میں شائع ہوا۔مضمون کی اہمیت اور’’ 21 فروری مادری زبانوں کا عالمی دن ‘‘کی مناسبت سے اسکا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ملک میں ’’ واحد قومی نصاب ‘‘(Single National Curriculum )کے فیصلے نے تعلیمی زبان کی بحث پر اہل الرائے(Intelligentia )کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کے ما بین تقسیم اتنی شدید ہے کہ با مقصد مکالمہ ممکن نہیں رہا۔ایک سازش کے تحت انگریزی زبان کے حامیوں نے کچھ مسائل کو ایسے بگاڑا کہ انکا سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ان مسائل کی وضاحت کے لئے یہ ایک اور کوشش ہے۔

پہلے اسکی وضاحت ہونی چا ہیے کہ بحث یہ نہیں ہے کہ بچے کسی مقامی زبان میں یا انگریزی میں تعلیم حاصل کریں ۔جو مقامی زبان میں تدریس کے حق میں ہیں وہ ہمیشہ یہ بھی کہتے ہیںکہ انگریزی غیر ملکی زبان کی حیثیت سے لازمی بچوں کو پڑھانی چا ہیئے ۔مجھے یہ کھوج لگانی ہے کہ ہم پر یہ الزام کیوں لگایا جاتا ہے کہ ہم انگریزی زبان کو تعلیمی نظام سے ہٹا کے اپنے بچوں کو پسماندہ اور انہیں ٹیکنا لوجی(Technology ) کے استعمال کی قا بلیت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔یہ اس بات کی دلالت کرتا ہے اگر ہم صحیح انگریزی پڑھانے میں ناکام بھی ہوں تو بھی قا بل قبو ل ہے کہ ہم صرف انگریزی اور انگریزی منترا(Mantra ) سے چپٹے رہیں۔

انگریزی کے حامی یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ اگر بچہ اپنی تعلیم چار مقامی زبانوں میں سے ایک میں شروع کرے گا تو اسکی تعلیم بند گلی میں پھنس جا ئے گی۔اس کے بعد وہ کبھی انگریزی سیکھ نہیں پائے گا۔ہمیں یاد رکھنا چا ہیے یہ ملک بیوقوفوں کا نہیں ۔گزشتہ نسل کے تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنی پرا ئمری تعلیم کسی مقامی زبان میں شروع کی جن میں ہمارے واحدسائنس کے نوبل انعام یافتہ پرو فیسر عبدالسلام بھی شامل ہیں۔میرا موقف کئی اور لوگوں کی طرح سادہ ہے ۔جب بچہ سکول میں داخل ہو،اسے وہی تعلیم جاری رکھنے دیجئے جو اس نے اپنے کٹیا(Cot ) میں مادری زبان یا ماحول کے زبان میں شروع کی اور جسکے ساتھ اسکی جان پہچان پہلے سے ہے۔

چند سال بعد وہ اردوجوکہ وسیع رابطے کی زبان ہے پڑھنا شروع کرے گا۔غیر ملکی زبان کی حیثیت سے انگریزی اسکے بعد متعارف ہونی چا ہیئے۔یہ زبان کی سیڑھی ہے اس پر بحث کی ضرورت ہے۔سیڑھی سے مراد یہ ہے کہ ہمیں کون سی زبان کب اور کیسے متعارف کرنی چا ہیئے ۔مثلا اگر انگریزی زبان بچے کو مادری زبان پر عبورحاصل کرنے سے پہلے متعارف کی جاتی ہے تو وہ بچہ گونگاہوگا۔دوسرے لفظوں میں وہ کوئی زبان نہیں سیکھ پائے گااور اسکی دوسروں تک رسائی بے ربط ہوگی۔(Communicate coherently )۔پاکستان میں لسانی ماہرین عام طور پر سماجی لسانیات(Socio-linguistics )پڑھتے ہیں۔

وہ زبان کے حصول (Laguage acquisition )کے لیئے نفسیات اور اعضا(Psycology/Anatomy )کا مطالع نہیںکرتے ۔جو ایک قدرتی عمل ہے۔ڈاکٹر مایہ مون ٹسوری جو اٹلی کی ایک فزیشن، ماہرنفسیات اور ماہر تعلیم تھیںنے زبان کے عضو(Language organ ) کے بارے 100 سال پہلے لکھا تھا۔نوم چو مسکی اب اپنے یو نیورسل گرائمر تھیوری سے پیچھے ہٹ کر اس بارے بات کر رہے ہیں۔عضو (Organ ) بات کرنے(Speech )سننے(Hearing mechanism )اور ’’ بروکا سنٹر‘‘ (Broca’s centre ) پر مشتمل ہے۔)بروکا ایک ڈاکٹر تھا جس نے یہ سینٹر دریافت کیا ) ۔

بروکا سینٹر دماغ میں ہے یہاں عقل کی ساخت(Comprehension ) ہوتی ہے۔یہ تینوں بچے کی پیدائش سے ہی با ہم مربوط (Coordination)نشونماپاتے ہیںاور ایک خاص ترتیب اختیار (Fallow a particular pattern )کرتے ہیں۔ ’یہ ماں کی فطری صفت ہے‘۔(This is Mother Nature’s Way )۔اس عضو سے چھیڑ چھاڑ(Tempering )کی ہماری کوششیں شیر خوار بچے کو بیٹھنے سے پہلے چلانے کی کوشش کے مترادف ہیں۔یہاں تک کہ لارڈ بے بنگٹن میکالے نے بھی اپنی لا محدود دانش کے باوجود یہ معجزہ سر انجام دینے کی کوشش نہیںکی۔

بھورے صاحبوں کی سوچ بھی انگریزی سیکھنے کے لیئے ثانوی سطح سے شروع ہوئی(The Brown sahibs the envisaged began their English learning at the secondary lavel. )

زبان کے ایڈیاز(Language ideas )کو نہ سمجھنے کانتیجہ کیا نکلتاہے؟اسے دیکھنے کے لیے ایک کم آمدنی والے علاقے میں نام نہاد انگریزی میڈیم سکول کے کلاس روم میں جا کر دیکھیں۔وہاں دوغلی زبان(Hybrid language )کا استعمال دیکھ کر آپ حیران ہو نگے۔کتا بیں انگریزی میں ہیں لیکن اس زبان میںاساتذہ کی قا بلیت نہ ہونے کے برابر ہے۔وہ کتا بیں ٹو ٹی انگلش میں پڑھتے ہیں۔پھر اردو میں سمجھا تے ہیں ۔بورڈ پر انگریزی میں سوال لکھتے ہیں پھر جواب اسی کتاب سے نکال کرکے لکھتے ہیں یہ عمل کسی بھی صورت تعلیم کے لیے قابل قبول نہیں ۔بچے جو بھی بورڈ سے نکل کرتے ہیں اسے محنت سے یاد کر تے ہیںلیکن اسے سمجھ نہیں پاتے۔یہ رٹے (Rote )کی ثقافت ہے جو زندگی بھر ان کے ساتھ چلتی ہے۔

کیونکہ اساتذہ انگریزی نہیں جانتے اس لیئے کوئی بہتری دکھائی نہیں دیتی۔تعلیم کا یہ طریقہ کار بچوں کوزندگی بھر دل برداشتہ کر تاہے۔زبان کی یہ دوغلی نظام ایک اور گھات لگائے برائی (Incidious evil )کی پرورش کر رہی ہوتی ہے۔جب بچہ ایک ناواقف زبان سیکھنے کی جدوجہد کر رہاہوتاہے اسی عمر میں اسکا ذہن(Mind ) بتدریج بڑھ رہا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ عقل کی نشونما (Cognitive development ) بھی ہورہی ہوتی ہے۔ذہنی نشونما اور انگریزی سیکھنے کی جدوجہدکے مابین اس کشمکش (Struggle )کے نتیجہ میں بچہ دقیق سوچ( Critical thinking )اور ربط سے لکھا ئی(Coherent writing ) سیکھ نہیں پاتا۔

یہ مظہر( Phenomenon) اشرافیہ کے پرائیو یٹ انگلش میڈیم سکولوں کے بچوں میں بھی موجود ہے۔لیکن اس کمزوری کو ان سکولوں میں معلم کی صلا حیتوں پر اعتماداور بکثرت ٹیوشن پڑھنے کا عمل چھپا(Mask )لیتی ہے ۔اس نقصان کا کوئی مداوا نہیں(Irripairable ) ۔آخر میں پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں کے منتظمین جو رجحان ساز(Trendsetter ) ہیں سے ایک اپیل: آپکی اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے کہ آپ عوام کی اکثریت کے لیئے جو بہتر ہے اسکا ضرور سو چیں۔
حقیقت میں یہ حکومت ہی ہے جو غلط کر رہا ہے۔

حکو متی اور سستے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیمی پستی کی و جہ بد عنوانی، بد انتظامی اور محدود تعلیمی وسائل( Learning tools ) ہیں جن میں تدریسی زبان بھی شامل ہے۔نظام میں اصلاح(Reform )کی ضرورت ہے جو صرف حکومت ہی کر سکتی ہے۔زبان کے مسئلے کو حل کیئے بغیر دوسرے اصلاحات حقیقی اورمربوط نہیں ہونگے اور کام نہیں کریں گے۔لیکن بد قسمتی سے ملک میں ’’واحد قومی نصاب‘‘ تعلیم کے حامی حقیقی مسائل سے توجہ ہٹا رہے ہیں۔ ختم۔