کوئٹہ: سپریم کورٹ بار ایسوسیشن کے سابق صدر سینٹر(ر)امان اللہ کنرانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اعتزاز احسن قابل صد احترام ہیں سینئر وکیل و سیاسی رہنما ہیں بدقسمتی سے ان کے مشورے و فیصلے ہمیشہ حکومتوں کی سہولت کاری میں استعمال ہوتے رہے ہیں جب سے عمران خان کی حکومت وجود میں آئی ہے۔
وہ اپنی زمانہ طالب علمی کی یادوں و یار آنے کے جذبات میں بہہ کر اپنی پارٹی سے زیادہ پی ٹی آئی کے حکومت کی ترجمانی کا فریضہ بڑی ذمہ داری سے ادا کرتے آرہے ہیں آج ان کا ایک بیان سوشل میڈیا پر دیکھا جس میں انھوں نے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسی کی جانب داری کی بابت تبصرہ ایک جج کی تحقیر کے مترادف ہے جو انکے اندر کی آواز ہے اور خود سرکاری محبت میں گرفتار ہوکرعمران خان کے لئے حق وفا ننھا رہے ہیں۔
مگر حقیقت میں سپریم کورٹ کا جسٹس قاضی فائز عیسی کی بابت فیصلہ اپنے ہی پشاور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے ساتھ دو جج صاحبان قاضی اور سید منصور علی شاہ پر مشتمل بنچ کے اکثریتی فیصلے کی نفی ہے جس میں قرار دیا گیا کہ چیف جسٹس کسی زیر التواء کیس کے اندر بنچ تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے مزید براں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مقبول باقر کے ایک بنچ نے جب حتمی طور ایک کیس کی شنواء کرتے ہوئے۔
بعض متعین احکامات کے ساتھ ایک تتاریخ مقرر کردی دی تو یہ بادی النظر میں سپریم کورٹ کا حکم ہی تصور ہوگا جس پر نہ سپریم کورٹ کے اندر اپیل کی گنجائش ہے اور نہ ہی چیف جسٹس کو عدالتی فیصلے کو انتظامی فیصلے کے زریعے تبدیل کرنے کا استحقاق حاصل ہے قانون کے ادنی طالبعلم اور عدالتی نظائر سمیت آئین و قانون و قواعد کی روشنی میں جسٹس قاضی فائز عیسی کا اختلافی نوٹ قابل پزیرائی و انصاف کے قرین قیاص ہے۔
اسکے علاوہ آئین میں چیف جسٹس کا تنھا نہ تو شناخت درج ہے اور نہ اختیار بلکہ چیف جسٹس کا وجود ساتھی ججوں کی موجودگی سے مشروط ہے جبکہ چیف جسٹس صرف عدالتی امور کے نظم و ضبط کو مروجہ قواعد کے تحت نمٹانے کا حق رکھتے ہیں مگر آئین و قانون و قواعد سے بالاتر نہیں سپریم کورٹ کے ہر بنچ کا فیصلہ کورٹ کا فیصلہ تصور ہوتا ہے چاہے چھوٹا بنچ ہو یا بڑا بنچ لہذا سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کی طرح دو رکنی بنچ کا فیصلہ بھی آئین کے آرٹیکل 189 کے تحت سب کے اوپر لاگو اور قابل تائید وتسلیم ہے۔
اور اس کی حکم عدولی آئین کے آرٹیکل 5 سے روگردانی ہے اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو ملک میں کسی کو مارشل لاء نافذ کرنے و ججوں کو برطرف و کام سے روکنے کا تکلف بھی نہیں کرنا پڑے گا ۔
وہ اپنے جسٹس منیر،جسٹس انوارالحق اور جسٹس ارشاد حسن جیسے چیف جسٹسز کا سہارا لے کر آئین و قانون کی دھجیاں اڑا کر ملک جمہوریت،وفاق اور بنیادی حقوق کو فرد واحد یعنی حاکم وقت کے قدموں پر رکھ سکتا یقیناً قوم ایسے کسی انھونی و خودساختہ عدالتی جبر کا متحمل ھوسکتی ہے اور نہ اجازت اسلئے اعتزاز اپنے مرتبے کے باوجود اس کی رائے عدلیہ کی تضحیک و حکومت کی کاسہ لیسی کے علاوہ کچھ نہیں۔