|

وقتِ اشاعت :   February 23 – 2021

جس معاشرہ میں امن کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔اس کی پہلی زد انسانی جان پر پڑتی ہے۔ اس معاشرے میں انسانیت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔وہاں ظلم و بربریت اور لاقانونیت کا بول بالا ہوتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر انسانی جانوں کو چھلنی کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے وہاں نہ معصوم بچوں پر ترس کھایا جاتا ہے ،نہ ہی عورت کی حرمت کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی کسی بہن کے جوان بھائی پر رحم کیا جاتا ہے کیونکہ ان ظالم درندوں کو پتا ہوتا ہے کہ پولیس انہیں ہر صورت میں تحفظ فراہم کرے گی اور جتنا ہو سکا انہیں پولیس مدد فراہم کرے گی۔

اس معاشرے میں لوگوں کا اپنے محافظ اداروں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اور پھر وہاں آئے روز خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔حال ہی میں جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں دہشتگردوں کے مصروف کاروباری مراکز پر دہشتگردی کی لرزہ خیز کاروائی نے 6 بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور درجن بھر افراد کو زخمی کر دیا۔لوگ پولیس کو فون کر کے بلاتے رہے لیکن پولیس نے روایتی طریقہ اپنایا اور کوئی دو گھنٹے بعد جائے وقوع پر پہنچی۔ تب تک ملزمان خون کی ہولی کھیل کر فرار ہو چکے تھے۔آئے روز اس طرح کے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں ۔

لیکن نہ تو پولیس نے اپنا قبلہ بدلنے کی کوشش کی اور نہ ہی ریاست کے حکمرانوں نے ،عوام ہر مرتبہ ظلم کی چکی میں پستی ہے۔اسلام کی بنیاد پر بننے والا پاکستان کا جس کا مطلب ہے پاک لوگوں کی سرزمین جب سے آزاد ہوا ہے یہی سنتے آ رہے ہیں کہ پولیس کلچر میں اصلاحات لائی جائیں گی ہر حکومت نے اس نعرے کو اپنایا اور عوام کو بے وقوف بنانے کیلیے اپنے انتخابی منشور کا حصہ بھی بنایا مگر پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ٹھیک نہ کیا جا سکا۔مسائل اور معاملات جوں کے توں موجود ہیں ہر آنے والے دن کے ساتھ تھانہ کلچر کا غیض و غضب بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

حالات تو یہاں تک بگڑ چکے ہیں کہ چوک چوراہوں پر کھڑے ہمارے محافظ ہمیں ہی گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے انتخابی منشور میں جس بات کو سب سے اہم مقصد کے طور پر پیش کیا تھا وہ پنجاب پولیس میں اصلاحات اور تھانہ کلچر کی تبدیلی تھی۔وہ اپنی تقریروں میں بار بار خیبر پختونخوا پولیس کی مثالیں دیتے تھے کہ جس طرح خیبر پختوخواہ میں پولیس کو کرپشن اور تھانے کو ظلم و زیادتی سے پاک کیا گیا اسی طرح پنجاب میں بھی پولیس کے نظام کو ٹھیک کر کے دم لیں گے۔

جب الیکشن کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بنی اور پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے سردار عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا گیا تو عوام کو خاص کر سرائیکی وسیب کے باسیوں کو بہت زیادہ توقعات تھیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو جس طرح تخت لاہور کی بادشاہت سے نجات ملی ہے اسی طرح پنجاب پولیس میں بھی اصلاحات ہوںگی اور وہ پولیس کلچر جو غیر انسانی سلوک،کرپشن بدعنوانی اور ناانصافی کے کیچڑ سے بھرا پڑا ہے بہت جلد تبدیل ہوتا دکھائی دے گا لیکن سب ارمان خاک میں مل گئے۔

تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی سابق آئی جی خیبرپختونخوا ناصر درانی کو پنجاب میں پولیس اصلاحات کی نگرانی کیلیے بھی مقرر کیا گیا مگر جب انہیں نظر آیا کہ حالات کافی حد تک پیچیدہ ہو چکے ہیں تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے۔ پنجاب میں تھانے سیاسی مافیاز اور ٹاؤٹ مافیا کا گھر بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ پنجاب پولیس میں نچلی سطح پر اصلاحات ہوں جس کی وجہ سے پولیس کے اوپر ان کا دباؤ پھیکا پڑ جائے۔ بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے بھی اس معاملے میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔اب پنجاب میں حالات یہ ہیں کہ ایف آئی آر کٹوانے کے بھی ریٹ مقرر ہیں اور وہ ریٹ وزیراعلیٰ پنجاب تک جاتے ہیں۔
پنجاب میں آئی جی بھی تبدیل ہوتے رہے ،آئے روز ڈی پی اوز بھی آتے جاتے رہے صرف ڈیرہ غازی خان میں تحریک انصاف کی حکومت میں کوئی دس بارہ پولیس کے افسران تبدیل ہوئے ہیں لیکن نہ تھانہ کلچر میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ عام آدمی کو تھانے کی سطح پر کسی بااثر ظالم کے خلاف انصاف ملنا شروع ہوا پنجاب میں آج بھی عام آدمی کا تاثر یہی ہے کہ پولیس غریبوں کو تحفظ دینے سے قاصر ہے کیونکہ وہ وڈیروں،جاگیرداروں،سرداروں اور سرمایہ داروں بااثر سیاسی رہنمائوں اور سیاسی ٹاؤٹ اور کالا دھن رکھنے والے مافیاز کی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔

آئے روز اخبارات میں پولیس والوں کے مظالم کی کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں پولیس تفتیش میں بے گناہ لوگوں کو مار دیاجاتا ہے لیکن چند دن بعد وہی افسر عدالتوں سے بری ہو کر دوبارہ ڈیوٹیاں کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پنجاب پولیس آج بھی تحفظ کی بجائے خوف کی علامت بنی ہوئی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ محکمہ پولیس میں اچھے افسران اور اپنے فرض سے لگن رکھنے والے اہلکار موجود ہیں پولیس کی تاریخ شہیدوں سے بھی بھری پڑی ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ان سب کے باوجود پولیس کا امیج ابھی تک منفی ہے کیونکہ مجموعی طور پر پولیس والوں کا رویہ اور اپنے پیشے سے انصاف اس معیار کا نہیں ہے ۔

جس کی ایک منظم فوج سے توقع کی جاتی ہے رشوت ستانی، جھوٹے پرچے، تفتیش میں ڈنڈی اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی ایسے عوامل ہیں جنہوں نے پولیس کا چہرہ کالا کر رکھا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پولیس میں بہتری لانے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں مثلا تھانوں کی سطح پر فرنٹ ڈیسک کا قیام، خدمت مراکز اور آن لائن شکایت کا اندراج یہ سب کچھ اپنی جگہ احسن اقدامات ہیں مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پنجاب کی 70 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ناخواندہ بھی ہے اس کے لئے تو تھا نہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔

وہ ہر مشکل وقت میں تھانے کا رخ کرتا ہے اگر وہاں سے اسے انصاف نہیں ملتا اور ظالم کے مقابلے میں پولیس اس کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی تو وہ مظلومی کی تصویر بن جاتا ہے ۔دیہی علاقوں میں خاص طور پر ایس ایچ او علاقے کے بااثر وڈیروں کی ایما پر خوف کی علامت بن جاتا ہے اور اس کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ علاقے کے عوامی نمائندے اور بااثر افراد کا حکم بجا لائے ،یہیں سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ تھانے عقوبت خانے ہیں وہاں سے مظلوموں کو دھکے ملتے ہیں جب کہ ظالموں کو کرسیاں پیش کی جاتی ہیں ۔جب تک اس صورتحال کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔

اور پولیس کے نظام میں ایسی اصلاحات متعارف نہیں کرائی جاتیں کہ جن کے ذریعے پولیس کو عوامی خدمت اور تحفظ کا ذریعہ بنایا جا سکے اس وقت تھانہ کلچر کی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اس تبدیلی کے لئے سیاسی طور پر جرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے کیونکہ پنجاب میں برادری ازم کی سیاست نے پولیس کو اپنی سب سے بڑی ڈھال بنا رکھا ہے۔ پولیس کے ذریعے ہی سیاست کے دائو پیچ آزمائے جاتے ہیں اور بدلے میں پولیس والوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جب تک اس گٹھ جوڑ کو توڑا نہیں جاتا اس وقت تک پولیس کی کارکردگی میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔