اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا شازیہ مری کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے شازیہ مری نے کہاکہ آئندہ آن لائن اجلاس میں شرکت کی سہولت ہونی چاہیے،کوروانا وائرس کی وجہ سے کمیٹی اجلاس بلانے میں تاخیر ہوئی۔محسن داوڑکی سربراہی میں قائم سب کمیٹی کی رپورٹ کمیٹی میں پیش کی گئی ۔
محسن داوڑ نے کہاکہ اگست میں کمیٹی بنائی گئی تھی جن میں چھ بلز کا جائز لینا تھا،چائلڈ پروٹیکشن،گھریلو تشدد کی روک تھا،عمررسیدہ افراد کی فلاح و بہبود دیگر بلز شامل تھے،دو بلز سب کمیٹی نے مسترد کر دیئے تھے۔ شازیہ مری نے کہاکہ سب کمیٹی کو احسن کام کرنے پر خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہاکہ کمیٹی نے سخت محنت کی جس پر شکر گزار ہوں،قومی اسمبلی کا سیشن جاری ہے۔
اس کو اسمبلی میں پیش کیا جائے۔شیریں مزاری نے کہاکہ اس رپورٹ کو بغیر تاخیر کے اسمبلی میں پیش کرنا چاہیے۔ مہرین بھٹو نے کہاکہ سب کمیٹی نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بلز پر کام کیا،قائمہ کمیٹی نے سب کمیٹی کی رپورٹ جلد از جلد اسمبلی میں پیش کرنے کی سفارش کر دی۔ اجلاس کے دور ان کمیٹی میں ملک ٹرانس جینڈرز پر بڑھتی تشدد کے واقعات زیر بحث آئے ۔
عاصمہ قدیر نے کہاکہ ٹرانس جینڈر پر تشدد میں پولیس کو مدعی بنایا جائے،یہ لوگ بھی انسان ہیں،وہ بھی عزت کا حق دار ہیں،ٹرانس جینڈرز کے قتل اور تشدد کے واقعات میں پولیس کو مدعی بنایا جائے۔بلاول کے اجلاس میں نہ آنے پر غزالہ سیفی نے سوال کیا اور کہا کہ بلاول صاحب اجلاس میں کیوں نہیں آئے۔سیکرٹری وزارت انسانی نے کہاکہ ٹرانس جینڈرز سے متعلق قوانین کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سینسی ٹائز کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹرانس جینڈرز کے ایشو پر وزارت نے قوانین تیار کئے ہیں۔ شیریں مزاری نے کہاکہ پمزمیں ٹرانس جینڈرز کیلئے علحیدہ وارڈ بنایا گیا ہے،چاروں صوبوں میں بھی علحیدہ وارڈز کے قیام کیلئے وزرائے اعلی کو لکھا جا چکا ہے،علیحدہ وارڈز قائم کرنا قانونی طور پر ضروری ہے،پنڈی میں گوروز کی آپسی لڑائی کی وجہ سے واقعہ پیش آیا۔ شازیہ مری نے کہاکہ ٹرانس جینڈرز کو بہت مشکلات ہیں،ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے افراد کو بھی سننا چاہیے۔
،سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے کہاکہ ہم نے پہلے ہی ٹرانس جینڈر پروٹیکشن رولز کی منظوری دیدی ہے،ٹرانس جینڈرز کو تنگ کرنے اور چھیڑنے پر سخت سزا ہو گی۔ شائستہ پرویز نے کہاکہ سکلز ڈویلپمنٹ کے اداروں میں ٹرانس جینڈرز کو داخلہ کرایا جائے،ان کو نارمل لائف کی طرف لانے کیلئے اقدامات کرنا ہو گا۔شائستہ پرویز نے کہاکہ ٹرانس جینڈرز سکلز سیکھنا چاہتے ہیں مگر انکے گوروز اجازت نہیں دیتے۔
سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے کہاکہ لاہور ہائیکورٹ نے ٹرانس جینڈرزکو سی ایس ایس داخلوں میں اجازت دیدی ہے۔ شیریں مزاری نے کہاکہ احساس اور ہیلتھ پروگرام میں ٹرانس جینڈرز کو ترجیح دی جا رہی ہے،وہ لوگ نادرا میں رجسٹرڈ نہیں کرانا چاہتے،شناختی کارڈ میں ٹرانس جینڈر درج ہونے سے وہ لوگ حج نہیں کرسکتے،پاس پورٹ پر ٹرانس جینڈرز درج ہونے سے ویزا نہیں ملتا۔
اس حوالے سے وزارت خارجہ سے بات کی گئی ہے،ہماری طرف سے مسئلہ نہیں،سعودیہ کی طرف سے مسئلہ ہے۔ شازیہ مری نے کہاکہ معاشرے میں ان کے حوالے سے رویے تبدیل ہونا چاہیے،قائمہ کمیٹی نے ٹرانس جینڈرز سے متعلق ایشوز کیلئے سب کمیٹی کی تشکیل دیدی،رکن کمیٹی سیف الرحمن نے چیئرمین کمیٹی کا اجلاس میں نہ آنے پر شدید تنقید،سیف الرحمن اور محسن داوڑ کے مابین تندوتیز جملوں کا تبادلہ کیا گیا ۔
سیف الرحمن نے کہاکہ اہم ترین کمیٹی ہے،اجلاس کی صدارت چیئرمین بلاول کو ہی کرنا چاہیے،سندھ میں 440افراد کا قاتل راؤانوار آزاد گھوم رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کو پابند سلال کیا ہوا ہے،آئی جی پولیس اور آئی جی جیل خانہ جات کو کمیٹی میں بلایا جائے۔ انہوںنے کہاکہ سندھ میں 25 ہزار افراد سیاسی بنیاد قتل کئے گئے۔ شازیہ مری نے کہاکہ تو کیا شہباز شریف،خورشید شاہ،خواجہ آصف کیلئے بھی ایسا کیا جائے۔
قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر سمیت تمام عدالتوں میں کیسز کا سامنا کررہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی بھی عدالتوں کا سامنا کریں،چیئرمین کمیٹی کے نوٹس میں لایا جائے گا۔بلوچستان کے لاپتہ قنبرانی بھائیوں کی بہن نسیبہ قنبرانی نے کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ میرا بھائی بی بی اے کا طالبعلم تھا،ان کو لاپتہ کیا گیا،ایک سال گزرنے کے باوجود کچھ معلوم نہ ہو سکا،کئی دفعہ مقدمہ درج کرانے کیلئے گیا۔
مگر درج کرنے سے انکار کیا گیا،27جولائی کو لاپتہ افراد کے کمیشن میں کیس دائر کیا،2015میں میرے بڑے بھائی کو بھی لاپتہ کیا گیا،قانون نافذ کرنے والے ادارے میرے بھائیوں کے لاپتہ ہونے پر یقین کرنے کو تیار نہیں،25اکتوبر کو پی ڈی ایم قیادت نے میرے ساتھ دست شفقت رہا،ایک سال سے احتجاج کررہی ہوں مگر کچھ نہیں،مجھے خاموش رہنے کا کہابعد میں میرے بڑے کو اشتہاری قراردیا گیا۔
انہوںنے کہاکہ 2016میں میرے بھائی سلمان قنبرانی اور کزن کی مسخ شدہ لاش پھینک دی گئیں،چھ سال سے مجھے راستہ دکھانے والا کوئی نہیں،میں ایک پولیو ورکرز ہوں،احتجاج کرنے پر نوکری سے برخاست کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے،بتایا جائے کہ میرا بھائی زندہ ہے یا نہیں۔وفاقی انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہاکہ افسوس کیساتھ کہنا چاہتی ہوں کہ سالہا سال سے یہ ایشو چل رہا ہے۔
جبری گمشدگیوں کی روک تھام ہمارے منشور کا حصہ ہے،پہلی دفعہ حکومت نے جبری گمشدگیون کی روک تھام کیلئے بل تیار کیا گیا،جلد کابینہ میں پیش کیا جائیگا،لاپتہ افراد کے لواحقین کی اگلے ماہ وزیراعظم سے ملاقات کرائیں گے،جبری گمشدگیوں کو جرم تصور کر کے سزا کی تجویز کی گئی ہے،جبری گمشدگیاں کسی طور قابل قبول نہیں۔ شازیہ مری نے کہاکہ بار بار پولیس کے پاس جانے کے باوجود مقدمہ درج نہ کرناافسوسناک ہے۔
اکلوتا بھائی گمشدہ ہو تو بہن پر کیا گزرتی ہو گی۔ایڈیشنل سیکرٹری بلوچستان نے کمیٹی کو بریفنگ دی اور کہاکہ نسیبہ قنبرانی کی درخواست پر جے آئی ٹی بنی ہے ،اجلاس 27جنوری کو کوئٹہ میں منعقد ہوا،جے آئی ٹی کے پاس تین چانس ہوتے ہیں،چھ سو میں سے 350واپس پہنچے ہیں،ان میں سے 34لاشیں شامل ہیں،یہ پتہ نہ چل سکا کہ کس نے اغوا کیا،جے آئی ٹی کی تیسری اجلاس کے بعد معلوم ہو گا کہ اغوا کی نوعیت ہے۔
جے آئی ٹی میں تمام ایجنسیز کے لوگ ہوتے ہیں،جے آئی ٹی میں شامل تمام اداروں کے اہلکاروں نے قنبرانی بھائیوں کے ان کے پاس نہ ہونے کا انکار کیا۔ محسن داوڑ نے کہاکہ نسیبہ کے بھائیوں کے معاملے پر ایک سیاسی حکومت بے بسی کا اظہار کر رہی ہے،تب ایک بیوروکریسی سے کیا توقع رکھوں،جن لوگوں پر اغواء کے الزامات ہیں وہی تفتیش کر رہے ہیں،ایک صوبے کے آئی جی کو اغوا کیا جاتا ہے مگر کچھ نہیں ہوتا۔
انہوںنے کہاکہ اغواء جو بھی کرے مگر ہے تو جرم،جب ایف آئی درج ہو گی تو تفتیش ہو گی،جب درخواست گزار کسی کو پوائنٹ آؤٹ کر رہی ہے تو گم نام ایف آئی آر کی کوئی تک نہیں ،عدالتوں پر عوام کو اعتماد ہو یا نہ ہو مگر انہی عدالتوں میں تو پیش کیا جائے،پختونخوا اور بلوچستان کے افراد کئی کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔ سیف الرحمن نے کہاکہ حسیبہ قمبرانی کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں،بلوچستان میں بے تحاشا ظلم ہوا ہے اور ابھی بھی ہو رہا ہے،لاپتہ افراد کے مسائل سندھ اور پنجاب میں بھی زیادہ ہیں،راؤ انوار جیسی افراد کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ شازیہ نے کہاکہ راؤ انوار کو ایک ادارے نے سرٹیفکیٹس دیئے تھے۔
کسی کو لاپتہ کیا جائے تو اس کے لواحقین عدالتوں سے رجوع کا حق ہونا چاہیے ۔ سیف الرحمن عطاء اللہ نے کہاکہ غیر متعلقہ افراد کو کمیٹی میں بلائیں گے تو کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کرینگے،سیف الرحمن اور عطاء اللہ نے احتجاجا کمیٹی سے واک آؤٹ کر دیا۔ فرحت اللہ بابر نے کہاکہ لاپتہ افراد کا معاملہ سالہا سال سے چلا آرہا ہے،اس حوالے سے عدالتوں کے احکامات بھی مانا جا رہا،پہلی مرتبہ 2010میں جبری لاپتہ افراد کے بارے میں کمیشن بنا۔
لاپتہ افراد کے لاحقین کی پہلی احتجاج کے دوران شیریں مزاری نے ایک ماہ کے اندر قانون سازی کا وعدہ کیا تھا۔ انہوںنے کہاکہ 28اگست2018کو لاپتہ افراد کا معاملہ اٹھایا،وہ اجلاس اوپن تھا،اس اجلاس کے منٹ بھی موجود ہیں،چیئرمین جبری گمشدگیوں کے کمیشن کے چیئرمین نے تفصیلات سے آگاہ کیا تھا،کمیشن کے چیئرمین نے 153آرمی اہلکاروں کیخلاف کارروائی کی سفارش کی گئی،ان اہلکاروں کے خلاف کیا ۔
کارروائی ہوئی اس کی تفصیلات مانگی جائے۔ انہوںنے کہاکہ 19جولائی 2019کو آئی ایس پی آر کا بیان تھا کہ جی ایچ کیو میں لاپتہ افراد سے متعلق سیل بنایا گیا ہے،آئی ایس پی آر سے اس بارے میں تفصیلات طلب کی جائے،خفیہ اداروں کو پارلیمنٹ کے بنائے قانون کے تابع لایا جائے،لاپتہ افراد کمیشن کے موجودہ چیئرمین کی مدت ختم ہو چکی ہے،چیئرمین نے 3ہزار افراد پتہ چلایا گیا ہے۔
چیئرمین کمیشن نے مجرموں کیخلاف کارروائی کا کچھ نہیں بتایا گیا۔فرحت اللہ بابر نے کہاکہ موجودہ لاپتہ افراد کے کمیشن کے چیئرمین کی مدت میں توسیع نہ کی جائے،جو لوگ بازیاب ہوئے ہیں ان کو بلا کر تفصیلات لی جائے،ان کو ہر ممکن تحفظ کی یقین دہانی کرانی ہو گی۔ انہوںنے کہاکہ ان کو تحفظ دینا کمیٹی کی ذمہ داری ہو گی،سپیکر سے اس حوالے سے خصوصی اجازت لینا پڑے گی۔
ڈائریکٹر شماریات محکمہ داخلہ بلوچستان نے کہاکہ ہم پہلے معاملے کو دیکھتے ہیں کہ کہیں ذاتی رنجش تو نہیں،اس کے بعد درخواست فائل کی جاتی ہے،نسیبہ قنبرانی ہمارے پاس آئی اور ان کے معاملے پر جے آئی ٹی تشکیل دی۔ انہوںنے کہاکہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک پرفارمہ فل کرنا ہوتا ہے۔ شازیہ مری نے کہاکہ نسیبہ قنبرانی کیساتھ پولیس نے تعاون نہیں کیا، ہرین رزا ق بھٹو نے کہاکہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کا معاملہ بہت گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔
شازیہ مری نے کہاکہ جبری گمشدگیاں پورے ملک کامسئلہ ہے ،کمیٹی نے جبری لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین کو طلب کر لیا،کمیٹی نے لاپتہ قنبرانی بھائیوں کے حوالے قائم جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی طلب کر لی،کمیٹی نے بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملے پر تفصیلی بریفینگ طلب کر لی،کمیٹی نے وزارت انسانی حقوق کو انسانی حقوق کی تحفظ کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی سفارش کر دی۔
کمیٹی نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو عدالتی ریلیف کیخلاف حکومت کو اپیل نہ کرنے کی سفارش کر دی۔ڈئی آئی جی سی ٹی ڈی خیبرپختوخوا نے پروفیسر اسعاعیل کی گرفتاری اور قید سے متعلق کمیٹی کو بریفنگ دی اور کہاکہ پروفیسر اسماعیل،ان کی بیٹی اور بیوی پر ایکچوئل ٹیرر فنانسنگ کے الزامات ہیں،ان پر دو کیسز درج ہیں،ایک 2013 اور دوسرا 2015 میں درج ہوا۔
اس کیس کی پہلے ایف آئی اے نے تحقیقات کی،ایف آئی اے کو گلالئی اسماعیل اور ان کے این جی اوز کی ٹرانزیکشن میں ٹیرر فنانسنگ کے شواہد ملے ،اس کے بعد سی ٹی ڈی کو تحقیقات کی ذمہ داری عائدکی گئی،تین این جی اوز کو دو بھارت کے بینکوں سے ٹرانزریکشنز کے شواہد ملے،پروفیسر اسماعیل اور گلالئی اسماعیل 2013میں ایک چرچ اور 2015میں ایک امام بارگاہ میں ہونے والے دہشتگردی میں ملوث ہیں۔
محسن داوڑ نے کہاکہ ایک جج نے کیس خارج کیا توکیس کو دوسرے جج کو ٹرانسفر کیا گیا،سابق کے پی کے حکومت نے گلالئی اسماعیل کو ایوارڈ دیا تو کیا پوری حکومت بھی دہشتگردی میں ملوث ہے۔فرحت اللہ بابر نے کہاکہ عدالت نے گلالئی اسماعیل ان کے والد کے خلاف مقدمہ کو بیک وقت جنبش مسترد کر دیا،سی ٹی ڈی،ایف آئی اے اور پولیس نے عدالتی اجازت کے بغیر گلالئی کے گھر چھاپہ مارا،سی ٹی ڈی اور پولیس نے عدالتی نظام کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔
ڈی جی آئی سی ٹی ڈی خیبر پختون خوا نے کہاکہ شفاف طریقے سے پروفیسر اسماعیل کے خلاف شواہد موجود ہیں،انویسٹی گیشن اور پراسکیوشن خیبر پختنونخوا میں علیحدہ کیا گیا ہے۔
شازیہ مری نے کہاکہ سیاسی جماعتون کو فنڈنگ روکنی ہو تو قانون سازی کر دوں،ٹیرر فنانسنگ کو روکنے کیلئے قانون سازی کر دی جائے اور بعد میں ہر چیز سویلین کو بھگتنا پڑیں،آئین میں اظہار رائے کی آزادی ہے،کسی کو میڈیا کا گلاگھونٹنے کی اجازت نہیں۔کمیٹی نے کراچی میں جیو اور جنگ آفس حملے کی رپورٹ طلب کرلی۔