دو سال پہلے کی بات ہے جب مجھے فری وقت ملتا تھا تو میں ایک دوست کے نجی سکول میں پڑھاتا تھا۔ وہاں کے بچے بہت ذہین اور اچھے بچے تھے۔ وہاں مہینہ کی پہلی دوسری اور تیسری تاریخ سے بچوں کے سرپرست انکے فیس جمع کرانے کے لئے آتے تھے۔ سکول کے پرنسپل پر چونکہ کام کا بوجھ بہت زیادہ تھا، تو میں اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کی مدد کرتا تھا۔ ان سرپرست میں سے ایک جوان سا لڑکا اچھا خاصا قد، بڑے بال، بڑی بڑی آنکھیں، چہرے پر مسکان، یعنی بھر پور شباب کا آغاز، صاف ستھرے کپڑے۔
مجھے وہ شخص بہت پسند آیا اور جب وہ اپنے بچوں کی فیس جمع کرنے کے لئے میرے پاس آیا تو ہماری بات چیت شروع ہوئی ۔میں اس کے انداز گفتگو سے بہت متاثر ہوا اور ایک ہی لمحے میں وہ میرا دوست بنا اور وہ کام فارغ کرنے کے بعد چلاگیا۔ کچھ دنوں بعد وہ پھر سے ہمارے سکول میں کسی کام سے آیا اور میں ایک بار پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر داستانیں کھولنے لگا۔ میں نے اس کے بارے میں پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہو تو وہ کہنے لگا کہ میں اپنے والد کا بڑا بیٹا ہوں پہلے تو سکول پڑھتا تھا،حالات کی مجبوری کی وجہ سے سکول چھوڑ نا پڑا، چونکہ گھر کے حالات ٹھیک سے نہیں چل رہے تھے۔
تو میں نے ایک شاپنگ مال میں ایک دکان والے کے ساتھ مزدورکی حیثیت سے کام شروع کیا۔اس کے بعد کی کہانی یہ ہے کہ اس دوران دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہم نہیں ملے ہیں لیکن اب اچانک ایک دن مجھے وہ شہر میں ایک دکان پر ملا۔ وہ مجھے عجیب سا لگ رہا تھا۔ اب تو نہ اسکے بڑے بال تھے، نہ چہرے پر رونق، اورنہ وہ تبسّم جو مجھے بے حد پسند تھی، نہ صاف ستھرے کپڑے، نہ وہ انداز گفتگو جو اس کے بولنے میں تھا۔ اب وہ جب میرے ساتھ باتیں کرتا رہا تھا تو اسکا پورا جسم ہل رہا تھا اور اس سے کھڑا نہیں رہا جارہا تھا۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے دو سال جیل میں گزارے ہوں اور ابھی ابھی باہر آیا ہو۔ وہ اپنے ہاتھوں کو یوں ہلا رہا تھا جیسے وہ پیدائشی طور پر اس مرض میں مبتلا ہو۔ مجھے بہت دْکھ ہوا اورمیں سمجھ گیا کہ یہ اب کسی نشے کا شکارہوچکا ہے۔ جب میں نے اس سے اس کی کمزوری کی وجہ پوچھی تو وہ مجھے بہت پچھتاوے کے انداز میں یہ کہہ رہا تھا کہ میں تو برباد ہوا، میں نے چرس پینا شروع کیا، بیمار ہوا ہسپتال میں زیر علاج تھا، 15 دن تک جیل میں بند رہا، پولیس والوں نے مجھے بہت مارا، پھر بھائی آیا اس نے کسی طریقے سے وہاں سے چھڑ وادیا۔
میں یہ سن کر حیران ہوا کہ بھلا ایک ایسا نوجوان کیسے منشیات کا شکار ہوسکتا ہے، جب میں نے یہ پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا تو وہ کہنے لگا کہ دوستوں کی محفلوں میں رہ کر یہ سب کچھ ہوا ۔وہ کہہ رہا تھا کہ ایک دن ایک دوست نے مجھے چرس دیا اور میں نے پینا شروع کیا، اس دن سے مجھے یہ لت پڑ گئی۔ مجھے بہت افسوس ہوا اور مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اچھی صحبت آدمی کو اچھا بنا دیتا ہے اور بری صحبت برا۔ لہٰذا اپنے بچوں، بھائیوں اور اپنے عزیزوں پر نظر رکھیں، اللہ نہ کرے کہ کسی دن آپکا لاڈلا بھی منشیات جیسی لعنت کا شکار ہوجائے۔ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ منشیات کی تدارک کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ ہماری نوجوان نسل برباد ہونے سے بچ سکے۔