آج جو غیر ملکی معاہدے ناقص ہونے کی وجہ سے ناکام ہورہے ہیں بنیادی طور پر بدنیتی سے ناکام ہونے ہی کے لیے کیے گئے تھے۔ مفاد پرست عناصر نے اپنی جیبیں بھریں اور اب ان معاہدوں کا بوجھ ملک کو اٹھانا پڑرہا ہے۔ ایک کے بعد ایک بھاری جرمانے میں ملکی زرمبادلہ ضائع ہورہا ہے اور ان ناکام معاہدوں کے قانونی اور مالی آسیب ہمارے تعاقب میں ہے۔ براڈ شیٹ ان کئی افسوس ناک مثالوںمیں سے ایک ہے۔ براڈ شیٹ معاہدے سے ہونے والے نقصان کا ازالہ تقریباً نا ممکن ہے کیوں کہ اس کی شرائط کے بارے میں دیانت دارانہ اور مکمل تفصیلات ہی فراہم نہیں۔
جو لوگ اس کے ذمے دار ہیں ان کی جواب دہی نہیں ہوئی۔ ایک دیانت دار اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل فوجی لیفٹیننٹ جنرل محمد امجد کو جنرل مشرف نے قومی احتساب بیورو(نیب) بنانے کی ذمے داری دی۔ ابتدا میں جنرل مشرف احتساب کے اپنے وعدوں سے مخلص رہے لیکن رفتہ رفتہ اپنی بقا کے لیے انہوں نے اس پر سمجھوتا کرلیا۔ جنرل امجد نے پاکستان سے کرپشن کے ذریعے حاصل کردہ سرمائے سے لندن میں بنائے گئے 200 مشتبہ اثاثوں اور جائیدادوں کی بازیابی کے لیے 2000ء میں براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کیں۔
پاکستان میں فارنسک شواہد کے حصول اور غیرملکی اداروں کے ساتھ اس سلسلے میں معاملہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک درست اقدام تھا۔ جنرل امجد سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اس کام کے لیے لارنس کالج میں اپنے ہم جماعت فاروق آدم خان اور سعید اختر جیسے لوگوں پر اعتماد کیا۔ جیل میں سزا کاٹنے کے دوران ان دونوں کی شخصیت یکسر تبدیل ہوچکی تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے نیب میں امجد کے نائب ڈی جی اور دیانت دار فوجی میجر جنرل عنایت اﷲ نیازی کو اپنے راستے سے ہٹایا۔ عنایت اﷲ نیازی ان اعلیٰ خصوصیات کی مثال تھے۔
جو لارنس کالج میں پڑھنے والوں کی پہچان سمجھی جاتی ہیں۔ یہ رکاوٹ دور ہونے کے بعد ان دونوں نے اپنی جیبیں بھرنے کے لیے نیب میں پلی بارگین کرنے والوں کی قطاریں لگوادیں۔ بقول جنرل امجد کے براڈ شیٹ کے معاہدے سے اس صورت میں کیا توقع کی جاسکتی تھی کہ فاروق آدم کا بیٹا اس سے منسلک ایک کمپنی کا ملازم تھا؟ لیکن بدقسمتی سے ان لوگوں کو بے نقاب کرنے میں امجد سے بہت دیر ہوگئی۔ جنرل مشرف کی کارروائی کا مرکزی ہدف نواز شریف اور ان کے خاندان کی کئی دہائیوں پر محیط اربوں کی کرپشن تھی۔
بے نظیر بھٹو ، ان کے خاوند آصف زرداری اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کے نام اس فہرست میں بہت بعد میں شامل کیے گئے۔ براڈ شیٹ کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں بازیاب ہونے والے اثاثوں کی مالیت کا 20فی صد بطور ادائیگی دینا طے پایا تھا۔ سیاسی جواز حاصل کرنے کے لیے مشرف حکومت کو انہی لوگوں کی ضرورت پیش آئی جن کے نام براڈ شیٹ اور انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری کو دی گئی فہرستوں میں بھی شامل تھے، اسی لیے یہ نام نکالنے کی ہدایت کردی گئی۔ ان ناموں کو نکالنا ایک طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی اور یہ یک طرفہ طور پر ممکن نہیں تھا۔ اسی بنیاد پر معاہدے کے زیر التوا مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے۔
جب یہ ممکن دکھائی نہیں دیا تو نیب نے 2003میں براڈ شیٹ اورآئی اے آر سے معاہدہ ہی معطل کردیا۔ 5نومبر 2007کو مشرف نے کرپشن کے ملزم سیاست دانوں، سیاسی کارکنان اور بیوروکریٹس کو این آر او دے کر احتساب کی بساط لپیٹ دی اور کرپشن کو قانونی شکل دے دی۔ نومبر 2009 میں حکومت پاکستان نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے حکم پر این آر او سے مستفید ہونے والوں کی فہرست جاری کی۔ اس فہرست کے 8041ناموں میں سے اکثریت بیورکریٹس کی تھی۔ اس میں صدر آصف زرداری، خود وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، رحمان ملک، حسین حقانی اور شریف خاندن جیسی نمایاں سیاسی شخصیات کے نام بھی شامل تھے۔
اور ان میں سے کئی نام براڈ شیٹ کو دی گئی فہرستوں کا بھی حصہ تھے۔ 16دسمبر 2009کو سپریم کورٹ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس(این آر او) کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کردیا اور یہ 8041لوگ قانون کی نظر میں پھر سے کرپشن کے ملزم ہوگئے۔ معاہدہ منسوخ ہونے سے پہلے ہی براڈ شیٹ اور آئی اے آر بیرون ملک مذکورہ لوگوں میں بعض کے اثاثوں کا پتا لگا چکی تھی اور معاہدے کے مطابق اس پر اپنے حصے کی رقم کا مطالبہ کررہی تھی۔ یہ معاملہ بالآخر برطانیہ کی عدالتوں میں پہنچ گیا۔ اس وقت تک مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا تھا اور 2008میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی۔
اس معاملے کو نمٹانے کے لیے پیپلز پارٹی نے ایک غلط کمپنی کو 15لاکھ ڈالر کی ادائیگی کردی لیکن اس سے عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ایک مرحلے میں آئی اے آر کو ادائیگیاں ہوگئیں اور صرف براڈ شیٹ کے واجبات باقی رہ گئے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ادوار میں براڈ شیٹ کے ساتھ جاری مصالحتی کارروائی ٹالی جاتی رہیں۔ 2016میں مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں یہ قانونی کاررروائی نتیجے کو پہنچی اور فیصلہ سنادیا گیا۔ اس میں تعجب کی بات نہیں کہ نواز شریف حکومت نے یہ معاملہ خفیہ رکھا کیوں کہ اس معاملہ کا محورہی نواز شریف کے اثاثے تھے۔
برطانوی عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ایون فیلڈ کی جائیدادوں سمیت شریف خاندان کے جن غیر قانونی اثاثوں کے بارے میں براڈ شیٹ نے معلومات فراہم کیں اس کے عوض کمپنی کو 2کروڑ پانچ لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی جائے۔پی ٹی آئی کی حکومت کو یہ جنجال ماضی کی حکومتوں سے ورثے میں ملا۔ اس حوالے سے سینیٹ ارکان کو تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے بتایاکہ شریف خاندان کے ایون فیلڈ اور دیگر اثاثوں سے متعلق 2کروڑ 15لاکھ کے واجبات کے دوسرے حصے کی ادائیگی کا معاملہ 15لاکھ ڈالر میں طے پایا اور 1کروڑ 90لاکھ ڈالر کی ادائیگی شریف خاندان کے دیگر اثاثوں کے لیے طے ہوئی۔
حکومت پر 2کروڑ 15لاکھ واجب الادا تھے جو کہ اس معاملے کے مسلسل مؤخر ہونے کے باعث سود کی رقم سمیت مجموعی واجبات 2کروڑ 90لاکھ ہوگئے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 31دسمبر 2020کو یہ رقم ادا کردی کیوں کہ اب اس معاملے کی کہیں اور اپیل ممکن نہیں رہی تھی اور عدم ادائیگی کی صورت میں پانچ ہزار ڈالر یومیہ کا جرمانہ مقرر کردیا گیا تھا۔ اس معاملے پر وفاقی کابینہ کی تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی اور سپریم کورٹ کے ایک ممتاز اور دیانت دار سابق جج شیخ عظمت سعید کو کمیشن کے لیے نامزد کیا گیا۔ اندازہ لگائیے کہ اس پر اپوزیشن نے واویلا کیوں مچا رکھا ہے؟
برطانوی عدالت کے براڈ شیٹ سے متعلقہ فیصلے اور اس کمپنی کے مطابق غیر قانونی مال بنانے والے پاکستانیوں کی ذمے داریوں کے تعین کے لیے اس کمیشن کو 45دن میں اپنا کام مکمل کرنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کے ذہن میں احتساب کا واضح تصور ہی قائم نہیں ہوسکا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان دنیا میں تنہا نہیں لیکن یہ کہہ دینے سے ہمارے درد کا مداوا تو نہیں ہوتا۔ احتساب کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے لیے خود کو جوابدہ تسلیم کرے۔ ابتدا ہی سے بچوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ہر فعل اور اس کے نتائج کے ذمے دار ہیں۔
اگر وہ کھڑکی یا شیشہ توڑ دیں یا کسی کو ضرر پہنچانے کا باعث بنیں تو اس کا ازالہ بھی خود انہیں کرنا چاہیے۔ دوسروں کے نقصان پہنچانے کے کسی بھی کام کی ذمے داری خود قبول کرنے کی تربیت نہ ہو تو یہ رویہ عملی زندگی میں سنجیدہ مسائل پیدا کرتا ہے۔یہی رویہ پھر مالی ، مادی اور اجتماعی نقصان سے بے پروا کردیتا ہے۔ ذمے داریاں بڑھنے کے ساتھ جواب دہی کے احساس کی ضرورت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنی ذمے داری کا احساس کرے تبھی ہماری نظر اپنے فیصلوں کے نتائج و مضمرات پر بھی رہے گی۔
یہی احساس ذمے داری معاہدوں سے بھی جڑا ہے۔ چاہے معاہدہ تحریری ہو یا زبانی۔ کسی بھی معاہدے کی پاس داری اس کے تمام فریقوں کی ذمے داری ہوتی ہے۔ خلاف ورزی سے نکلنے والے نتائج بھی معاہدوں میں واضح کردئیے جاتے ہیں اس لیے کسی بھی دستاویز پر دستخط کرنے سے قبل اس کی باریک بینی کے ساتھ جانچ پڑتال کو ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ مغرب میں بتدریج معاہدوں کی اہمیت اور ناگزیریت کے تصور نے جڑیں پختہ کی ہیں۔ ایک بار معاہدہ ہوجانے کے بعد اخلاقی تقدس حاصل کرلیتا ہے اور اس سے علیحدگی بھی اسی معاہدے کے طے شدہ دائروں میں رہتے ہوئے کی جاتی ہے۔
پاکستان اور دیگر کئی ایسے ممالک ہیں جہاں معاہدے اور اس سے جڑے سرمایہ دارانہ فلسفے کا تصور پختہ نہیں اور ان میں بار بار اوریک طرفہ تبدیلیوں کو روا سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اس طرز عمل سے فریقین اور بالخصوص کمزور فریق کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ ایسے ڈھیلے ڈھالے معاہدے کسی بھی فریق کے حق میں نہیں ہوتے۔ پاکستان نے اس کج فہمی کا بھاری نقصان اٹھایا ہے۔ عوام کی نظروں سے اوجھل جاری اس پس پردہ ڈرامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے جس احتساب کو اپنے اولین اہداف میں شامل کیا ہے۔
اس کا حصول آسان نہیں اور اس کے لیے کئی مشکل فیصلے درکار ہیں۔ خاندان ، دوستی یا کسی بھی تعلق سے بالاتر ہوکر یکساں احتساب ہی اصل احتساب ہے۔ کچھ دو کچھ لو کی ذہینت پر قائم یہ نظام اب بدلنا ہوگا۔ کرپٹ سیاستدان اور بیورکریٹس نے قومی خزانے کی لوٹ مار سے جو دولت کے انبار لگائے ہیں انہی سے ایسے معاہدات کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کروانا چاہیے۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس سے اس ملک کے غریب عوام کے زخموں پرمرہم رکھا جاسکتا تھا، ملکی معیشت کو درست راہ پر ڈالا جاسکتا تھا اور اس ملک کے عوام کو تعلیم و صحت کی بنیادی ضروریات فراہم کی جاسکتی تھیں۔
این آر او سے فائدہ حاصل کرنے والے 8041 لوگ ہوں یا اب تک اس ملک میں کرپشن کرنے والے دیگر عناصر، سبھی کی جوابدہی اور لوٹی گئی دولت کی ان سے واپسی ناگزیر ہوچکی ہے۔ ذمے داری قبول کرنے کا چلن اسی وقت عام ہوگا جب اس میں غفلت کا عذاب بھی جھیلنا پڑے۔ منزل کتنی ہی دور اور راستہ کتنا ہی دشوار کیوں نہ ہو، پہلا قدم پہلی شرط ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)