ماہر نفسیات انتھونی اسٹور لکھتے ہیں کہ ” کرہ ارض پر جنم لینے والی تمام انواع میں انسان سب سے زیادہ ظالم اور سفاک ہے ” باظاہر تو یہ ایک جملہ ہے لیکن اپنے اردگرد معاشرے پر نظر دوڑاتے ہوئے اس جملے کی حقیقت پر غور کریں تو صرف میں نہیں معاشرے کا ہر باشعور فرد یہی کہے گا کہ ہمارے اندر انسانیت ناپید ہو چکی ہے۔ہمارے اندر سفاکیت اور درندگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہم اشرف المخلوقات کہلوانے کے لائق بھی نہیں رہے۔ ابھی چند دن پہلے ساہیوال کے نواحی گاؤں میں ظالم وڈیرے نے ظلم کی ایسی انتہا کر دی۔
جس سے انسانیت ہی شرما گئی۔بیٹی کو چھیڑنے سے منع کرنے پر غریب مزدور کا پولیس کو وڈیرہ کے خلاف درخواست دینا مہنگا پڑ گیا۔وڈیروں نے کسان کو اسلحے کے زور پر اٹھا لیا اور گلے میں کتے کا پٹہ ڈال کے کتا بنا کر غریب کسان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا،اسے کتا بنا کر بازاروں میں گھسیٹتے رہے اور کتے کے برتن میں کتے کی طرح پانی پلاتے رہے۔غریب کسان روتے ہوئے اللہ کے واسطے دیتا رہا لیکن انہیں خوف خدا نہ آیا اور اس کی عزت کی دھجیاں اڑانے کے لیے ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ہم مسلمان ہیں ہمارا مذہب اسلام امن کا داعی ہے کیا وہ اس طرح کے گھٹیا کاموں کی اجازت دیتا ہے ہرگر نہیں۔اب زمین کانپ جاتی ہے،عرش ہل جاتا ہے،مگر یہاں لوگوں کے ضمیر نہیں کانپتے۔
ہمارا معاشرہ تعلیم یافتہ لوگوں سے بھر گیا ہے۔آج کا انسان سائنس میں ترقی کی منازل کو چھوتے ہوئے چاند پر قدم رکھ چکا ہے۔مگر انسانیت کا سبق جس کو پڑھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اس سے یہ کوسوں دور ہے۔آج کل ہمارے معاشرے میں انسانیت دم توڑ چکی ہے۔دولت اور طاقت کے نشے میں آ کر آئے روز غریب لوگوں پر ظلم کیا جاتا ہے۔کہیں گھر میں کام کرنے والی معصوم بچیوں کو مارنے پیٹنے کے ساتھ زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے،کہیں ڈیرے پر کام کرنے والے حالات سے مجبور آدمی کو کتا بنا کر مارا پیٹا جاتا ہے۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جنگلوں میں رہنے والے خونخوار جانوروں کا بھی کوئی نہ کوئی قانون ہوتا ہے لیکن اکیسویں صدی جیسے ترقی یافتہ دور میں رہنے والے انسانوں کی نفرتیں،رقابتیں ،حسد،ہوس،بغض اور لالچ انسان کو جنگل کے دور سے بھی بہت پیچھے لے جا چکی ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اس کو اشرف المخلوقات ہونے کی لاج رکھنی چاہیے،اسے محبت، شفقت،رحم دلی،عفوودرگزر کا پہاڑا پڑھنا چاہیے لیکن اس میں سفاکیت ،ظلم و بربریت اور درندگی عام ہو چکی ہے اس میں فرعونیت کا کالا دھن گھل کر چکا ہے۔
انسانیت کا جنازہ انسانوں کی دھوم میں آہوں اور سسکیوں سے اٹھ رہا ہے مگر ہم اتنے بے حس و لاغرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ہم اپنے آباؤاجداد کی روایات کو بھول چکے ہیں۔ہماری آج کی نئی نسل میں مغربیت رچ گئی ہے۔ہم مسلمان صرف اس لیے ہیں کہ ہم مسلمان خاندان میں پیدا ہوئے ہیں۔عملی طور پر ہمارے اعمال صفر ہیں۔دنیا میں ہر مذہب سے بڑھ کر انسانیت کا مذہب ہے۔اگر ہمارے اندر انسانیت کا جذبہ نہیں تو پھر ہم درندے ہیں انسان بالکل بھی نہیں۔
انسانیت ایک ایسا جذبہ ہے۔
جو انسان کو انسان سے وابستہ رکھتا ہے۔اور اگر یہ جذبہ انسانوں کے دلوں سے ختم ہو جائے تو معاشرہ،قوم اور سلطنت سب تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس معاشرے میں بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے،باپ اپنی ہی اولاد کو قتل کر دیتا ہے،وہاں نہ حوا کی معصوم پھول جیسی بیٹی آزاد ہوتی ہے نہ کسی ماں کا جوان بیٹا۔وہ معاشرہ سماجی برائیوں میں مبتلا ہو کر تاریک سے تاریک ہو جاتا ہے۔پرانے زمانے میں جب کہیں کسی کا قتل ہوتا تھا دور دور تک خاموشی چھا جاتی تھی،آسمان کا رنگ زرد ہو جاتا تھا،دل زخموں سے چور ہو کر پھڑ پھڑاتا تھا،لیکن آج ہر طرف خون کی نہریں بہہ رہی ہیں،کسی کی لاش نہر سے ملتی ہے۔
تو کسی کی گندے گٹر سے،آج انسان صرف اپنے لیے جی رہا ہے۔اس کی زندگی کا مقصد صرف اسی کی ہی ذات ہے۔وہ زمانہ چلا گیا جب لوگوں کے دلوں میں دوسروں کے لیے احساس تھا۔بد قسمتی سے اب حالات یہاں تک بگڑ چکے ہیں کہ ہم عیاشی کے لیے لاکھوں خرچ کر لیتے ہیں مگر غریب ہمسائے کے بچے بھوکے مر رہے ہوں چند روپے دینا گوارا نہیں کرتے۔ہم بحیثیت قوم بے حس ہو چکے ہیں۔ہماری غیرت مر چکی ہے۔ہمارے اندر انسایت معدوم ہو چکی ہے۔ہم اپنی خوشیوں کے لیے دوسروں کا آرام و سکون تباہ کر دیتے ہیں۔
خود اونچائی تک پہنچنے کے لیے ہر ناجائز کام کرتے ہوئے انسانیت سے گر جاتے ہیں اور وہ بلندی کس کام کی جس پر انسان چڑھے اور انسانیت سے گر جائے۔اگر شعور و انسانیت ہو تو انسان چڑیا گھر کے پنجرے میں بند جانور کے جذبات بھی سمجھ سکتا ہے۔جب انسان اس دنیا میں بے ضمیری اور نفرت و کدورت کو دل میں ٹھونس لیتا ہے تو وہ انسانیت کے رتبے سے گر جاتا ہے۔انسانیت کا سب سے بڑا احترام یہی ہے کہ انسان کو انسانیت کی سطح سے نہ گرنے دیا جائے۔اس کے اندر جذبہ اسانیت پیدا کیا جائے۔اسے معاشرتی اقدار کو سمجھنا چاہیے۔
یہ سب کرنے کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو دیانت داری سے انسانیت کا سبق پڑھ کر کام کرنا ہو گا ورنہ معاشرہ اخلاقی طور پر بے حس و لاغرض،سماجی برائیوں اور کئی پیچیدہ مسائل میں مبتلا ہو جائیگا جو انسانیت کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔