|

وقتِ اشاعت :   March 4 – 2021

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے  جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں نظرثانی درخواستوں پر سماعت 8 مارچ 2021 تک ملتوی کر دی ۔ عدالت عظمی نے کیس کی کارروائی براہ راست نشرکرنے سے متعلق جسٹس فائزعیسیٰ کی درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

بدھ کو  جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے کیس پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ  عدالت نے آبزرویشن دی کہ لائیو کوریج انتظامی اور پالیسی معاملہ ہے، عدالت کی آبزرویشن پر دلائل دوں گا،سپریم کورٹ آئین کے تحت بنایا گیا ادارہ ہے، اس ادارے کو اختیارات آئین فراہم کرتا ہے۔

آئین سے بالاتر سپریم کورٹ کے پاس کوئی اختیار نہیں، سپریم کورٹ کے 17 ججز اگر قانون بنائیں تو 2 ممبرز بینچ اس کو ختم کرسکتا ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے  ریمارکس دیے کہ عدالت یہاں آپ کو سننے کے لیے ہی بیٹھی ہے، بحث نہ کریں ،کارروائی براہ راست دکھانے پر دلائل دیں، عدالت کے اختیارات کی بات چھوڑدیں۔

اگر لائیو کوریج کا معاملہ فل کورٹ میں جاتا ہے تو کیا فل کورٹ میں بیٹھیں گے؟ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کا مجھے پہلے ایجنڈا موصول ہوگا تو پھر فیصلہ کروں گا، چیف جسٹس سپریم جوڈیشنل کونسل کے چیئرمین ہیں، چیف جسٹس فل کورٹ میٹنگ کی صدارت بھی کرتے ہیں ان کے مفادات کا ٹکراو نہیں ہونا چاہیے، کہا جاتا ہے کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے۔

ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے،انصاف ہوتا ہوا ٹی وی کے ذریعے دکھایا جاسکتا ہے،دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے استفسار کیا کہ  کہ آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ  ٹی وی کی ایجاد سے اب تک جو بھی انصاف ہوا وہ دکھائی نہیں دیا؟جسٹس منصور علی شا ہ نے استفسار کیا کہ آپ کی دلیل یہ ہے کہ سائنس وٹیکنالوجی کی جدت سے نظام عدل میں مزید شفافیت آئے گی۔

جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا کہ پاکستان اور سپریم کورٹ کی تاریخ کا سب سے متنازع فیصلہ ذولفقار علی بھٹو کیس کا تھا،ذوالفقارعلی بھٹو کیس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے جج نے کتاب میں کہاکہ اکثریتی فیصلہ فوجی حکومت کے دبائو میں تھا،دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کھلی عدالت میں سنا گیا تھا، کھلی عدالت کا مطلب تمام پبلک کا موجود ہونا نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا کہ میرے دلائل عدالتی کارروائی براہ راست نشر ہونے کے فوائد کے متعلق ہیں، جو لوگ عدالت نہیں آسکتے ان کیلئے لائیو نشریات موثر ثابت ہوگی، چند وکلا کی وجہ سے لوگوں میں وکلا گردی کا لفظ مشہور ہوگیا،  میں عدالت کے سامنے ایک پٹیشنر جج کے طور پر موجود ہوں، عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات کا حق مجھے نہیں پاکستان کی عوام کو دیا جائے گا۔

اس دوران جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آپ صرف ایک وکیل نہیں ہیں، جو بات آپ یہاں کررہے ہیں وہ ایک جج کی آبزرویشن بن جائے گی، اگر آپ کی کہی باتیں فیصلے میں تحریرہوگئیں تو کل کو وکیل آپکے سامنے یہ دلیل کے طور پر پیش کریں گے۔

آپ نے یہاں بھی بیٹھنا ہے جہاں اس وقت ہم بیٹھے ہیں،کل آپ پر یہ اعتراض آسکتا ہے کہ آپ فلاں کیس پر رائے دے چکے ہیں اس لیے مقدمہ نا سنیں، دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے جسٹس منظور احمد ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ  آپ میرے بڑے ہیں، میں فوجداری مقدمات میں آپ کو اپنا استاد مانتا ہوں۔

اس وقت دنیا کے 180 ممالک میں آزادی صحافت کے معاملے پر پاکستان کا نمبر 147 ہے، آزادی صحافت سے متعلق پاکستان کے اعدادوشمار دیکھ کر میرا سرشرم سے جھک گیا،بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان نے آزادی صحافت کے چارٹر پر دستخط کیے تھے،براہ راست عدالتی کارروائی سے ڈسپلن میں بہتری آئے گی۔

ملک میں35 سال مارشل لاء رہا، ڈکٹیٹر سب سے پہلے ٹی وی کا پلگ نکالتے ہیں، ایک فوجی آمر ٹی وی پر آکر کہتا ہے ‘‘میرے عزیز ہم وطنو’’، میرے عزیز ہم وطنو والے سلسلے کو اب ختم ہونا چاہیے، میں اپنے ملک کا مستقبل ایسا نہیں دیکھنا چاہتا، میں کل کی نشرہونے والی خبروں سے اتفاق نہیں کرتا۔